دنیابھرسے

بیلاروس: حکومت مخالف مظاہرے کی قیادت کرنے والی خاتون رہنما ‘اغوا’

Share

بیلاروس کے دارالحکومت منسک میں حکومت مخالف مظاہرے کی قیادت کرنے والی خاتون رہنما ماریا کولسنیکووا کو نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق بیلاروس کے میڈیا نے عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نامعلوم افراد نے اپنا چہرہ ڈھکا ہوا تھا اور ماریا کو ساتھ لے کر چلے گئے۔

مظاہرے کی قیادت کرنے والی خاتون رہنما کو ایک ایسے وقت میں اغوا کیا گیا جب چند گھنٹے قبل ہی حکومت مخالف شدید احتجاج میں شریک 633 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے ماریا کولیسنکووا کو گرفتار نہیں کیا۔

ماریا کولیسنکووا بیلاروس میں طویل عرصے سے حکمرانی کرنے والے لوکاشینکو کے خلاف 9 اگست کو انتخابات سے قبل اتحاد کرنے والی تین خواتین سیاست دانوں میں سے ایک ہیں اور وہ واحد رہنما ہیں جو انتخابات کے بعد ملک میں ہی موجود ہیں۔

انہوں نے انتخابات کے بعد لوکاشینکو کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج میں کلیدی کردار ادا کیا، جس کے باعث سیاسی بحران پیدا ہوگیا ہے اور عوام، صدر پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کررہے ہیں۔

حکومت مخالفین مطالبہ کررہے ہیں کہ دوبارہ انتخابات منعقد کیے جائیں جبکہ اس مطالبے کو مسترد کردیا گیا۔

خیال رہے کہ انتخابات سے قبل ماریا کولیسنکووا سمیت دیگر اتحادیوں نے صدارتی امیدوار کے لیے سویٹلانا ٹیکھنووسکایا کو چنا تھا جو انتخابات کے فوری بعد پڑوسی ملک لیتھوانیا چلی گئی تھیں۔

اپوزیشن اتحاد میں شامل ایک اور خاتون رہنما ٹسیپکالو بھی ملک چھوڑ چکی ہیں، اس کے علاوہ ایک اور رہنما اولگا کووالکووا بھی دو روز قبل پولینڈ پہنچ گئیں۔

پولینڈ میں موجود ٹسپکالو کا کہنا تھا کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ اگر بیلاروس میں موجود رہیں گی تو گرفتاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اتحادیوں کو بیلاروس میں تاحال کولیسنکووا سے متعلق کوئی علم نہیں ہے کہ وہ کہاں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں ان کے لیے بہت پریشان ہوں تاہم امید ہے کہ وہ جلد ہی رہا ہوں گی۔

ٹسپکالو نے کہا کہ اس وقت ملک میں اپوزیشن قیادت محفوظ نہیں کیونکہ تمام رہنما زیر حراست ہیں یا پھر ملک سے باہر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوکاشینکو مضبوط رہنماؤں کو نشانہ بنارہے ہیں، اس مدت میں انہوں نے دو رہنماؤں کو جیل میں رکھا اور میرے شوہر بھی جرائم کے الزام پر 15 سالہ قید کاٹ رہے ہیں۔

ایک اور رہنما کا کہنا تھا کہ کولیسنکووا کا اغوا بظاہر حکام کی جانب سے اپوزیشن کی رابطہ کونسل ناکام بنانے اور اراکین کو دباؤ میں لانے کے لیے کیا گیا۔

یاد رہے کہ بیلاروس میں 9 اگست کو انتخابات ہوئے تھے جس کے بعد اپوزیشن نے طویل عرصے سے برسر اقتدار لوکاشینکو پر دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا اور شدید احتجاج شروع ہوا تھا۔

صدر الیگزینڈر لیوکاشینکو نے 80 فیصد نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ اپوزیشن رہنما نے اپنی کامیابی کا دعویٰ کیا تھا۔

صدر کے اعلان کے بعد بیلاروس میں شدید احتجاج شروع ہوا تھا جس کو 1991 میں سوویت یونین سے آزادی کے بعد بدترین احتجاج قرار دیا جارہا ہے۔

یورپی یونین نے انتخابات کے متنازع نتائج کو مسترد کرتے ہوئے صدر الیگزینڈر لیوکاشینکو کی حکومت پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی تھی۔

یورپی یونین کونسل کے صدر چارلس مائیکل نے ہنگامی اجلاس کے بعد بتایا تھا کہ ہمارا بلاک بیلاروس کے عوام کے ساتھ ہے، صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی جیت نہ تو شفاف تھی اور نہ ہی آزادانہ انتخاب تھا۔

چارلس مائیکل کا کہنا تھا کہ جلد ہی کشیدگی پھیلانے، دباؤ ڈالنے اور انتخابات میں دھاندلی کے ذمہ دار افراد تک پہنچا جائے گا۔

پابندیوں سے متعلق انہوں نے کہا تھا کہ ان پر یورپی یونین میں سفری پابندی ہوگی اور اثاثے بھی منجمد ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی شفاف تھے اور بین الاقوامی معیار پر بھی پورے نہیں اترتے تھے، بیلاروس کے حکام کی جانب سے پیش کیے گئے انتخابی نتائج کو ہم نہیں مانتے ہیں’۔

بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو 26 برس سے ملک میں حکمرانی کر رہے ہیں لیکن انتخابات کے بعد ہونے والے احتجاج نے حکومت پر ان کی گرفت کمزور کردی ہے۔