شہباز شریف کا دورۂ کراچی اور اقتصادی بیرو میٹر
ملک اس وقت بارشوں اور اس کی تباہ کاریوں میں پھنسا ہوا ہے اور اپوزیشن کو ایسے بے درد موسم میں اے پی سی کی پڑی ہوئی ہے۔ بلکہ اپوزیشن کو بھی کیا‘ صرف مولانا فضل الرحمان کو اے پی سی کا سرسام چڑھا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ ماضی میں ان کے اتحادی جو کرتے رہے ہیں اس کے پیش نظر ان کو اگلے ڈیڑھ سو سال تک کم از کم ان دو اتحادیوں کے ساتھ تو کسی قسم کا سلام دعا بھی نہیں رکھنا چاہیے تھا مگر یہ سیاست بڑی ظالم شے ہے۔
اب آپ دیکھیں میاں شہباز شریف کراچی جا کر زرداری صاحب سے مل آئے ہیں۔ لاہور سے اٹھے‘ جہاز پر چڑھے اور کراچی جا کر آصف علی زرداری سے ایسے تسلی سے جا کر ملے جیسے عشروں پرانے دوست ہوں بلکہ سرائیکی اصطلاح میں ”گھاٹے یار‘‘ ہوں۔ کل اتفاق سے چوہدری بھکن سے ملاقات ہو گئی۔ ادھر اُدھر کی باتیں شروع ہو گئیں۔ پاکستان میں ادھر اُدھر کی باتوں کا مرکزی موضوع ظاہر ہے سیاست ہوتا ہے سو دو چار منٹ کے حال احوال کے بعد سیاست پر گفتگو شروع ہو گئی۔ میں نے غنیمت جانتے ہوئے چوہدری سے پوچھا کہ یہ اپنے عاصم سلیم باجوہ والا کیا رولا ہے؟ چوہدری کہنے لگا: شر پسندانہ سوالات پر گفتگو کرنا نہایت ہی نا مناسب بات ہے۔ میں نے کہا: ا چھا چلو چھوڑو یہ بتاؤ یہ عاصم سلیم باجوہ کا استعفیٰ وزیراعظم کی جانب سے مسترد کرنے کی کیا کہانی ہے؟ چوہدری کہنے لگا: بھائی صحافی! اگر تجھے مجھ سے کوئی پرانی دشمنی ہے تو صاف صاف بتا‘ اس قسم کے سوالات کر کے تُو میرے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے؟ میں نے کہا : اس بات کا کیا مطلب ہے؟ وہ ہنسا اور کہنے لگا یہ مطلب بتانا بھی اسی قسم کا ہی قابلِ دست اندازی ٹائپ کام ہے اس لیے اسے بھی رہنے دو۔
میں نے کہا: اچھا چلو یہ بتاؤ کہ میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ملاقات کے دوران کوئی پارٹی سابقہ بیانات یا تقریروں کے حوالے سے شرمندہ تھی؟ چوہدری زور سے ہنسا اور کہنے لگا: میاں شہباز شریف کو تم نے بھولا سمجھ رکھا ہے؟ اس خاندان کا تو ”بھولا‘‘ بھی سو چالاکوں کا ایک چالاک ہے اور میاں شہباز شریف تو ویسے بھی بھولے نہیں ہیں۔ انہوں نے بڑے مناسب وقت کا انتخاب کرتے ہوئے آصف علی زرداری صاحب سے ملاقات کا پروگرام بنا لیا۔ میں نے تفصیل پوچھی تو چوہدری بھکن کہنے لگے: دیکھیں ہم محاورتاً ایسے مواقع پر کہتے ہیں کہ تم کیا منہ لے کر وہاں جاؤ گے؟ یا تم اس سے کس منہ سے ملو گے؟ وغیرہ وغیرہ تو اس کا حل میاں شہباز شریف نے یہ نکالا کہ کورونا کے ایس او پیز کے کندھے پر بندوق رکھی اور منہ پر ماسک چڑھا لیا۔ لئو جی! گل ای مک گئی۔ اب منہ پر نقاب چڑھا ہوا ہے۔ نہ منہ نظر آئے اور نہ ہی یہ مصیبت پیدا ہو کہ کون سا منہ لے کر وہ آصف علی زرداری کے سامنے جاتے۔ اب منہ ہی چھپ گیا تو سارا مسئلہ ہی حل ہو گیا۔ نہ رہے گا بانس‘ نہ بجے گی بانسری۔ نہ ایک دوسرے کا منہ دیکھیں گے اور نہ ہی یہ شرمندگی ہو گی کہ کون سا منہ لے کر وہ آصف علی زرداری کے سامنے جاتے؟
میں نے کہا : لیکن چوہدری! یہ کورونا کمبخت تو گزشتہ چھ ماہ سے زیادہ ہوئے آیا ہوا ہے میاں شہباز شریف کو اتنے عرصے کے بعد اچانک ماسک لگا کر آصف علی زرداری سے ملاقات کا شوق کیوں آن چرایا؟ چوہدری کہنے لگا: یار! تم بھی پرلے درجے کے احمق اور نا سمجھ آدمی ہو۔ میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ میاں شہباز شریف نے بڑے مناسب وقت کا انتخاب کیا ہے۔ آدھے سے زیادہ کراچی پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ کراچی کی سڑکیں اس وقت سڑکیں نہیں‘ ندی نالے بنی ہوئی ہیں۔ بھلا ایسے حالات میں کسی کو سڑکوں پر گھسیٹا جا سکتا تھا؟ سڑک نامی چیز کا فی الوقت کراچی میں کوئی وجود ہی نہیں۔ ہر سڑک دو چار فٹ پانی میں ڈوبی پڑی ہے۔ اب جب کہ نو من تیل ہی میسر نہیں تو رادھا بھلا کیسے ناچ سکتی ہے؟ اوپر سے میاں شہباز شریف کے پانی میں جا کر فوٹو سیشن کروانے والے لانگ شوز بھی کہیں دائیں بائیں ہو گئے ہیں اور مل نہیں رہے۔ تمہیں تو پتا ہے کہ میاں شہباز شریف کا سامان کافی جگہوں پر بکھرا ہوا تھا۔ 90 شارع قائداعظم پر ان کا ایک دفتر تھا۔ 8 کلب روڈ پر دوسرا سیکرٹریٹ تھا۔ ماڈل ٹاؤن میں ایک رہائش گاہ تھی اور جاتی امرا میں دوسری۔ ابھی میں ان کی دیگر ”بیگماتی‘‘ رہائش گاہوں کا ذکر نہیں کررہا۔ اب اللہ جانے یہ جوتے کہاں پڑے تھے اور اقتدار سے علیحدگی کی افراتفری میں کہاں چلے گئے۔ خدا جانے شارع قائداعظم والے دفتر میں تھے کہ کلب روڈ والے دفتر میں؟ میں نے کہا : چوہدری! اگر وہ ان دفاتر میں پڑے ہوتے تو تمہارا کیا خیال ہے نظر نہ آ جاتے؟ چوہدری نے حیرانی سے پوچھا : وہ کیسے؟ میں نے کہا: آج کل لاہور میں بھی بارشوں سے بڑا برا حال ہے۔ اپنے بزدار صاحب بھی اندر سے تو شہباز شریف صاحب بننے کی کوشش کرتے ہیں‘ بلکہ کسی شرارتی شخص نے تو مشہور کر دیا تھا کہ بزدار صاحب سے تونسہ شریف کی کسی بزرگ خاتون نے پوچھا کہ سردار! تو لہور کیا کرینیں؟ (سردار! تم لاہور میں کیا کرتے ہو؟) بزدار صاحب نے جواب دیا: اماں! میں اُتھاں شہباز شریف لگا ہویاں (اماں! میں وہاں شہباز شریف لگا ہوا ہوں) تو ایسے میں جب اپنے بزدار صاحب اندر سے شہباز شریف صاحب سے متاثر ہیں اور وہی کچھ بننے کی کوشش کرتے ہیں تو اب تک وہ یہ والے لانگ شوز پہن کر میدان میں آ چکے ہوتے۔ چوہدری نہایت ہی شر پسندانہ انداز میں ہنسا اور کہنے لگا: میرا خیال ہے بزدار صاحب نے کوشش تو کی ہو گی مگر انہیں شاید جوتے چھوٹے نکلے ہوں گے۔
میں نے کہا: چوہدری! تُو حساب کتاب کے حوالے سے بڑا سمجھدار اور گانٹھ کا پورا آدمی ہے۔ یہ بتاؤ کہ ملک کی مالی صورتحال کیسی ہے؟ قرضوں کی کیا پوزیشن ہے؟ چوہدری کہنے لگا: صورتحال ٹھیک نہیں ہے ‘ڈالر کنٹرول سے باہر ہے اور چوتھے دن پندرہ سولہ پیسے چڑھ جاتا ہے۔ قرضے لینے کی صورتحال بڑی مشکوک ہے۔ مفرور منشی اسحاق ڈار گو کہ خود ایک نمبر کا فنانشل فراڈیا تھا لیکن قرضوں کی صورتحال پر اس کے بیان میں جان ہے کہ گزشتہ دو سال کے اندر اندر چودہ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ درآمدات ویسے ہی ہیں البتہ برآمدات کم ہو گئی ہیں۔ ہم اس کمی کا ملبہ تو کورونا پر ڈال دیں گے لیکن قرضوں والا معاملہ تو قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے‘ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے قرضوں کی رقم روپوں میں دھڑا دھڑ بڑھتی جا رہی ہے۔ اقتصادی صورتحال ناپنے کے یہی ایک دو موٹے موٹے کلیے ہیں۔ اور یہ کلیے بتارہے ہیں کہ صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ میں نے کہا: چوہدری! اُدھر گورنمنٹ قرضوں کا دوسرا افسانہ سنا رہی ہے‘ ان کے بقول ان کے دورِ حکومت میں قرضے لیے کم گئے ہیں اور پرانے قرض اتارے زیادہ گئے ہیں یعنی ادھار لیا کم ہے اور اتارا زیادہ ہے۔ اس حساب سے تو صورتحال اس طرح خراب نہیں جیسی بتائی جا رہی ہے۔ چوہدری کہنے لگے: بھائی صاحب! حساب تو بڑا آسان مضمون ہے‘ جمع نفی کر کے دیکھ لیںاگر قرضے لیے کم اور اتارے زیادہ ہیں تو دو سال پہلے والے قرضوں میں کمی ہونا چاہیے تھی کہ حساب کی رو سے یہی نتیجہ نکلتا ہے لیکن صورتحال وہ نہیں جو سرکار بتا رہی ہے۔ ویسے میرے خیال میں بھی ملک کی اقتصادی صورتحال ٹھیک نہیں ۔ اگر ٹھیک ہوتی تو اپنے کینیڈا والے مولوی طاہر القادری ضرور پاکستان آتے۔ وہ بھی دو سال سے نہیں آ رہے تو خود سمجھ جاؤ کہ ملک کی اور عام آدمی کی معاشی حالت کیا ہے؟ طاہر القادری کی پاکستان میں آمد و رفت کو تم اس ملک کی اقتصادی صورتحال کا جدید ترین بیرو میٹر کہہ سکتے ہو۔