منتخب تحریریں

ایک ہاتھی تو سنبھال نہ سکے

Share

یہ ایک ہاتھی کی کہانی نہیں، پوری قوم کی بے حسی کی داستان ہے۔ کتنے وسائل اس ملک کے اسلام آباد کی فضولیات اور عیاشیوں پہ برباد ہوئے ہیں۔ تخمینہ لگایا جائے تو حیرانی کا سامان پیدا ہو۔ نمائشی گھر اسلام آباد میں بن گئے۔ ہاؤسنگ کالونیاں سج گئیں۔ حکومتوں کی فضول خرچیوں کا اندازہ لگانا مشکل ہے‘ لیکن ایک چڑیا گھر کی صحیح دیکھ بھال مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت نہ کر سکی۔
چڑیا گھر میں سارے جانوروں کی حالت پہ رویا جا سکتا ہے لیکن سب سے درد ناک کہانی اس ہاتھی کی ہے جو کسی بدبخت لمحے میں سری لنکا نے بطور تحفہ مملکتِ خداداد کو دیا۔ 35 سال پہلے کاوان (Kavaan) نامی بے بی ہاتھی اسلام آباد چڑیا گھر میں لایا گیا اور پھر جو ہم نے اس کے ساتھ سلوک کیا وہ ہاتھی جانتا ہے یا اُس کا پروردگار۔ زیادہ وقت کاوان بندھا رہتا تھا اور اپنی تنہائی میں اس کی ایک عادت بن گئی کہ وہ ایک طرف سے دوسری طرف سارا سارا دن ہلتا رہتا۔ صبح سے شام ہوتی شام سے صبح کاوان کی اذیت ختم نہ ہوتی۔ کچھ عرصہ اس کا ایک ساتھی رہا پھر وہ ساتھی اِس دنیا سے چلا گیا اور کاوان اپنی تنہائی میں واپس ہو لیا۔ وزن اُس کا بڑھ گیا لیکن اُس سے زیادہ اذیت ناک چیز یہ ٹھہری کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہوگیا۔ بھلا ہو اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہ اُسے کاوان کی حالت کا کچھ خیال آیا اور یہ حکم ہوا کہ اُسے کسی ایسی جگہ لے جائے جایا جہاں اُس کی ذہنی حالت بہتر ہو سکے۔ ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد ریاست کو فیصلہ کرنا پڑا کہ کاوان کو کمبوڈیا بھیجا جائے جہاں وہ دوسرے ہاتھیوں کے جھرمٹ میں اپنی باقی ماندہ عمر گزار سکے۔
باتیں ہماری کوئی سنے اور ہمارے کرتوتوں کا کوئی اندازہ لگائے۔ جو اس ہاتھی سے ہم نے اجتماعی طور پہ کیا وہ شرم سے ڈوبنے کا مقام ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی، وقتاً فوقتاً اخبارات میں اسلام آباد کے چڑیا گھر اور اس کے مظلوم ترین باسی کا ذکر آتا‘ پھر چپ چھا جاتی؛ تاہم جن کو جاننا چاہیے تھا وہ اس صورتحال سے بخوبی آگاہ تھے‘ لیکن بے حسی کا حساب کیا جائے کہ مجموعی احساسات پہ ذرہ برابر اثر نہ ہوا اور کاوان ایک پاؤں آہنی زنجیر سے بندھا سارا سارا دن دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہلتا رہتا۔ یہاں انصاف نام کی چیز ہوتی تو چڑیا گھر کے نام نہاد رکھوالوں کو کسی درخت سے اُلٹا لٹکا دیا جاتا اور اسلام آباد انتظامیہ کے بڑے افسران کو ایک صف میں کھڑا کرکے اُنکے ساتھ وہ کیا جاتا کہ اُنکے آنے والے یاد رکھتے‘ لیکن یہاں پوچھنے والا کون ہے؟ حیرانی اس بات پہ ہوتی ہے کہ پچھلے بیس پچیس سال سے لے کر آج تک جو بھی حکومت میں رہے یا جن کے پاس کوئی اتھارٹی تھی انہیں علم ہوگا کہ اس مظلوم ہاتھی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ فکرِ زر تو ہر حکومت کے عہدیداروں کو رہا۔ عیاشیاں جاری رہیں۔ سیکٹر کے سیکٹر کھلتے رہے۔ دارالحکومت کی آبادی کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ہر حکومت کے دعوے ایسے کہ کوئی رستم زماں سن کے شرما جائے لیکن چڑیا گھر کی حالت بہتر نہ ہوئی اور ظاہر ہے کاوان کی حالت کی طرف کون سا دھیان جانا تھا۔
سرفہرست پوچھنے کی بات یہ بنتی ہے کہ ہمیں کوئی شرم بھی آتی ہے؟ کسی چیز پہ پشیمانی ہوتی ہے؟ کاوان کی حالت شاید سدھر جائے لیکن اُس کی حالت ہماری مجموعی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کی عکاس ہے۔ ہم بے حس لوگ ہیں۔ ہم میں کوئی سوچ نہیں۔ کسی قوم کا اندازہ لگانا ہو تو عبادت گاہوں کی تعداد نہ گنی جائے، صرف یہ دیکھا جائے کہ فلاں قوم جانوروں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتی ہے۔ جو مزدوری پہ لگے گدھوں اور گھوڑوں کی یہاں دُرگت بنائی جاتی ہے اسے دیکھ کے کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ مہذب قوم ہے؟
کاوان کا طبعی معائنہ کرنے کیلئے ایک ماہر ڈاکٹر آسٹریا سے آیا۔ اس نے جو ہاتھی کی حالت کے بارے میں کہا ہے اُس سے رونا آتا ہے۔ غیرملکی ماہر نے یہ بھی کہاکہ جب ہم طبعی معائنے کیلئے آئے تو چڑیا گھر کی انتظامیہ جو مشکلات ہمارے لیے کھڑی کرسکتی تھی اس نے کیں۔ بات پھر وہی ہے کہ کوئی شرم نام کی چیز ہمارے ہاں پائی جاتی ہے؟ حکومتیں دیکھیں تو حکومتیں نہیں لگتیں، لوٹ مار کا بازار گرم کرنے کا بندوبست لگتی ہیں۔ اسلام آباد کا سب سے بڑا ہسپتال پمز ہے۔ جاپانیوں نے ہمیں پیسے دئیے اس کیلئے اور پھر اس کی تعمیر میں جوہرِ ٹھیکیداری ایسے دکھائے گئے کہ جاپانی بھی حیرت زدہ رہ گئے ہوں گے۔ مارگلہ پہاڑوں کو جو سڑک جاتی ہے اس کی شروعات میں جاپانیوں نے ایک پارک بنانے کیلئے پیسے دئیے۔ مطلب یہ کہ ہر کام مانگے تانگے کا۔ نہ ہسپتال کام کے بنتے ہیں اور پارکوں کی تو بات ہی اور ہے کیونکہ جہاں درخت لگنے ہوں وہ کام تو ہمارے مزاج کے خلاف ہے۔
کئی بار لکھ چکا ہوں کہ جس قوم کو یہ پتا نہ ہوکہ یہاں درخت کون سے لگائے جانے چاہئیں اُس سے اورکیا توقع کی جا سکتی ہے؟ انگریز جو بزور شمشیر ہمارے حاکم بنے انہیں سمجھ تھی کہ یہاں کون سے پودے لگانے چاہئیں۔ بارہا لکھ چکا ہوں کہ مال لاہور کی آدھی سے زیادہ خوبصورتی اس کے دائیں بائیں پیپل کے درختوں کی وجہ سے ہے۔ انگریزوں نے کوئی انگریز درخت مال پہ نہ لگائے بلکہ اُن کی نظرِ انتخاب اس سرزمین کے دیسی درختوں پہ پڑی۔ ہمارے حکمرانوں کی تعلیم پتا نہیں کہاں سے ہوئی ہے کہ آپ چاروں نظر طرف گھمائیں تو آج کی سڑکوں اور موٹرویز پہ عجیب قسم کی شجرکاری دیکھنے کو ملتی ہے۔ یوکلپٹس لگ رہاہے جس درخت کا اس دھرتی کی مٹی سے کوئی تعلق یا واسطہ نہیں۔ اب نیا فیشن چل نکلا ہے کہ کراچی سمندری ساحل پہ جو درخت موزوں ہے اُسے اُٹھاکے ہرجگہ لگایا دیا جائے۔ اس درخت کا نام کونوکارپس ہے جس کی افادیت سمندری ساحل پہ تو بہت ہے لیکن جس کے لگانے کی تُک ہمارے باقی علاقے میں ذرہ بھر نہیں بنتی۔
چکوال میں تین بڑی سڑکیں بنی ہیں، ایک چکوال تا تلہ گنگ، دوسری چکوال تا مندرہ اور تیسری چکوال تا سوہاوہ۔ تینوں سڑکوں پہ انگریز زمانے کے بڑے بڑے شیشم کے درخت لگے ہوئے تھے۔ ہمارا کارنامہ یہ ہواکہ تینوں سڑکوں کے بننے سے پہلے اِن کو مکمل گنجا کردیا گیا۔ یعنی سڑکیں بعد میں بنیں اور سوسال سے زیادہ پرانے درختوں کا قتلِ عام پہلے ہوگیا۔ سڑکیں آرام دہ اورکشادہ ہیں لیکن کسی گنجے کا سر ہو‘ ایسے لگتی ہیں۔
پتا نہیں کہاں سے ہم نے یہ زُعم پایا ہے کہ قدرت کی اس دھرتی پہ خاص مہربانی ہے۔ کیسی مہربانی؟ مہربانی تو تب ہوتی کہ عقل اورحساسیت کے لحاظ سے ہم ایک اعلیٰ قوم ہوتے۔ شعور اور سمجھ ہم میں ہوتی۔ بالغ نظری اور فراخدلی ہماری خصوصیات میں سے ہوتیں۔ تب تو ہم کہتے کہ قدرت کی خاص مہربانی ہے۔ ایک تنگ نظر قوم جو نعروں پہ جیتی ہے اور جسے بے وقوف بننے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگتی اس کے کمالات دیکھ کے کونسی قدرت کی مہربانی کا شائبہ ہوتا ہے؟
محض دولت سے قومیں بنتیں توہمارے برادر ملکوں میں کسی چیزکی کمی ہوتی؟ اگر دولت ہی معیار ہوتا تو تیل کی دولت کودیکھ کے اقوامِ عالم میں سب سے آگے وہ نہ ہوتے؟ کسی قوم کے بنیادی اثاثے اُس کا شعور اورمہذب پن ہوتاہے۔ باقی چیزیں بعد کی باتیں ہوتی ہیں۔ شعور اور عقل ہوتو ہرمالی وسیلہ تابع ہوجاتا ہے۔ شعور اورعقل نہ ہوتو آپ عیاشیاں تو کرسکتے ہیں اپنا صحیح مقام ڈھونڈتے ہی رہ جاتے ہیں۔ اس بیچارے ہاتھی نے اپنی کہانی کیا بیان کرنی ہے لیکن جو حالت اس کی یہاں ہوئی اُس سے ہماری اصلیت تو عیاں ہوجاتی ہے۔