جرمنی میں واقع ہرمن ہسٹوریکا نامی معروف نیلام گھر نے ریشم کے اُس لباس کو 8800 ڈالرز کی کم سے کم قیمت کے عوض نیلامی کے لیے پیش کیا ہے جس کے بارے میں اُن کا دعویٰ ہے کہ یہ ایران کی آخری ملکہ فرح پہلوی کی ملکیت تھا۔
ایران کی آخری ملکہ نے اِس لباس کے بارے میں وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ لباس شاید اُس لباس کا اصل ورژن ہے جو انھوں نے برسوں پہلے کسی کو تحفتاً دے دیا تھا۔
کچھ عرصہ قبل فرح پہلوی نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ آکشن میں پیش کیے جانے والا ریشمی جوڑا وہ اپنے ہمراہ ایران سے نکلتے ہوئے ساتھ نہیں لائی تھیں۔
تاہم بعدازاں انھوں نے بی بی سی کو آگاہ کیا کہ ان کی ایک دوست نے انھیں یاد کروایا ہے کہ نیلام شدہ لباس شاید اس ریشمی لباس کا اصل ورژن تھا جو وہ ایران میں ہی چھوڑ آئی تھیں۔
فرح پہلوی کے مطابق انھیں یاد ہے کہ ایک مرتبہ انھوں نے کڑھائی والا ریشمی جوڑا زیب تن کیا تھا تاہم بعد میں انھیں مشرقی یورپ سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان لڑکی کا خط موصول ہوا تھا جو اُس لباس کو دیکھ کر مسحور ہو گئی تھی۔
ایران کی آخری ملکہ نے بتایا کہ انھوں نے اپنا وہ ڈریس اس لڑکی کو تحفتاً بھیج دیا تھا تاکہ وہ اسے اپنی شادی کے جوڑے کے طور پر پہنے۔ فرح پہلوی کے مطابق اس کے بعد انھوں نے اسی طرح کا ایک اور جوڑا مگر تھوڑے مختلف ڈیزائن میں تیار کروایا تھا۔
دوسری جانب نیلام گھر ہرمن ہسٹوریکا کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سنہ 1975 میں تحریر کیا گیا ایرانی سفارتخانے کا وہ خط موجود ہے جس نے ریشم کے لباس کے مستند ہونے کی تصدیق کی گئی تھی۔
ہرمن ہسٹوریکا نے اس لباس کی تصاویر شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فرح پہلوی اس لباس کا استعمال اہم تاریخی تقاریب میں کیا جیسا کہ امریکہ کے اس وقت کے صدر رچرڈ نیکسن سے ہونے والی ملاقات میں۔
تاہم ہرمن ہسٹوریکا کی ویب سائٹ پر دی گئی تفصیلات کے برعکس اس لباس کی سلائی فرانس میں نہیں کی گئی تھی۔ اس لباس کا آئیڈیا، جو ایرانی فیبرک اور جدید ڈیزائن کا امتزاج ہے، ایران کی دستکاری سے متاثر ہو کر فرح پہلوی نے کیوان خسروانی کے حوالے کیا تھا۔
اس پر ہونے والی کڑھائی کا کام مہتاب نوروزی نے کیا جنھوں نے اس وقت کے رائج فیشن یعنی سیاہ اور سرخ رنگ کے دھاگوں کے استعمال کے بجائے نیلے اور سنہرے دھاگے استعمال کیے۔
مہتاب نوروزی کا انتقال آٹھ برس قبل ہو چکا ہے۔
اپنے بہت سے مشہور کپڑوں میں فرح پہلوی نے ایرانی دستکاری کا استعمال کیا جبکہ اُن پر ہونے والی سوئی دھاگے کے کام میں نمایاں سیستان اور بلوچستان میں بننے والے ڈیزائن تھے۔
جرمنی میں واقع ہرمن ہسٹوریکا انسٹیٹیوٹ، جو بیش قیمت قدیم اشیا کی نیلامی کرنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے، کی ایک حالیہ نیلامی بھی تنازع کا شکار ہو گئی تھی۔ اس نیلامی میں ایڈولف ہٹلر کا ایک ہیٹ (ٹوپی) اور ان کی اہلیہ ایوا براؤن کے ذاتی سامان کی نیلامی کی گئی تھی۔
متعدد یہودی تنظیموں نے اس پر یہ کہتے ہوئے احتجاج کیا کہ اس نیلامی کا مطلب کسی ایسے شخص کی عزت افزائی کرنا ہے جس کو یورپ کی تاریخ کی ’سب سے نفرت انگیز سیاسی شخصیت اور جنگی مجرم‘ کہا جاتا ہے۔
اس ادارے نے 19ویں صدی کے ایک امریکی سپاہی کے تمغے بھی نیلام کیے تھے جس پر امریکہ کے مختلف سیاسی رہنماؤں نے احتجاج کیا تھا۔
ایران میں رہ جانے والے ملبوسات
ایران کی آخری ملکہ نے چند برس قبل بی بی سی فارسی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ جان بوجھ کر اپنے کچھ ایرانی ملبوسات ایران میں ہی چھوڑ آئیں تھیں کیونکہ اُن کا کہنا تھا کہ ’میں اپنے وجود کا ایک حصہ محل میں ہی چھوڑ دینا چاہتی تھی۔‘
دو سال پہلے فرح پہلوی کے ملبوسات اور ذاتی سامان کی ایک نمائش تہران کے سعد آباد پیلس میں ہونا تھی تاہم مختلف وجوہات کی بنا پر اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔
فرح پہلوی کے چند ملبوسات فرانس کے مشہور ڈیزائنرز جیسا کہ کرسچئین ڈائیر اور سینٹ لورینٹ نے بنائے تھے۔
فرح دیبا پہلوی کی شادی شاہ ایران محمد رضا پہلوی سے 20 برس کی عمر میں ہوئی تھی۔ ان کی شادی کا جوڑا بھی فرانسیسی ڈیزائنر سینٹ لورینٹ نے تیار کیا تھا۔