کالم

ہائر ایجوکیشن کمیشن اور جعلی ڈگریوں کا مُعاملہ

Share

سماجی اور انسانی علوم کے حوالے سے اپنے تحفظات کے باوجود اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستا ن نے ۲۰۰۲ء میں اپنے قیام کے پہلے چھ سالوں میں ملک میں اعلیٰ تعلیم و تحقیق کی ترقی اور پیشرفت میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے بے مثال کامیابیاں حاصل کیں، جن کو اندرون و بیرون ملک بھی سراہا گیا، حتیٰ کہ بعض ترقی پذیر ممالک نے اس کے طریقہئ کار اور نظام کو معیاری نمونے(Role Model)کے طور پر اپنانے کا فیصلہ کیا۔غیر جانبدار بین الاقوامی علمی اور ثقافتی شخصیات اور اداروں نے کمیشن کی تشکیل اور اس کے ابتکاری اور بیوروکریسی کی جکڑ بندیوں سے آزادنظام کو پاکستان میں خاموش علمی اورتحقیقی انقلاب کا نام دیا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے کثیر الجہتی انداز میں تیز رفتاری سے اقدامات کرتے ہوئے عصری ضروریات کے پیش نظر سرکاری شعبے میں ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ نئی یونیورسٹیاں قائم کیں نیز پرائیویٹ شعبے میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام کی حوصلہ افزائی کی، پہلے سے قائم اعلیٰ تعلیمی مراکز کو فنڈز فراہم کرنے میں خاصی فیّاضی اور سخاوت کا مظاہرہ کیا۔ نوجوان سکالرز کو میرٹ پر اندرون اور بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لئے وظائف دئیے۔ کانفرنسوں، سیمینارز اور ورکشاپس میں شرکت کے لئے وسائل فراہم کئے، بیرون ملک سے مختلف شعبوں کے ماہرین کو خطیر مشاہروں پر پاکستان کی یونیورسٹیوں میں کام کرنے کی دعوت دی۔ پاکستانی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور محققین کو معروف اور اعلیٰ پائے کی بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے ساتھ مشترکہ علمی، تحقیقی منصوبے شروع کرنے کے مواقع اور فنڈز دیئے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سائنس و ٹیکنالوجی کی لیبارٹریاں قائم کیں، پہلے سے قائم لیبارٹریوں میں جدید مشینری، آلات اور کیمیکلز وغیرہ فراہم کرنے کے لئے خاطر خواہ سہولیات فراہم کیں۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے ریگولر پروگرام شروع کرائے،معیاری علمی وتحقیقی مجلات کی اشاعت میں سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر کی بھر پور سرپرستی کی اور مستند و معتبر بین الاقوامی مجّلات و جرائد میں اپنے تحقیقی مقالات شائع کرانے کے لئے پاکستانی اساتذہ اور ریسرچ سکالرز کو سہولیات دیں.ان سب اقدامات کے نتیجے میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی میدان میں بے مثال ترقی ہوئی، پاکستانی سکالرزکے بین االاقوامی مجّلات میں شائع ہونے والے مقالات اور ملک میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا اور پاکستانی یونیورسٹیوں کو عالمی رینکنگ میں جگہ ملی جس سے پاکستان میں مادی ترقی کے علاوہ اقوام میں عالم میں اس کے قد و قامت اور وقار میں اضافہ ہوا.
ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اس سریع اور بے مثال کارکردگی میں دیگر کئی عوامل کے ساتھ اُس کی خود مختاری کا سب سے بڑا دخل ہے، اگر کمیشن کو شروع دن سے مالی اور انتظامی خود مختاری حاصل نہ ہوتی تو یہ تمام تر وسائل، مخلص اور محنتی افرادی قوّت اور کوششوں کے باوجود کوئی غیر معمولی کام نہیں کر سکتا تھا. اقوام عالم نے صدیوں کے تجربات سے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی مراکز صرف اور صرف خود مختار اور سیاسی دباؤ سے آزاد ہونے کی صورت میں ہی کوئی کارنامہ سر انجام دے سکتے ہیں، اسی لئے ہی دنیا بھر میں یونیورسٹیوں کو سیاست، سخت انتظامی گرفت اور بیوروکریسی سے دور رکھا گیاہے۔پاکستان میں بھی جب تک ہائر ایجوکیشن کمیشن سیاست کے خار زاروں سے محفوظ رہا، اس نے ترقی کا سفرتیزی سے جاری رکھا، لیکن پتہ نہیں کیوں اس کو بھی نظر لگ گئی اور وطن عزیز کے دیگر اداروں کی طرح یہ بھی نمک کی کان میں جا کے نمک ہو نے کو ہے۔ اور اس پرسب سے کاری ضرب سیاست دانوں کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال اور اُن کی تصدیق کے عمل میں اس کو کردار دیا جانا ثابت ہوا۔ عموماًکسی دستاویز کی تصدیق اُسی ادارے کو کرنی ہوتی ہے جو اُسے جاری کرتا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن سیکنڈری سطح سے لے کر پی ایچ ڈی تک نہ کوئی امتحان لیتا ہے، نہ کسی نتیجے کا اہتمام و اعلان کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ڈگری صادر کرتا ہے، پھر کس حساب میں اسے ملک بھر کے بورڈز اور یونیورسٹیوں سے جاری شدہ ڈگریوں کی جانچ،پڑتال اور تصدیق کا کام سونپ دیا گیا اور وہ بھی مقتدر سیاستدانوں کی ڈگریوں کا۔مزید حیرت اور اچنبھے کی بات یہ ہے کہ اس کے ویژن اور بصیرت والے ذمہ داروں نے اس کام کونہ صرف اپنے ذمے لینے میں کوئی دُشواری محسوس نہ کی بلکہ اپنے اصل کام کو کسی حد تک نظر انداز کر کے ایک ضرر رساں اور لا حاصل مشق میں لگ گئے، جس کانتیجہ وہی نکلنا تھا جو سامنے ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کی بحالی پر قومی اسمبلی میں سابق وزیر اعظم سیّد یوسف رضا گیلانی نے ۸۰۰۲ء میں بطور وزیر اعظم اپنے پہلے اسمبلی خطاب میں جب تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کی بحالی کی بات کی تو ملک کے سنجیدہ اور تعلیم دوست حلقوں نے اس پر بجا طور پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے تعلیمی ترقی کو معکوس سمت میں لے جانے کے مترادف قرار دیا۔ مختلف صوبائی حکومتوں،خاص طور پر پنجاب حکومت،نے وزیر اعظم کے اس نقطہئ نظرسے اختلاف کیا،پس طلبہ یونینز بحال نہ ہوئیں، چنانچہ جمہوری دور میں بھی ملک کی تمام یونیورسٹیاں، ماضی کے جمہوری ادوار کے بر عکس،پُر سکون انداز میں بلا تعطل تعلیمی سر گرمیوں میں مشغول رہیں اورپورے ملک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں وقت پر امتحان،داخلے اور تعلیمی سیشن مکمل ہوئے۔ تعجب کی بات ہے کے طلبہ یونینز بحالی کے مضمرات کو بر وقت سمجھنے اور اس کا تدارک کرنے والے اہل سیاست نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی کہ ساری زندگی عملی سیاست کرنے والے جدی پُشتی سیاستدانوں کی ڈگریوں کی تائید جیسے حسّاس معاملات ہائر ایجوکیش کمیشن کے ذمے لگانے سے اس کو سیاسی کھینچا تانی اور انتقامی کارروائیوں سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتاہے، اور ترقی کی راہ پر گامزن یہ ادارہ اگر سیاست کا شکار ہو گیا تو پھر کیسی تعلیم اور کیا ترقی؟۔
گذشتہ کچھ عرصے سے میڈیا میں کثرت سے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ڈگریوں کی تصدیق کے کام کی وجہ سے انتقام کا نشانا بنایا جا رہا ہے، اگر ایسا ہے تو کمیشن سے یہ کام واپس کیوں نہیں لیا جا رہا، یا کم از کم سول سوسائٹی، اہل علم و دانش اورملک کا درد رکھنے والے مقتدر سیاسی حلقے اس طرف توجہ کیوں نہیں کر رہے،الیکشن کا انعقاد اور اس سے متعلق تمام کام صرف الیکشن کمیشن کو ہو زیب دیتے ہیں. پھر طلبہ یونینز کی بحالی سے اختلاف کرنے والوں نے اس مسئلے کی اہمیت اور حسّاسیت کو کیوں نہیں سمجھا؟۔ دیر آید درست آید کے مصداق اب بھی زیادہ نقصان نہیں ہوا، الیکشن سر پر ہیں، الیکشن کمیشن کو با اختیار بنانے کی آوازیں ہر طرف سے اُٹھ رہی ہیں، حتیٰ کہ اس کے لئے دھرنے وغیرہ دینے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔اس صورت حال میں لگے ہاتھوں الیکشن میں حصہ لینے والے سیاست دانوں کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کا کام الیکشن کمیشن کے ذمے لگا دیا جانا چاہیے، اور یہ کام کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے لئے مقرر ہ دنوں میں الیکشن سے پہلے مکمل ہونا چاہئے تا کہ انتخابات کی شفافیت مزید واضح ہو۔اگر ملک میں ہائر ایجو کیشن کا مستقبل عزیز ہے تو ہائر ایجو کیشن کمیشن کو بہر حال اس دلدل سے نکالنا چاہیئے، کیونکہ اس سے ایک تو وہ سیاسی رسہ کشی اور انتقامی کارروائیوں سے محفوظ رہے گا، کیونکہ وہ حکومت اور اسمبلیوں کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا، جب کہ الیکشن کمیشن اس پوزیشن میں ہے کہ وہ حکومت وقت کے سامنے مقاومت کر سکے، اس کے علاوہ وہ اپنے اصلی کام، یعنی ملک میں اعلیٰ تعلیم کی ترقی اور پیشرفت،کی طرف یکسوئی سے توجہ دے سکے گااور اگر اس مسئلے پر اب بھی توجہ نہ دی گئی تو پاکستان میں اعلی تعلیمی کاز کو نا قابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔