کالم

سفرِ تاجیکستان کی دلچسپ یادیں

Share

اکتوبر ۹۰۰۲ء میں پاکستان کے علما، یوینورسٹی سکالرز اور صحافیوں کے ایک بیس رکنی وفد کے ساتھ امام ابو حنیفہ کانفرنس میں شرکت کے لئے مجھے تاجیکستان جانے کا موقعہ ملا۔ اس کانفرنس کا اہتمام حکومتِ تاجیکستان نے رومی فورم اور تُرکی کی کُچھ دیگر این جی اوز کے تعاون سے کیا تھا۔ مجھے اکتوبر کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد کے تاجیکستان سفارت خانہ سے فون آیا کہ تاجیکستان میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہہ پر ایک انٹرنیشنل کانفرنس منعقد ہو رہی ہے، جس میں آپ کو بھی مندوب کی حیثیت سے مدعو کیا گیا ہے، اگر آپ اس کانفرنس میں شرکت کرنا چاہتے ہیں تو اگلے ہفتے اسلام آباد میں تاجیکستان کے سفارت خانے تشریف لائیں تاکہ آپ کی دیگر مندوبین کے ساتھ مُلاقات کے علاوہ پاکستان میں تاجیک سفیرزبیداللہ زبیدوو(پیدائش ۷۵۹۱ء)سے ملاقات کرائی جائے نیز ویزا کے ساتھ ساتھ دیگر ضروری معلومات کے حوالے سے بریفنگ بھی دی جائے۔میں حسب پروگرام لاہور سے اسلام آباد پہنچا اور ڈائیوو بس سٹاپ سے ٹیکسی پر تاجیک سفارت خانے گیا۔ تاجیک سفیر عربی زبان وادب میں پی ایچ ڈی ہیں اوربطور سفیر پاکستان آنے سے پہلے اپنے مُلک میں عربی زبان وادب کے استاد اور تاجیکستان نیشنل یونیورسٹی دوشنبہ میں خطی نسخوں کے سیکشن کے سربراہ رہے ہیں، چنانچہ ثقافتی معاملات اور ان کی نزاکتوں سے خوب واقف ہونے کی وجہ سے تمام ممکنہ مندوبین سے بہت حسن سلوک سے پیش آئے۔ سفارت خانہ کے کلچرل کونسلربختیار رحیموو بھی ایک پڑہے لکھے اور ادب آداب والے انسان تھے، انہوں نے ذاتی طور پر تمام مہمانوں کی خوب خاطر مدارت کی۔ بیس کے قریب مندوبین کے دوپہر کے کھانے کا اہتمام کیا گیانیز انہیں تاجیکستان کا ویزا جاری ہوا، اس کے ساتھ چونکہ تاجیکستان کے پاکستان سے براہِ راست کوئی پرواز نہیں، اس لئے سفیر محترم نے خصوصی شفقت فرماتے ہوئے، کرغیزستان کے سفارت خانے فون کیا کہ اُن کی کانفرنس کے مندوبین کو وہاں کا ٹرانزٹ ویزا دیا جائے، چنانچہ دفتری اوقات ختم ہو جانے کے باوجود کرغیز کونسل خانے نے بھی سب لوگوں کو ترانزٹ ویزا جاری کر دیا۔
جمہوریہئ تاجیکستان نے ۹ ستمبر ۱۹۹۱ء میں روس سے آزادی حاصل کی اور اہل تاجیکستان ہر سال اس دن کو اپنے یوم آزادی کے طور پر مناتے ہیں۔ اس کا شمار سنٹرل ایشیا کے اہم اسلامی ملکوں میں ہوتاہے۔یہ سنٹرل ایشیا کے جنوب مشرق میں واقع ہے، پایہئ تخت اور سب سے بڑا شہردوشنبہ ہے۔ سرکاری اور قومی زبان فارسی ہے جب کہ روسی بھی بولی جاتی ہے، البتہ فارسی عربی رسم الخط کی بجائے سریلیک خط میں لکھی جاتی ہے، کچھ عرصہ سے فارسی کو عربی رسم الخط میں لکھنے کے لئے عملی اقدامات کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ اس کی آبادی تقریباًپچھتر لاکھ افراد اور رقبہ چودہ لاکھ اکتیس ہزار مربع کلو میٹر ہے۔کرنسی کا نام سومونی ہے، جسے روس سے آزادی کے بعد اکتوبر ۰۰۰۲ء میں جاری کیا گیا۔تاجیکستان کی شمال مغرب میں ازبکستان کے ساتھ ۰۱۹ کلومیٹر اور کرغیزستان سے ۰۳۶ کلومیٹر، مغرب میں افغانستان کے ساتھ ۰۳۰۱ کلومیٹر اورمشرق میں چین کے ساتھ ۰۳۴ کلو میٹر سرحد ملتی ہے۔پاکستان اور تاجیکستان کے درمیان تقریباً چودہ کلو میٹر کی واخان کی پٹی کا افغانستان کا علاقہ ہے جس کی وجہ سے ان دونوں ملکوں کی سرحدیں آپس میں نہیں ملتیں۔اس خوبصورت ملک کا ۰۹ فی صد رقبہ پہاڑوں پر مشتمل ہے،شہر وادیوں کے کنارے آباد ہیں۔اگرچہ پاکستان کے ساتھ تاجیکستان کے رسمی روابط ۲۹۹۱ء میں قائم ہوئے، لیکن غیر رسمی تعلقات اور رابطے اس کی آزادی کے ساتھ ہی ۱۹۹۱ء میں شروع ہو گئے تھے۔
امام ابو حنیفہ کانفرنس میں شرکت کے لئے بیس رکنی پاکستانی وفد کرغیزستان کے راستے ایک نجی پرواز پر اسلام آباد سے رات آٹھ بجے روانہ ہوا، اور بشکیک ہوائی اڈے کرغیزستان میں پانچ گھنٹے انتظار کے بعد، دوشنبہ کے پرواز روانہ ہوئی۔ دو شنبہ ہوائی اڈے پر کانفرنس کے وفد کا استقبال کرنے کے لئے اہم ثقافتی و علمی شخصیات پر مشتمل ایک گروپ موجود تھا۔ ہمارے وفد میں مفتی تقی عثمانی جیسی عظیم روحانی شخصیت کے علاوہ پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کچھ لوگ شامل تھے، نیز کچھ ثقافتی اور علمی شخصیات بھی اس کا حصہ تھیں۔ حسن اتفاق سے ہم دو لوگ ڈاکٹر عارف نوشاہی(اسلام آباد) اور میں فارسی جانتے تھے۔ ہمارے استقبال میں آنے والوں نے جب ہم سے فارسی زبان میں گفتگو کی تو انہیں اس پر خوشگوار حیرت ہوئی، چنانچہ انہوں نے زیادہ تر وقت ہمارے ساتھ باتوں میں گذارا اور ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات کے لئے انٹرویوز بھی کئے، جو تاجیکستان ٹیلی ویژن سے بلا مبالغہ بیسیوں دفعہ نشر ہوئے۔ چنانچہ کئی بار سڑک پر جاتے ہوئے وہاں کے لوگ مجھے روک لیتے اور پوچھتے تھے کہ کیا آپ کے ملک کی زبان بھی فارسی ہی ہے۔ ایک بوڑھا آدمی تو سڑک پر بضد ہو گیا کہ میں نے آپ کے اپنے گھر لے جانا ہے، کیونکہ میری فیمیلی ضد کر رہی ہے کہ آپ لوگوں سے اپنی زبان سننی ہے۔
تین روزہ کانفرنس بہت عمدگی سے انجام پذیر ہوئی، دنیا کے مختلف اسلامی ملکوں کے کوئی دو سو کے قریب مندبین نے اس میں شرکت کی۔ اہل تاجیکستان نے نہایت خندہ روئی اور خلوص و محبت سے پاکستانی مہمانوں کی خدمت کی۔ پاکستان سے فارغ التحصیل ایک دوست میرسعید اور پاکستان میں کثرت سے آمد و رفت رکھنے والے فارسی استاد اور کلام اقبال ترنم سے گانے والے اکرم زادہ صاحب نے خاص طور پر وقت دیا اور ہر طرح سے خیال رکھا۔ ہمارا قیام شہر کے وسط میں واقع ہوٹل اوستا میں تھا۔ یہاں سے بعض اوقات فراغت کی صورت میں ہم از خود کہیں باہر گھومنے پھرنے نکل جاتے تو لوگ بہت پر جوش طریقے سے ملتے اور اجنبی ہونے کے باوجود چائے پینے اور گھر آنے کی تاکید سے دعوت دیتے۔ ہوٹک سے تھڑے سے فاسلے پر مسجد تھی جس میں با جماعت نماز پنجگانہ کا اہتمام ہوتا تھا۔ ہم لوگ وہاں مدفون ایک عظیم صوفی شیخ یعقوب چرخی کے مزار پر زیارت اور فاتحہ کے لئے گئے تو مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا، مزار سے متصل مسجد سے اذان آئی تو ہم بھی وہاں نماز پڑہنے چلے گئے۔ امام کے پیچھے نماز ادا کی تو ایسا لگا کہ جیسے پاکستان میں اپنے گاؤں میں نماز ادا کی ہے، بالکل وہی ادب آداب اور طریقہ، مزید مسلّم ہو گیا کہ برصغیر میں اسلام سنٹرل ایشیا سے ہی آیا ہے۔
کانفرنس کے وفد کو ایک شام ایک روایتی ریسٹورنٹ میں کھانے کے لئے لے جایا گیا، کھانے کے بعد محفل موسیقی تھی جس میں کئی گلوکاروں نے پاستانی اور معرف ہندوستانی گیت سنائے۔ چائے بغیر دودھ کے قہوہ کی صورت پینی پڑی، جس کا میں تو اپنے ایران میں قیام سے عادی تھا البتہ دوسرے ارکانِ وفد کو ذرا دقت ہوتی اس کے پینے میں۔ پھل کثرت سے تھے اس ملک کے میں اور خوب کھالئے گئے، بلکہ میں نے اپنی زندگی میں پہلی با سجاوٹ کے لئے پھلوں کے ڈھیر خاص طور پر انگوروں کے میزوں پر ٹیلے بنے ہوئے دیکھے۔ کھانا بتدریج لایا جاتا، اس طرح سے کہ کچھ لوگ ایک دو ابتدائی خوراکیں کھا کے میزوں سے اٹھ گئے تو پتہ چلتا کہ وہ صرف سالاد کی دو تیں قسمیں تھیں، اصلی کھانا ابھی باقی ہے۔ تاجیکستانی لوگ کھانا بہت اہستہ کھاتے ہیں اور قسطوں میں میز پر لاتے ہیں، اور اس کام میں عموماً گھنٹہ بھر وقت لگ جاتا۔ لوگے سحر خیز اور بہت محنتی ہیں، علی الصبح کام پر روانہ ہو جاتے ہیں، موسم وہاں کا بہت ٹھنڈا ہے، پھر بھی صبح آٹھ بجے کانفرنس شروع ہو جاتی تھی، ناشتہ وغیرہ یقینی بات ہے اس سے پہلے ہوتا تھا، اور ہوٹل سے کانفرنس ہال پہنچنے میں بھی آدھ پون گھنٹہ وقت لگ جاتا۔ ایک دن ظہرانہ صدر تاجیکستان جناب امام علی رحمان کے ساتھ دوشنبہ سے چند کلو میٹر دور ایک وادی اور خوش آب و ہوا مقام پر ہوا۔خود صدر محترم بھی شریک تھے، قافلہ انہی کی سربراہی میں دوشنبہ سے روانہ ہوا، لیکن حیرت ہے کہ ۲۹۹۱ ء سے ۷۹۹۱ ء تک شدید خانہ جنگی کے شکار اس ملک میں اسلحہ وغیرہ صدر کے محافظوں کے پاس بھی کم کم دیکھا۔ صدر نے کھانے کے بعد با جماعت نماز ظہر ادا کی پھر ہر ملک کے وفد کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔ چونکہ میں فارسی جانتا تھا س لئے میری نشست ان کے قریب رکھی گئی اور میرے ساتھ ان کا براہ راست مکالمہ ہوا، نیز انہوں نے مجھے بتایا کہ، میرا انٹرویو ٹیلی ویژن پر انہوں نے دیکھا ہے، اور انہیں اس امر پر خوشی ہوئی کی میں ان کی زبان روانی سے بول سکتا ہوں۔
ہمارا دس روز دوشنبہ میں قیام رہا اور ہم نے وہاں بالکل اجنبیت محسوس نہیں کی، وہاں کے لوگ پاکستان سے محبت کا اظہار کرتے ہیں، اور پاکستان اور تاجیکستان کے درمیان عوامی رابطوں اور گرمجوش تعلقات کے خوہاں ہیں۔ پالستان اور تاجیکستان میں تجاتی روابط کے بھی بہت مواقع ہیں، لیکن افسوس کہ ہمارا آپس میں براہ راست فضائی اور زمینی رابطہ نہیں اور تاجیکستان کا سمندرہے ہی نہیں، اس لئے بحری ذریعہ بھی ممکن نہیں۔
ہم بہت ہی خوشگوار یادوں اور دوبارہ جلد آنے کی آرزو سے اس خوبصورت نظاروں اور لوگوں والے ملک سے واپس آگئے۔ زندہ باد تاجیکستان و پاکستان۔