اتنی بے اعتنائی بھی کیا۔ ہم میڈیا والوں کو تو جنرل پرویز مشرف کا کچھ خیال رکھنا چاہیے۔ میڈیا میں جو آسودگی آئی ہے اُنہی کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے نجی ٹی وی چینلوں کی اجازت دی تو ملازمت کے مواقع کھلے اور تنخواہیں معقول ہوئیں۔ ٹی وی کے تمام سٹار اور سپر سٹار اُسی شروعات سے پیدا ہوئے۔ نہیں تو پہلے میڈیا کیا تھا‘ اخبارات ہی تھے اور بیشتر صحافیوں کے حالات‘ وہ کیا لفظ ہے‘ پھکڑ ہوا کرتے تھے۔ میڈیا کی جو کشش پیدا ہوئی وہ بھی تب سے ہوئی۔ پہلے پیشے کے حوالے سے کچھ زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔
ہم میڈیا والے البتہ کہانیاں بنانے کے ماہر ہیں۔ چینلوں کی بھرمار اور میڈیا کی آزادی کے حوالے سے ہم کہانی گھڑتے ہیں کہ ہم پہ کسی نے مہربانی نہیں کی، میڈیا کی آزادی ہماری جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ کوئی بتائے تو سہی کہ میڈیا نے کون سی جنگ پلاسی لڑی تھی جس کی وجہ سے اُسے یہ آزادی ملی؟ چینلوں کے حوالے سے ہم میں سے بیشتر کہتے ہیں کہ عالمی رجحانات ہی ایسے تھے کہ اُن کے سامنے ہمارا ڈکٹیٹر بھی بے بس ہو گیا اور اُسے چینلوں کی اجازت دینا پڑی۔ اِس سے زیادہ فضول بات ہو نہیں سکتی۔ عالمی رجحانات تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مذہب کا دخل امور سلطنت میں نہیں ہونا چاہیے۔ اِن کا ہم نے کتنا اثر لیا ہے؟
3 نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کو غداری سے تشبیہ دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ مانا کہ جنرل مشرف کو ایمرجنسی نافذ نہیں کرنی چاہیے تھی اور تب کے ججوں کو نظر بند نہیں کرنا چاہیے تھا‘ لیکن یہ کیسی غداری تھی کہ ایک مہینے کے شروع میں ایمرجنسی نافذ ہوتی ہے اور اگلے مہینے کے وسط میں اُٹھا لی جاتی ہے۔ یہ بھی اس غداری کا عجیب پہلو تھا کہ دورانِ غداری آرمی کے سربراہ اپنی وردی اُتارتے ہیں اور اپنی جگہ آرمی کی کمان ایک جانشین کے سپرد کرتے ہیں۔ غداری ختم ہوتے ہی انتخابات کا اعلان کر دیا جاتا ہے، وہی انتخابات جن کے انعقاد کے فوراً بعد آنے والا وزیر اعظم نظر بند ججوں کی رہائی کا حکم صادر کرتا ہے۔
آئین سے غداری کی سمجھ تو تب آتی کہ سارا نظام لپیٹ دیا جاتا اور انتخابات کا دروازہ مکمل بند کر دیا جاتا۔ اظہار رائے پہ بھی کوئی پابندی نہیں، ماسوائے ایک عدد کے ٹی وی چینل بھی سارے چل رہے ہوں، اخبارات شائع ہو رہے ہوں، سیاسی پارٹیوں پہ کوئی قدغن نہ ہو اور ایسے انتخابات کرائے جائیں جس میں سرکاری پارٹی یعنی قاف لیگ پٹ کے رہ جائے۔ یہ عجیب آئین سے غداری بنتی ہے۔
جنرل مشرف کا مسئلہ تھا کہ ڈکٹیٹر شپ سے جمہوریت کی طرف آنا چاہتے تھے۔ اِس دوران اُن کا بطور آرمی چیف وردی اُتارنا بھی لازمی تھا۔ اپنی زندگی میں جنرل ضیاء الحق نے کبھی یہ ضرورت محسوس نہ کی اور آخری دم تک وردی سے چمٹے رہے‘ لیکن مبینہ آئین کے غدار مشرف وردی اُتارنا چاہتے تھے۔ وردی پہنے ہوئے ایک مشکوک طریقے سے دوبارہ صدر منتخب ہو گئے لیکن صدارت کا دورانیہ بغیر وردی کے گزارنا چاہتے تھے۔ لیکن جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں تب کی عدلیہ نے اُن کا ناک میں دم کیا ہوا تھا۔ ایک درخواست سپریم کورٹ کے سامنے زیر غور تھی کہ آیا باوردی شخص صدارت کے اہل ہے؟ خطرہ یہ تھا کہ فیصلہ خلاف آئے گا اور اِسی خطرے کے پیش نظر ایمرجنسی کا قدم اُٹھایا گیا۔
غلط ہوا بہت غلط ہوا لیکن آئین کی تدفین کہاں ہوئی۔ ایمرجنسی کے نفاذ کی وجہ سے آئینی سفر دوبارہ شروع ہوا۔ مشرف صدر تو تھے لیکن بغیر وردی کے اُن کے پر کٹ چکے تھے۔ الیکشن بھی ہو گئے، نئی اسمبلیاں معرض وجود میں آ گئیں اور نئے وزیر اعظم اور چیف منسٹروں نے اپنے عہدے سنبھال لیے۔ اس ساری کارروائی میں کوئی بتائے کہ کون سا اتنا بڑا گناہ بنتا ہے؟ یہ ضرور ہے کہ افتخار چوہدری والی عدلیہ معزول کر دی گئی تھی لیکن اگر پیچھے مڑ کے دیکھا جائے تو جب وہ بحال ہوئی‘ اُس نے ملک کی کون سی تقدیر بدل ڈالی؟ اب تو یوں لگتا ہے کہ بحالی نہ بھی ہوتی تو ملک کو کون سا نقصان پہنچنا تھا۔ یہ آج جو ہم وکلاء برادری کے کارنامے دیکھ رہے ہیں اور اِس کے نتیجے میں قانون اور انصاف کا جو حشر ہو رہا ہے اِس صورتحال کے ڈانڈے اُس بحالی سے جا ملتے ہیں۔ پھر جو ہم نے جناب افتخار چوہدری کی سربراہی میں جوڈیشل ایکٹیوازم کا دور دیکھا‘ وہ بھی اُس بحالی کا نتیجہ تھا۔ لیکن آج غداری کا الزام ایسے لگ رہا ہے‘ جیسے پرویز مشرف پاکستان کا سودا ہندوستان کے ہاتھوں کر آئے ہوں۔
عقل نام کی چیز بھی ہمارے ہاں کوئی ہے؟ ایک انتہاء سے نجات ملتی ہے کہ ہم دوسری انتہاء پہ جا پہنچتے ہیں۔ یہ جنرل مشرف کے حوالے سے فیصلے میں صرف ایک پیراگراف کی بات نہیں ہے جہاں معزز جج صاحب لکھتے ہیں کہ مشرف اب ہاتھ نہ آئیں اور کہیں مردہ مل جائیں تو اُن کی لاش ڈی چوک میں تین روز تک لٹکائی جائے۔ اس پیراگراف کو چھوڑئیے۔ بات تو سزائے موت کی ہے، وہ کس حوالے سے بنتی ہے؟ جنرل مشرف آئینی غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن جلد ہی ملک کو آئینی راستے پہ ڈال دیتے ہیں۔ غلطی ہوئی بھی تو سزا اُس مناسبت سے ہونی چاہیے۔ یہ بیٹھے بٹھائے شوق جہاد کہاں سے آ گیا۔ ہماری اجتماعی سوچ میں استحکام کی کمی ہے۔ کبھی یہاں کبھی وہاں، درمیانی راستہ کبھی نہیں۔
یہ بھی دیکھیے کہ جنرل مشرف میں بطور صدر لاکھ خامیاں یا برائیاں ہوں گی لیکن اُن کے بعد کون آتے ہیں؟ جناب آصف علی زرداری۔ وہ آئینی طور پہ صدر منتخب ہوئے، عین آئین کے مطابق۔ لیکن اگر انصاف کے دامن سے ہم نے بالکل چھٹکارا نہیں پا لیا تو فیصلہ کیجیے کہ ملک کے مفاد میں بہتر کون تھا، غیر آئینی صدر یا آئینی صدر؟ تمام ادوارِ حکومت پاکستان پہ بھاری گزرے ہوں گے لیکن پاکستان کی جو آج معاشی حالت ہے اُس کی سب سے زیادہ ذمہ داری پچھلے دس سالہ جمہوری دور پہ جاتی ہے۔ جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم جمہوریت پہ تہمتیں کسیں لیکن اپنی سوچ میں کچھ بیلنس تو لائیں۔
دوسری طرف بھی کچھ سوچ کی ضرورت ہے۔ فیصلے سے تشویش ہوئی ہو گی لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو بیچ میں لایا جائے۔ فیصلہ ایک سپیشل کورٹ کا ہے، یعنی ہماری عدلیہ کے ایک حصے کا۔ بیرونی دشمن کہاں سے آ گئے۔ فیصلہ ایک جج صاحب نے لکھا ہے کسی باہر کی ایجنسی نے نہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہاں بھی بیلنس کی ضرورت ہے۔ یہ بھی بالکل لغو بات ہے کہ متعلقہ جج کا ذہنی معائنہ کرایا جائے اور یہ کہ جج صاحب کا مسئلہ سپریم جوڈیشل کونسل میں لے جایا جائے گا۔ ایسی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ فیصلے کے خلاف اپیل ہونی چاہیے، قانونی دلائل دئیے جائیں اور یہ باور کرایا جائے کہ غداری کہاں سے بنتی ہے۔ اس کے علاوہ کی باتیں بس ویسے ہی ہیں۔
بہت سی کمزوری تو حکومت کی بنتی ہے۔ غداری کے کیسوں میں استغاثہ وفاقی حکومت کی طرف سے ہوتا ہے۔ گو اِس کیس کا آغاز نواز شریف حکومت میں ہوا تھا‘ لیکن ان نئے پاکستان والوں کو اقتدار میں آئے کافی عرصہ ہو چکا ہے۔ ان کو نہیں پتہ تھا کہ کیس چل رہا ہے اور اِس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟ اِن کے پاس یہ آپشن تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد اس سارے معاملے پر نظر ثانی کرتے اور عدالت میں درخواست دی جاتی کہ ہم استغاثہ واپس لے رہے ہیں کیونکہ غداری کی بنیاد بنتی نہیں۔ حکومت نے ایسا کچھ نہ کیا اور جن کو آج زیادہ تشویش ہو رہی ہے اُن کو بھی یہ خیال نہ آیا کہ اِس مقدمے کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں‘ لہٰذا غفلت اور بے وقوفی ہر اطراف سے ہوئی۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ بہت سی اہم چیزوں پہ ہم بروقت نہیں سوچتے اور جب سب کچھ ہو جائے تو ماتم کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔
دریاؤں کے مسئلے کو ہی دیکھ لیجیے۔ ہمیں بہت پہلے سو چ لینا چاہیے تھا کہ اپنے حصے کے دریاؤں پہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ لیکن ہم سوئے رہے اور ہندوستان دریائے جہلم اور چناب‘ دونوں پہ پہل لے گیا اور ہم ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اب ہم روتے ہیں کہ ہندوستان چالاکی کر رہا ہے۔
بیشتر لوگ جانتے نہیں لیکن سیا چن میں بھی ایسا ہی ہوا۔ 1984ء تک سیاچن دونوں اطراف کی فوجوں سے خالی تھا۔ 1983ء میں ہم نے فیصلہ کیا کہ اگلے سال جب موسم بہتر ہو گا تو فوجی دستے بھیج دئیے جائیں گے۔ موسم بہتر ہوا تو ہندوستان کی فوجیں وہاں پہنچ چکی تھیں۔