کالم

نجم الرشید،نجمِ سعادت چلا گیا

Share

شعبہئ فارسی پنجاب یونیورسٹی لاہور کے مایہ ناز اُستاد اور محقق ڈاکٹر نجم الرشید ۹۲ رمضان المبارک ۷۳۴۱ہجری / ۵ جولائی ۶۱۰۲ء کو ۷۴سال کی عمر میں ساڑھے تین بجے سہ پہر،شوکت خانم میموریل ہسپتال، کمرہ نمبر ۹۴۲ میں اپنے اہلِ خانہ، دوستوں اور سینکڑوں شاگردوں کو صدمے سے نڈھال چھوڑ کے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ میں ڈاکٹر نجم الرشید کو ہسپتال میں مل کے ابھی نیو کیمپس، اپنے گھر پہنچا ہی تھا کہ ڈاکڑسیّدمحمد فرید کا فون آگیا، نجم صاحب کی طبیعت خاصی خراب ہو گئی ہے،آپ جلد از جلد ہسپتال پہنچیں۔ میں شدید پریشانی میں دعائیں مانگتا وہاں پہنچا تو وہ دوادارو، ڈاکٹر، تیمار داری، عیادت حتیٰ کہ صحت ودرازی عمر کی دعاؤں سے بے نیاز ہو چکے تھے۔وارڈ کے دروازے پر اُن کے کزن عامر رشید رانا نے اس جانکاہ صدمے کا بتایا تو میں جو اپنے تئیں اُن کو دلاسا اور تسلی دینے بھاگا بھاگا وہاں پہنچا تھا، خود دلاسوں اور تسلیوں کا محتاج ہو گیا۔ اپنے اِس عزیز از جان دوست کی یوں ناگہانی موت کا تصوّر بھی سوہان روح تھا چہ جائیکہ اب بے بس ہو کے اُن کی بے نور آنکھوں کو گھورے جا رہااور اپنے نامرادی اور بد نصیبی پراُن سے گلے لگ کے رو رہا تھا۔
ڈاکٹر نجم الرشید یکم اکتوبر ۸۶۹۱ء کو تحصیل کھاریاں ضلع گجرات کے قصبے ڈنگہ میں ایک متوسط گھرانے میں پید ا ہوئے۔ اُن کا خاندان تقسیم کے وقت ریاست رائے کوٹ، لدھیانہ سے ہجرت کرکے یہاں آ بسا تھا۔والد گرامی رانا محمد رفعت خان تحصیل دار تھے اور والدہ صاحبہ تعلیم یافتہ مگر خانہ دار تھیں۔ نجم الرشید نے گورنمنٹ ہائی سکول ڈنگہ سے میٹرک، گورنمنٹ کالج گجرات سے ایف۔اے اور بی۔اے جب کہ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے فارسی زبان وادب سے۰۹۹۱ء میں ایم۔اے، اُنہوں نے۰۰۰۲ء میں تہران یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور ۶۱۰۲ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کیا۔ ستمبر ۹۸۹۱ء میں ایم۔اے میں داخلہ کے وقت میری اُن سے پہلی ملاقات اور تعارف ہوا جواُن ہی کی بے شمار خوبیوں کی وجہ سے جلد ہی دوستی میں بدل گیا،اس میں وقت گذرنے کے ساتھ وسعت و گہرائی آتی گئی چنانچہ ہم عملی زندگی سے لے کر نجی اور بالکل گھریلو ذاتی معاملات تک میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتے اوراُسی کی روشنی میں کوئی عملی قدم اُٹھاتے۔
نجم الرشید نے امتیازی نمبروں سے ایم اے کرنے کے بعد ایرانین کلچرل قونصلیٹ سے پاکستان میں چھپنے والے واحد فارسی سہ ماہی تحقیقی مجلہ ”دانش“ کے معاون مدیر کے طورپر عملی زندگی کا آغاز کیا، یکم مارچ ۸۹۹۱ء کو کوئٹہ یونیورسٹی میں تعینات ہوئے، وہاں دو سال ہی گذرے تھے کہ حکومتِ ایران کے سکالرشپ پر پی ایچ ڈی کرنے تہران چلے گئے۔ ڈگری لے کے وطن لوٹے تو چند مہینے بعد ۳۲ فروری ۱۰۰۲ء کو پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرر ہو گئے، ۰۳ اکتوبر کو اسسٹنٹ پروفیسر بنے، ۵۲ جوالائی ۴۰۰۲ء سے تا دم مرگ ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر خدمات سر انجام دیتے ہوئے دوران ملازمت وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔
نجم صاحب کے ساتھ ۷۲ برسوں پر محیط تعلق میں،میں نے اُنہیں خوشی، غم، پریشانی، سکون، جذباتیت، غصّے،وغیرہ غرض تقریباً ہر کیفیت میں قریب سے دیکھا، بلکہ بعض اوقات اُن میں شریک بھی رہا۔ وہ ایم اے میں میرے شاگرد رہے، پی ایچ ڈی میں چونکہ اُن کا داخلہ اُس وقت ہوا جب میں نصاب پڑھ چکنے کے بعدتھیسسز لکھ رہا تھا اور وہ کلاسز پڑھ رہے تھے، اس لئے ”ہم دورہ“ رہے،، ایک سال کا عرصہ اہل خانہ سمیت تہران میں ایک ہی گھر میں رہے، گویا ایک ہی خاندان بن گئے تھے اور ۵۱ سال کا طویل عرصہ رفیق کار کے طور پر گذارا۔ شادی، غمی، تفریح،تعلیم و تحقیق اور کانفرنسوں وغیرہ میں شرکت کے لئے کئی ملکی اور بیرونِ ملکی سفر اکٹھے کئے۔ کئی بار لین دین کی بھی ضرورت پیش آئی۔ ذاتی اور رسمی ذمہ داریوں میں متعدد مواقع پر ایک دوسرے کی نمائندگی بھی کی۔ ہر قدم، ہر موڑ اور ہر اونچ نیچ میں انہیں سچا، کھرا، نڈر، بے باک، مخلص اور ایثار کیش پایا۔نجم الرشید کے اُٹھنے بیٹھنے،، چلنے پھرنے،ملنے ملانے، بات کرنے سننے، میزبانی و مہمانی، خرید و فروخت، سفر و حضر غرض ہر عمل سے تائید و توثیق ہوتی تھی کہ اُن کا تعلق ایک درخشاں اقدار والے روایتی خاندان سے ہے، جس نے اُن کی اعلیٰ معیار پر تربیت کی تھی۔
ایک نوجوان طالب علم کے طور پر بھی وہ عام روش سے بالکل ہٹ کر تھے، لوگوں کے بر عکس اُن میں کھلنڈرے پن، شوخ طبعی، بے قراری،اضطراب، مقصد براری میں جلد بازی و ہر طریقے سے آگے بڑھنے کی بجائے دھیما پن،مستقل مزاجی، ٹھہراؤ، سکون اور قناعت و ایثار کا جذبہ زیادہ تھا۔ وہ حد درجہ مؤدب اور کسی حد تک شرمیلے تھے، اس پر کم گوئی مستزاد۔ کسی مادی منفعت کے حصول سے زیادہ اُس سے گریز میں لطف پاتے۔ بلا مبالغہ اُن میں غیر معمولی صبر و تحمل اور بردباری و برداشت کا جذبہ تھا اور وہ کم توقع، بے آزار، متواضع، مگر نہایت حسّاس اور گہرے انسان تھے۔ مزاج میں انکسار، عاجزی،گفتگو میں نرمی، سوچ میں پختگی، فیصلہ کرنے میں دو ٹوک اورکھرا پن اُن کا امتیاز اور خاص پہچان تھی۔وہ ہمیشہ لہجہ درُشت اور آواز اونچی کرنے کی بجائے بہت سکون اور نرمی سے دلیل پر مبنی بات کرتے، جس میں تکرار و بے جا اصرار نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔ اختلاف رائے کا احترام کرتے اور اسے غصّے یا نفرت کا درجہ نہیں دیتے تھے۔دو دلی کو اُن کے دل و دماغ میں راہ نہیں تھی، بالکل یکسو و شفاف رویّے کو پسند کرتے،خود بھی اُس پر عمل پیرا ہوتے۔ اپنی کہی ہوئی بات پر قائم رہتے اور کئے ہوئے وعدے پر پورا اُترنے کی آخری حد تک کوشش کرتے۔ کم آمیز تھے اور دوست بنانے سے زیادہ پہلے والوں سے نبھانے کو ترجیح دیتے گویا کمیت (Quantity)سے زیادہ کیفیت (Quality)کو اہم سمجھتے تھے۔ اُن کااس سلسلے میں نظریہ تھا کہ عمر اور رزق وغیرہ کی طرح خلوص اور دوستی کا جذبہ بھی اللہ تعالی انسانوں کو مقررہ مقدار میں عطا کرتا ہے، اسے کثیر تعداد میں تھوڑا تھوڑا بانٹنے کی بجائے کم لوگوں میں زیادہ بانٹنا چاہیئے، پس خود ایسا ہی کرتے۔ خلافِ مزاج ہونے والی بات یا عمل پر سوچ سمجھ کے نپا تلا ردِ عمل دیتے اور، مگر اُس پر نظر ثانی کم ہی کرتے۔قریبی لوگوں کے ساتھ ساتھ خود اپنی ذات کو بھی خوب اہمیت دیتے، چنانچہ معمولی سے معمولی ذاتی باتوں کا بھی خیال رکھتے، حتیٰ کہ گھر کی گھنٹی بجنے پر، رف سے کپڑوں اور سلیپر وغیرہ میں دروازے سے باہر نہیں آتے تھے۔ہمیشہ اجلا،بے شکن، قیمتی لباس پہنتے جو عموماً کسی معروف کمپنی کا بنا ہوتا، جوتے بھی اعلیٰ قسم کے پہنتے جو ہمیشہ پالش شدہ اور چمک رہے ہوتے۔کمال کی حسِ مزاح پائی تھی، کسی کو مزاحیہ جملہ لگانے اور کسی کے جملے کا کرارا جواب دینے میں طاق تھے۔لیکن یہ چاند ماری صرف چند مخصوص دوستوں تک محدود تھی۔ البتہ ڈاکٹر اقبال شاہد اورمجھ پر اُنہیں ہر ہنر آزمانے کاخاص لطف آتا، اگرچہ جوابی کارروائی میں ہم بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔میری کسی کوتاہی کا زبانی کلامی جواب دینے کی بجائے، عملی ترکیب ڈھونڈتے، مثلاً میں اگر کسی دن اُن سے طے شدہ ٹائم سے پندرہ منٹ دیر سے اُن کے پاس پہنچتا تواس پر بالکل احتجاج نہیں کرتے تھے، بس اگلی دفعہ میرے ہاں آنے میں مقررہ وقت سے صرف ایک گھنٹہ تاخیر سے پہنچتے۔ میں احتجاج کرتا تو میری تاخیر کی تاریخ،وقت اور جگہ بتا کے ہنستے اور مسرور ہو ہو جاتے۔ غضب کی یادداشت پائی تھی، واقعات اور اُن کا سیاق و سباق حرام ہے جو کبھی بھول جائے، کسی دوست سے بحث ہو جاتی تو اُس کو اُسی کی کہی بات یا عمل و ردِ عمل یاد دلا دیتے، بحث ختم ہو جاتی۔ لیکن پھر وہی بات کہ وہ اس سب کچھ کا حق دار صرف اور صرف بے تکلف دوستوں کو سمجھتے تھے۔ازل سے ہنس مکھ تھے، ہمیشہ چہرے پر ایک دلاویز مسکراہٹ سجی رہتی جسے قبر میں بھی ساتھ لے گئے۔ اُن کے دوستوں کے پاس اُن کی بہت ساری تصویریں موجود ہیں، خاصی کوشش کے باوجود کوئی ایک بھی ایسی نہیں ملی جس میں وہ مسکرا نہ رہے ہوں۔حتیٰ کہ ولیمے والے دن کی تصویر بھی۔کمال کے با مروّت تھے، کسی کی دل آزاری کو تقریباً گناہ گردانتے اس لئے اس سے حتی الوسع اجتناب کرتے۔
نجم الرشید نے بطور طالب علم محنت سے پڑھا،کثرت مطالعہ سے فارسی زبان وادب کو خوب سمجھا اور اسے اپنی روح و رواں میں راسخ کیا، رٹہ لگانے اور نوٹس بنانے کے وہ قائل نہیں تھے اس لئے مقالات و کتب کو پڑھ کے، متعلقہ موضوعات پر اپنے تصورات واضح کئے۔ پی ایچ ڈی کے دوران میں اُنہیں اکادمی زبان و ادبیاتِ فارسی تہران میں بطور ریسرچ سکالر ملازمت مل گئی تھی، جس سے اُن کو عظیم اساتذہ کے ساتھ تحقیقی کام کرنے کا موقعہ مل گیا اور اُن کی صلاحیتوں میں مزید نکھار آیا۔وہ خودد پر اطلاق شدہ اُستاد اور محقق کے لفظوں کے حقیقی معانی اور روح پر پورا اترتے تھے۔ مطالعہ، تدریس اور تحقیق سے اُن کو دلی لگن تھی، چنانچہ انہوں نے اپنی عمرِ عزیز انہی کاموں کے لئے وقف کردی۔ وہ طلبہ کو ذوق و شوق سے پڑھاتے اور اُن کے دلوں میں مطالعے اور تحقیق کا شوق پیدا کرتے، جس میں کامیاب رہے۔غرض رول ماڈل تھے، اسی لئے اُن کے ایم۔اے، ایم۔فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ اُن کا بے حد احترام اور اُن کی تدریس کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ اپنے رفقائے کار سے بھی احترام کا رشتہ تھا، جسے آخری سانس تک نبھایا۔ حفظِ مراتب کا خاصر خیال رکھتے۔ خود تعریفی نام کی کسی چیز کا اُن کے پاس سے کبھی گذر نہیں ہوا۔ تحقیق میں بھی اُنہوں نے خوب کام کیا اور اندرون اور بیرون ملک میں خوب نام کمایا، اُن کے مقالات پاکستان اور ایران کے معتبر تحقیقی مجلات میں شائع ہوتے رہے ہیں اور فارسی علمی حلقوں میں اُن کو سراہا جاتا ہے، خاص طور ادبی و شعری تنقید کی تاریخ و روایت پر وہ سند کا درجہ رکھتے ہیں، پی ایچ ڈی کا تھیسسز بھی برصغیر میں فارسی ادبی تنقید کی روایت پر ایک لا جواب کام ہے۔حال ہی میں نجم الرشید نے فارسی شعرا کے انتخاب تین کتب کی صورت میں شائع کئے، جو اُن کے ذوقِ سلیم کی توثیق کرتے ہیں۔
ڈاکٹر نجم الرشید کی زندگی کاایک نہایت قابل رشک پہلو اُن کی عبادت گزاری ہے۔اُنہوں نے ۴۸۹۱ء سے اب تک نہایت غیرمعمولی حالات و بیماری وغیرہ میں بھی شاید ہی کوئی نماز چھوڑی ہو، البتہ قضا پڑھ لیا کرتے تھے، ماہِ رمضان کے علاوہ عاشورہئ محرم اور شعبان میں بھی پابندی سے روزے رکھتے، قرآن مجید کی باقاعدہ تلاوت کرتے، دعائیں کثرت سے یاد تھیں،پڑھتے بھی کثرت سے تھے۔ تسلسل سے ”نمازِ توابین“ ادا کیا کرتے، شعبہئ فارسی میں اُن کے کمرے، اپنے گھر اور میرے گھر میں میرے ذاتی کمرے میں، جہاں اُن کا آنا جانا معمول تھا،اُن کے لئے جائے نماز اب بھی موجو د ہے۔ صدقہ و خیرات دیتے، عزتِ نفس مجروح کئے بغیر،غریبوں،مسکینوں کی مدد کرتے، مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ کسی کوکانوں کان خبر نہ ہو۔ اپنی تنخواہ کا ایک مخصوص حصّہ اس کام کے لئے مختص تھا، جس میں کبھی کمی اور کوتاہی نہیں کی، بیرون ملک جا کے بھی۔ اس امر کے عینی شاہد شعبہئ فارسی کے دو ملازم ہیں جن کے توسط سے یہ سلسلہ چلتا تھا۔

ڈاکٹر نجم الرشید کوآخری کچھ برسوں میں عملی زندگی میں خاصی بے انصافی اور حق تلفی جھیلنی پڑی، لیکن چونکہ طبیعت میں قناعت اور روح میں صبر و شکر راسخ تھے اس لئے دوستوں اور خیر خواہوں کے بار بار کے اصرار کے باوجود، لب پرکسی کے خلاف حرفِ شکایت لائے، نہ کسی کے خلاف تحریری درخواست بازی کی۔اُن کا واضح نظریہ تھا، جس کا وہ ہر کس و ناکس سے اظہار بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے کہ”جب ساری زمینی قوتیں کسی انسان کے حق مارنے پر گٹھ جوڑ کر لیں تو معاملہ آسمان والے کے پاس چلا جاتا ہے۔ اور وہ خیر المنصفین بھی ہے اور خیرالوکیل بھی“۔
ڈاکٹر نجم الرشید گذشتہ سال ڈیڑھ سال سے اپنے اہلِ خانہ اور قریبی دوستوں سے یہ اظہار کرتے تھے کہ اُن کی طبیعت ٹھیک نہیں، کہیں کوئی مسئلہ ہے ضرور، چنانچہ پوسٹ ڈاکٹریٹ کر کے برطانیہ سے واپس آئے توڈاکٹروں کے مشورے سے اپنے چیک اپ کروائے، بالآخر پتہ چلا کہ اُن کے معدے کے ساتھ بہت ابتدائی درجے کا ٹیومر ہے۔ یہ خبر سب دوستوں اور اہلِ خانہ پر پر بجلی بن کے گری۔جس جس کو پتہ چلتا گیا، اُس کی زبان گُنگ اور آنکھیں اشکبار ہوتی گئیں۔ اُن کی بوڑھی والدہ، بڑی بہن اور بیوی تو حواس کھو بیٹھیں، خود میرے گھر کئی دن اشکوں کی زبانی بات ہوتی رہی۔ صورتِ حال کی نزاکت کے پیشِ نظر ایک دوسرے کو دلاسے دے دلا، علاج کے لئے شوکت خانم ہسپتال داخلے کا فیصلہ ہوا، ضروری کارروائی کے بعد، نجم صاحب کو ہسپتال میں داخل کر لیا گیا تو بہت مطمین تھے، مجھے اُنہوں نے خود بتایا کہ وہ عموماً داخل ہی اُس مریض کو کرتے ہیں جس کے ٹھیک ہو جانے کے امکانات واضح ہوں، اس بات سے اُنہیں اپنے تندرست ہونے کی قوی امید تھی۔
علاج شروع ہوا تو بستر پر آ گئے، طبیعت میں اونچ نیچ معمول بن گیا، کبھی دن کو ایمرجنسی میں جا رہے ہیں تو کبھی رات کو، البتہ کچھ دن سکون سے بھی گذر جاتے، دو بار بہت زیادہ کمزوری کی وجہ سے خون کی بوتلیں لگانی پڑیں، کئی دفعہ اکسیجن بھی لگی۔ کبھی اُن سے مل کے لگتا کہ بس دنوں کی بات ہے کہ وہ معمول کی زندگی کو لوٹ آئیں گے۔ کبھی اُن کو نڈھال دیکھتے تو نا امید ہو کے درد کے گھونٹ پیتے، چپ چاپ اُن سے اجازت لے کے واپس آ جاتے۔ خود کو تسلیاں دیتے کہ بیماری کا ابتدائی مرحلے میں ہی پتہ چل گیا،علاج بھی کامیابی سے جاری ہے تو اللہ صحت دے گا۔ معالج بھی اس کی تائید کر رہے تھے۔ دوست احباب کی دعائیں، اُن کے صحت و سلامتی کے لئے قرآن خوانیاں اور والدہ کے آنسو مزید ڈھارس بندھاتے۔ میں ۰۳ مئی کو اُن کے ہاں گھر گیا تو سرہانے کی ٹیک لئے، عینک لگائے اخبار پڑھ رہے، اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے لوٹا کہ اب اُن صحت مندی کے معمولات بحال ہو رہے ہیں۔ چند دن پہلے میں نے اورڈاکٹر اقبال شاہد نے عیادت کرتے ہوئے جملوں سے چھیڑ چھاڑ کی تو بھر پور جوابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا، تسلّی ہوئی کہ واپس فارم میں آ رہے ہیں۔ پھر یکدم اٹیک ہوا تو ہسپتال جانا پڑا۔ چار دنوں سے وہیں تھے، آکسیجن لگی ہوئی تھی، مگر امید کا دامن تھامے رہے، کیونکہ پہلے بھی کئی بار ایسے کرائسز سے گذر چکے تھے۔۹۲ رمضان، چاند رات کے دن، دو پہر کو اُن کو دیکھنے گیا تو ہاتھ بہت ٹھنڈے مگر ماتھے پر شدید پسینہ تھا، کہا”سر!“ (وہ مجھے ہمیشہ اسی طرح مخاطب کرتے، اکیلے بھی، طلبہ کے درمیان بھی، میری غیر موجودگی میں بھی، سامنے بھی)ذرا ہاتھ دبا دیں۔ ہاتھ دبائے تو کہنے لگے میرے کندھوں پر چادر ٹھیک کر دیں، زیادہ حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے کہ آکسیجن کی نالیاں ہلنے کا اندیشہ ہوتا۔ روایتی انداز میں مسکرانے کی بھی کوشش کی، مگر لبوں نے پورا ساتھ نہ دیا،مجھے بھابی کو بلانے کا کہا، وہ آئیں تو میں اجازت لے کے گھرآ گیا۔ پھر سہ پہر کے بعد ہسپتال پہنچاتووہ ساری عمر ہنسنے مسکرانے والاروٹھ کے جا چکا تھا، اپنے رب کے پاس، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ ماہِ رمضان کے سارے روزے کسی مسکین سے رکھوا کر، اپنے اوپر فرض زندگی کی آخری نماز اشاروں سے ادا کر کے مطمین اور سرخرو۔ اگرچہ لاہور اور دیگر جگہوں پر ہم اکثر اکٹھے ہوتے، مگر اُن کے آبائی گاؤں، ڈنگہ، میں آخری دونوں ملاقاتوں میں اُن کے تن بدن پر نئے کپڑے تھے، اتفاقاً دونوں ہی سفید، دسمبر ۶۹۹۱ء میں دلہا کا لباس اور ۶۱۰۲ء میں کفن، پہلی بار گلے میں گلاب کے پھولوں کا ہار، اور اب کے دوسری بار کفن پربکھری گلابی کلیاں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
میری بڑی بیٹی نادیہ سلیم سے وہ دوسرے بچوں کی نسبت بہت زیادہ مانوس تھے، اُس کے ساتھ راز و نیاز بھی کر لیتے، بعض اوقات تو میری شکایتیں بھی لگادیتے۔ بیماری کے اِن چار مہینوں میں، سوائے اُن کے ہسپتال میں قیام کے، اُس سے کم بیش روز ہی گھر پر نشست رہتی۔ نادیہ کل بتا رہی تھی، ”کچھ عرصہ پہلے آپ کا اپنے گاؤں ڈیرہ غازی خان آنا جانا زیادہ ہو گیا تو ایک دن کہنے لگے نادیہ! ”سر“ ڈی جی خان بہت جانے لگے ہیں، اگر وہیں رہنا شروع کر دیاتو تمہارا اور میرا کیا بنے گا“۔اب جب اُس سے پوچھتا ہوں کہ میں تو اُن کے سامنے والے گھر میں موجود ہوں، وہ بتائے بغیر ہمیشہ کے لئے چلے گئے تو بتاؤ میں کس سے شکایت کروں، کس سے پوچھوں کہ تمہارا اورمیرا کیا بنے گا“، تو وہ آنسو پونچھتے پونچھتے پھر رونا شروع کر دیتی ہے۔صرف اُس کے ہی نہیں سب کے پاس اب جواب یہی رہ گیا ہے اور بس، اُن کی یادیں ہیں اور ہم:
جانے لگا تو درد کی سوغات دے گیا
دل میں خلش تو پلکوں کو برسات دے گیا
روتا بلکتا چھوڑ کے اپنے فراق میں
رنج و ملال و حُزن کی خیرات دے گیا