کالم

چین، ایشیائی تعمیر، ترقی و سرمایہ کاری بینک اور پاکستان

Share

افغانستان میں مداخلت کی وجہ سے سلطنتِ برطانیہ خود کو سمٹنے، سکڑنے سے نہ بچا سکی۔ فوج کشی کے نتیجے میں روس میں معاشی بد حالی نے جنم لیا، نتیجہ اُس کی شکست و ریخت کی صورت میں نکلا۔دنیا کی دو میں سے ایک سپر پاور امریکہ نے برطانیہ اور روس کے انجام کو پسِ پشت ڈالا اور افغانستان ہی میں لشکر کشی کر دی، چنانچہ اُسے نہ صرف بد امنی اور کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ ساتوں اقلیموں کے ہر ملک نے کسی نہ کسی طرح ا ُس کی ’دہشت گردی‘ کے خاتمہ کے نام پر شروع کی گئی جنگ کو بھگتا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔اِس سب اور اِس جیسی دوسری چھوٹی بڑی جنگی مہموں سے جس ملک نے خوب سبق سیکھا اور اُس کے پیشِ نظر فوری طور پر پالیسیاں بنائیں، اُس کا نام چین ہے۔سیاست، معیشت، ثقافت،تجارت اوربین الاقوامی تعلقات وغیرہ کے حوالے سے اُس نے رائج طریقوں کو متروک قرار دے کر اپنی ترقی کے حصول کے لئے دنیا بھر کو ساتھ ملا کر چلنے کی نئی، پائیدار اور باہمی احترام پر مبنی پالیسی اختراع کی۔ چین کی اِس ابتکاری(Original)پالیسی کی ایک اہم مثال ایشیائی تعمیر،و ترقی و سرمایہ کاری بینک (Asian Infrastructure Investment Bank)کا قیام ہے۔اُس نے علمی و سائنسی بنیادوں پر معاصر دنیا اور اُس کے مسائل کا تجزیہ کیا اور اِس نتیجے پر پہنچا کہ زور گوئی اور دھونس سے نہ تو ترقی کی جا سکتی ہے اورنہ ہی امن و آشتی کو رواج دیا جا سکتا ہے۔ پھر اُسے اِس بات کا بھی احساس تھا کہ فرد، معاشروں اور ملکوں کی معاشی آسوگی ہی سے امن و سلامتی، بردباری، باہمی احترام اور اعتمادکے سر چشمے پھوٹتے ہیں۔ چنانچہ اُس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے فوائد و ثمرات پر اجارہ داری اور قدغن کی بجائے اُس کے دروازے سب ملکوں کے لئے وا کئے اور اُس کے ثمرات میں سب کو شریک کرنے کی عملی کوششیں کیں۔
ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور آئی۔ایم۔ ایف جیسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے امداد کے نام پر دی جانے والی رقوم اور اُن سے وابستہ شرائط سے دنیا زیادہ غریب ہوئی، عوام،خاص طور پر، ترقی پذیر ملکوں کے باسی تیزی سے غربت کی لکیر سے نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے گئے، صحت، تعلیم،روزگاراور سر چھُپانے کی جگہ سے محرو م ہونے والوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہوتا گیا۔اِس صورتِ حال کے تدارک اور پسماندہ ملکوں اور معاشروں کے محروم طبقات کی محرومیوں کے ازالہ کے لئے عوامی جمہوریہئ چین نے اکتوبر ۳۱۰۲ء میں ایشیائی تعمیر،و ترقی و سرمایہ کاری بینک کے قیام کا عندیہ دیا۔اُس کے مقتدر حلقے کے خیال میں دنیا کے اقتصادی نظام چلانے والے مالیاتی ادارے امریکہ، یورپ اور جاپان جیسے ملکوں کے مفادات کے تابع ہیں اور اُن سے پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں کی خوشحالی کی اُمید باندھنا سرابوں کے پیچھے بھاگنے کے مترادف ہے۔چینی وزیر اعظم لی پنگ نے اپریل ۴۰۱۲ء میں باؤ (BAO) فورم برائے ایشیا کے افتتاحی اجلاس میں اپنے کلیدی خطاب میں ایشیا اور دوسرے برِ اعظموں کے ملکوں کو ساتھ ملا کر بینک کے قیام کا اعلان کیا۔
ایشین ڈویلپمنٹ بینک انسٹیٹیوٹ نے ۰۱۰۲ء میں جاری کردہ اپنی ایک رپورٹ میں ۰۱۰۲ء سے ۰۲۰۲ء کے دس سالوں کے دوران میں خطے میں معاشی ترقی جاری رکھنے کے لئے تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر آٹھ کھرب ڈالرز کی خطیر سرمایہ کاری ضروری قرار دی، اِس حوالے سے موجودہ اور مطلوب سرمایہ کاری میں بڑا فاصلہ تھا، جسے پر کرنے کی اشد ضرورت تھی۔۶۲ اکتوبر ۴۱۰۲ء کے اخبار ’گارڈین‘ کے اداریے میں اخبار نے اِس امر کو وضاحت سے بیان کیا کہ چین مذکورہ بینک کے توسط سے اپنی سرمایہ کاری کے ذریعے خطے کی معاشی اور سماجی ترقی میں اپنا بھر پور کردار اد اکر تے ہوئے، سرامیہ کی کمی کو پرا کر سکتا ہے،جس سے اُس کی میشت مزید ترقی کرے گی نیز دوسرے ملکوں کی مدد سے اُن کے عواام میں اُس کے بارے میں خیر سگالی کے جذبات پیدا ہوں گے، نیزاُس کا سیاسی اثر و رسوخ وسیع ہو گا۔مارچ ۵۱۰۲ تک ایشین ڈویلپمنٹ بینک میں چین کی شراکت 5.47فیصد تھی، جب کہ امریکہ اور جاپان بالترتیب 13 اور 13فیصد شراکت سے مجموعاً 26فیصد کے حصّہ دار تھے۔مذکورہ دونوں ملکوں کے غلبے اور اُن کی طرف سے ریفارم ایجنڈے میں سست روی سے چین اِس بینک کے قیام کی طرف مائل ہوا۔ابتدا میں چین نے 50ارب ڈالر کے بنیادی سرمایہ سے بینک شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی، لیکن جون2014ء میں اُس نے سرمایہ کاری کی حد 100ارب ڈالر تک بڑھا دی۔چنانچہ 24اکتوبر 2014ء میں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ایک تقریب میں بینک کے قیام کی دستاویز پر دستخطوں سے اِسکارسماًآغازہوگیا۔چین،ہندوستان،تھائیلینڈ،ملائیشیا،سنگاپور،فلپائن،پاکستان،بنگلادیش،برونائی،کیمبوڈیا،قزاقستان،کویت،لاؤس،میانمار،منگولیا،نیپال،عمّان،قطر،سری سری لنکا،اُزبکستان اور ویتنام پر مشتمل اکیس ملکوں نے بینک کے قیام کی یادداشت پر دستخط کئے۔
چونکہ ایشین تعمیر،و ترقی و سرمایہ کاری بینک کے قیام سے دنیا بھر میں امریکہ اور اُس کے حواریوں کے مُعاشی اور سیاسی مفادات اور اثر و رسوخ پر زد پڑ رہی تھی، اِس لئے اُس نے آسٹریلیا اور جنوبی کوریا جیسے اتحادی ملکوں پر بینک میں عدم شمولیت کے لئے دباؤ ڈالا، مگراپنے اپنے ملکی مفادات کے پیشِ نظر دونوں ریاستوں نے مارچ 2015ء میں بینک میں شمولیت اختیار کی۔ انڈونیشیا میں حکومت کی تبدیلی کے پراسیس کی وجہ اُس کی شمولیت قدرے تاخیر سے ہوئی، جب کہ مارچ2015ء کے آغاز میں برطانیہ کے وزیرِ خزانہ جارج اُسبورن نے بینک میں برطانیہ کی شمولیت کا اعلان کردیا۔ اگرچہ برطانیہ کے اِس فیصلے پر امریکہ نے اُس سے غیر اعلانیہ احتجاج کیا، مگر اُس نے یہ عذر پیش کرتے ہوئے اپنی شمولیت کا جواز دیا کہ ’بنیادی رکن‘ کے طور پر اُس کی بینک میں شمولیت سے، بینک کے امور میں اُس کا اثر ورسوخ قائم رہے گا۔جلد ہی اٹلی، فرانس اور جرمنی جیسے اہم یورپی ملکوں نے بھی بینک کی رکنیت اختیار کر لی۔
15اپریل 2015 ء تک ایشین تعمیر و ترقی اور سرمایہ کاری بینک کے 57ملک ساجھے دار بن چکے ہیں۔ جن میں سے 37 کا تعلق براعظم ایشیا اور20 کا دوسرے براعظموں سے ہے۔کل بنیادی سو ارب ڈالر کے سرمایے میں چین کا سب سے زیادہ حصّہ29.8فیصد ہے۔ دوسرابڑا ساجھے دار بھارت ہے 8.4فیصد حصّے کے ساتھ، جب کہ اُس کے بعد بالترتیب روس، جرمنی،جنوبی کوریا، آسڑیلیا، فرانس اور انڈونیشیا وغیرہ ہیں۔ پاکستان کا حصّہ 1.2فیصد ہے اور یہ حصّے داری کی شرح کے اعتبار سے سترہویں نمبر پر ہے۔اِس بینک کا قیام یورپی ممالک،خاص طور پر امریکہ اور جاپان کو شدید نا گوار گذرا، چنانچہ دونوں اِس کے رکن نہیں بنے، امریکہ نے تو کھلم کھلا اپنے زیرِ اثر ملکوں پر دباؤ بھی استعمال کیا، مگر بے سود، البتہ جاپان نے بینک میں شریک ہونے کے دروازے خود پر بند نہیں کئے۔شمالی کوریا کی رکن بننے کی درخواست مسترد ہو چکی، جب کی تائیوان کی درخواست زیرِ غور ہے، مگر اُس پر فیصلہ اُس کے نام میں تبدیلی کے بعد ہوگا۔یہ بینک اِسی سال کے آخر یا اگلے سال کے اوائل میں کام شروع کردے گا۔ آج کل بیجنگ میں اِس سلسلے میں اجلاس جاری ہے، جس میں پاکستانی وفد کی نمائندگی وززرِ خزانہ اسحاق ڈار کر رہے ہیں۔ اِس اجلاس میں بینک کے قوانین پیش ہوں گے، جسے تمام مندوبین جانچ پڑتال کے بعد، ضروی مشاورت اور قانون سازی کے لئے اپنے ملکوں میں لے جائیں گے۔ وہاں سے ضروری کارروائی کے بعد، دوبارہ اجلاس میں، اِن کی فائنل منظوری ہوگی اور بینک کام شروع کردے گا۔
چین نہ صرف آبادی کے لحاظ سے دنیا سب سے بڑا ملک ہے، بلکہ وسیع رقبے کے ساتھ ساتھ قدرت نے اُس کے اربابِ بست و کشا کو بڑا ظرف بھی دیا ہے۔اِس تلخ حقیقت کے باوجود کہ پُر امن قوم اور قدیم تہذیب ہونے کے باوجود دنیا نے اُسے الگ تھلگ کئے رکھا، اُس نے تعصب، تنگ نظری اور خود غرضی پر مبنی پالیسیوں سے کنارہ کشی کرتے ہوئے، صرف اپنے ملک نہیں، بلکہ دنیا بھر کی محروم قوموں اور ریاستوں کی ترقی و بہبود کو پیشِ نظر رکھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ چین نے کبھی کسی ملک و قوم پر چڑھائی نہیں، بلکہ اپنی حفاظت کی غرض سے دیوار بنائی تاکہ کسی سے اُس کی کبھی مڈ بھیڑ ہی نہ ہو۔ امریکہ اور اُس کے بعض حواری اِس عالمی ترقی کے ضامن ادارے کی کامیابی کے درپئے ہیں، تاکہ اُن کی اجارہ داری اور دادا گیری قائم رہے۔
اقوامِ عالم میں چین کی طرح پاکستان نے بھی ملکوں اور قوموں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنا مثبت کردار نبھایا ہے۔ فکری یکسانیت اور ہمسایگی کی وجہ سے چین اور پاکستان کا عالمی مسائل پر یکساں موقف رہا ہے۔ آج بھی دونوں کے نقطہئ نظر میں ہم آہنگی ہے۔ دونوں بنی نوعِ انسان کی سماجی، سیاسی، فکری،معاشی اور ثقافتی ترقی اور عروج کے لئے کوشاں ہیں۔اِس سلسلے میں پاکستان کا ایشیائی تعمیر و،ترقی و سرمایہ کاری بینک کے قیام میں بھر پور ساتھ ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ چین کی طرف سے دنیا بھر کے ملکوں تک اپنی مصنوعات مناسب داموں تک پہنچانے اورٹیکنالوجی کے فوائد میں سب کو شامل کرنے کے لئے، پاکستان کے علاقے اور اُس کی گوادر بندرگاہ کے راستے اقتصادی راہداری کی تعمیر ایک اور اہم سنگِ میل ہے۔ ایسے مثبت منصوبوں سے نہ صرف خوشگوارمعاشی انقلاب رونما ہو گا، بلکہ لوگوں کی زندگی کی تلخیاں اور سختیاں کم ہوں گی، جس سے اُن کے روّیوں میں مثبت تبدیلی آئے گی۔ یہ مثبت تبدیلی فطری طور پر امن اور آشتی پھیلانے کا سبب بنے گی اور شدت پسندی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکے گی۔ گویا اِس بینک کی کامیابی سے خلق خدا کے لئے امن و آشتی اور خوشحالی کی منزل تک رسائی سہل ہو جائے گی، ملک اور ریاستیں دوسروں پر جنگیں مسلط کرنے کی بجائے چین کی تقلید کرتے ہوئے، خیر اور بھلائی میں مسابقت کا راستہ اپنائیں گی۔ یوں بین الاقوامی سیاست میں چین کے اِس اسلوب کی وجہ سے نیا، مگر سب کی ترقی اور بھلے کو مدِ نظر رکھنے والا (All inclusive)،بیانیہ مستحکم ہو گا۔ اِس بینک کی کامیابی کا فائدہ سب سٹیک ہولڈرز کو تو ہونا ہی ہے، مگر جن ملکوں کے لئے اِس کی حیثیت ٹرننگ پوائنٹ کی سی ہوگی، اُن میں پاکستان سب سے اوپر ہے۔ اِس پر مستزاد پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ہے، جس کا سرمایہ بینک کے سرمایے کے علاوہ ہے۔