دو طرح کے کرکٹرز میں مایوسی اپنی انتہا کو نظر آتی ہے۔ ایک وہ جن کی زندگی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے انتظار میں گزر جاتی ہے لیکن وہ کھیل نہیں پاتے۔ دوسرے وہ جن کی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کی خواہش ضرور پوری ہوتی ہے لیکن ان کا اوّلین ٹیسٹ ہی ان کا آخری ٹیسٹ ثابت ہوتا ہے اور وہ دوبارہ ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیل پاتے۔
پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے 240 میں سے 43 کرکٹرز ایسے ہیں جن کے کریئر ریکارڈز کے سامنے صرف ایک ٹیسٹ میچ درج ہے۔
یقیناً ان تمام کرکٹر کی ایک جیسی کہانی ہے کہ وہ کس طرح ٹیسٹ کرکٹ تک آئے اور پھر ایک ہی ٹیسٹ کھیلنے کے بعد وہ اس سے دور ہوگئے لیکن ان کرکٹرز میں چند ایسے ضرور ہیں جنہیں اُس ایک ٹیسٹ کی غیرمتاثرکن کارکردگی اور گمنامی میں چلے جانے کے باوجود کسی نہ کسی وجہ سے اب بھی یاد رکھا جاتا ہے۔
گل محمد: دو ممالک کی نمائندگی
گل محمد اس لحاظ سے منفرد حیثیت کے مالک ہیں کہ وہ واحد پاکستانی کرکٹر ہیں جو پاکستان کے خلاف بھی ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں۔
سنہ 1952 میں جب پاکستانی کرکٹ ٹیم اپنی اولین ٹیسٹ سیریز کھیلنے انڈیا گئی تو گل محمد وہ سیریز کھیلنے والی بھارتی ٹیم کا حصہ تھے۔ وہ دہلی اور لکھنؤ کے ٹیسٹ میچوں میں کھیلے تھے لیکن دونوں ٹیسٹ میچوں میں وہ کوئی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔
گل محمد آٹھ ٹیسٹ میچوں میں انڈیا کی نمائندگی کے بعد پاکستان آگئے تھے پاکستان کی طرف سے انہیں صرف ایک ٹیسٹ کھیلنے کا موقع ملا جو 1956 میں آسٹریلیا کے خلاف کراچی میں تھا۔ اس ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں گل محمد صرف بارہ رنز بنائے پائے البتہ دوسری اننگز میں وہ ستائیس رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے تھے اور وننگ شاٹ بھی انھوں نے ہی کھیلا تھا۔
گل محمد کا ٹیسٹ ریکارڈ متاثر کن نہیں لیکن فرسٹ کلاس کرکٹ میں انھوں نے کئی اہم اننگز کھیلیں جن میں رانجی ٹرافی میں 319 رنز کی یادگار اننگز بھی شامل ہے۔ اس اننگز کے دوران انھوں نے وجے ہزارے کے ساتھ چوتھی وکٹ کی شراکت میں 577 رنز کا اضافہ کیا تھا جو فرسٹ کلاس کرکٹ میں اب بھی چوتھی وکٹ کی سب سے بڑی شراکت ہے۔
خالد حسن: سب سے کم عمر ٹیسٹ کرکٹر
خالد حسن نے لیگ بریک گگلی بولر کی حیثیت سے 1954 میں انگلینڈ کے خلاف ٹرینٹ برج میں ٹیسٹ کیپ حاصل کی تو اس وقت ان کی عمر 16 سال 352 دن تھی۔ اس طرح وہ اس وقت ٹیسٹ کرکٹ کی ابتدا کرنے والے دنیا کے سب سے کم عمر ٹیسٹ کرکٹر بنے تھے لیکن اس میچ میں ان کی کارکردگی مایوس کن رہی تھی اور وہ انگلینڈ کی واحد اننگز میں 116 رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے تھے جن میں ایک وکٹ ڈینس کامپٹن کی تھی جنہوں نے278 رنز بنائے تھے جبکہ دوسری وکٹ ریگی سمپسن کی تھی جنہوں نے 101 رنز اسکور کیے تھے۔
خالد حسن کی حیران کن سلیکشن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ ان کے چچا فدا حسن تھے جو اس زمانے میں چیف سیکریٹری پنجاب ہوا کرتے تھے اور منیجر کی حیثیت سے انگلینڈ کے دورے پر گئے تھے۔
حنیف محمد کے بڑے بھائی رئیس محمد نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ جب انگلینڈ کے دورے کے لیے ٹیم کا سلیکشن ہورہا تھا تو فدا حسن نے سلیکٹرز سے کہہ دیا تھا کہ وہ دورے کے لیے بقیہ تمام کھلاڑی منتخب کرلیں لیکن ایک جگہ چھوڑ دیں۔
خالد حسن کا سلیکشن اس لیے بھی حیران کن تھا کہ وہ انگلینڈ کے دورے سے قبل صرف پانچ فرسٹ کلاس وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے تھے۔ انھوں نے اپنے پورے فرسٹ کلاس کریئر میں اٹھائیس وکٹیں حاصل کیں جن میں بائیس وکٹیں انگلینڈ کے دورے میں تھیں تاہم وہ کسی بھی اننگز میں تین سے زیادہ وکٹیں لینے میں کامیاب نہیں ہو پائے تھے۔
شاہد محمود: اننگز میں تمام کی تمام دس وکٹیں
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے 1962 میں انگلینڈ کے دورے میں شاہد محمود کو ٹرینٹ برج ٹیسٹ میں کھیلنے کا موقع ملا۔ وہ بائیں ہاتھ کے اوپننگ بیٹسمین اور میڈیم پیس بولر تھے۔ اس میچ کی پہلی اننگز میں انھوں نے حنیف محمد کے ساتھ اوپننگ کی تھی لیکن صرف سولہ رنز بناسکے۔ دوسری اننگز میں ساتویں نمبر پر کھیلتے ہوئے وہ صرف نو رنز بناکر آؤٹ ہوئے تھے جبکہ بولنگ میں ان کے ہاتھ کوئی وکٹ نہ آسکی۔
شاہد محمود اس ٹیسٹ کے بعد مزید آٹھ سال فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلے اور اپنے آخری سیزن میں انھوں نے فرسٹ کلاس میچ کی ایک اننگز میں تمام دس وکٹیں لینے کا کارنامہ انجام دے ڈالا۔
یہ میچ ستمبر1969 میں کراچی اور خیرپور کے درمیان نیشنل سٹیڈیم کراچی میں کھیلا گیا تھا۔ شاہد محمود نے خیرپور کی دوسری اننگز میں تمام کی تمام 10 وکٹیں 58 رنز دے کر حاصل کیں۔ پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی بولر نے اننگز میں دس کی دس وکٹیں حاصل کیں۔
ان سے قبل بشیر حیدر نے بھی ایوب ٹرافی کے ایک میچ کی ایک اننگز میں تمام دس وکٹیں حاصل کی تھیں پہلے اس میچ کو فرسٹ کلاس کرکٹ میں شامل کیا گیا تھا لیکن بعد میں اسے فرسٹ کلاس کرکٹ تسلیم نہیں کیا گیا۔
بازید خان کے والد اور دادا بھی ٹیسٹ کرکٹرز
بازید خان نے اپنا واحد ٹیسٹ میچ 2005ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اس وقت کھیلا تھا جب کپتان انضمام الحق آئی سی سی کی طرف سے ایک میچ کی پابندی کی وجہ سے ٹیم سے باہر تھے۔ بازید خان دونوں اننگز میں بڑا اسکور کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور انہیں انضمام الحق کی واپسی پر اپنی جگہ چھوڑنی پڑی تھی۔
بازید خان نے پانچ ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی جن میں ان کی دو نصف سنچریاں شامل تھیں۔
بازیدخان کے والد ماجد خان اپنے دور کے اسٹائلش بیٹسمین کے طور پر مشہور رہے ہیں جنہوں نے پاکستان کی طرف سے 63ٹیسٹ اور23 ون ڈے کھیلے۔
بازید خان کے دادا ڈاکٹر جہانگیرخان غیر منقسم ہندوستان کی طرف سے چار ٹیسٹ کھیلے تھے۔ ان کی وجۂ شہرت وہ چڑیا ہے جو ان کی گیند سے ہلاک ہوگئی تھی جسے لارڈز کے میوزیم میں محفوظ کرلیا گیا تھا۔
یاسرعلی: فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز ٹیسٹ میچ میں
2003 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم بنگلہ دیش کے خلاف ملتان میں ٹیسٹ کھیل رہی تھی۔ اس ٹیسٹ میں ایک موقع ایسا بھی آیا جب شکست پاکستانی ٹیم کو جکڑنے لگی تھی۔ پاکستان کی 9 وکٹیں 257 رنز پر گرچکی تھیں اور جیت کے لیے اب بھی 4 رنز درکار تھے۔ انضمام الحق کریز پر آخری امید کے طور پر موجود تھے۔
بیٹنگ کے لیے آنے والے گیارہویں نمبر کےبیٹسمین یاسر علی تھے۔ انھوں نے چار گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے نہ صرف اپنی وکٹ بچائی بلکہ ایک رن لے کر انضمام الحق کو موقع دے دیا کہ وہ پاکستان کو جیت سے ہمکنار کرسکیں۔ انضمام الحق نے ناقابل شکست سنچری بناتے ہوئے وننگ شاٹ کھیل کر پاکستان کو ایک وکٹ کی ڈرامائی فتح دلادی۔
یاسر علی کے اس ڈیبیو ٹیسٹ کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ان کا اولین فرسٹ کلاس میچ بھی تھا یعنی وہ پہلے پاکستانی کرکٹر بنے جنہوں نے اپنے فرسٹ کلاس کریئر کا آغاز ٹیسٹ میچ میں کیا۔
یاسر علی میڈیم فاسٹ بولر تھے جنہوں نے اس میچ میں دو وکٹیں حاصل کیں۔ یاسر علی ہی وہ بولر تھے جن کی گیند پر راشد لطیف نے الوک کپالی کا کیچ لیا تھا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ کیچ نہیں تھا جس پر راشد لطیف کو پانچ میچوں کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اسی بنا پر ان کا بین الاقوامی کریئر ختم ہوگیا۔
کرکٹرز جو انٹرنیشنل امپائر بن گئے
ایک ٹیسٹ کھیلنے والے پاکستانی کرکٹرز میں محمد اسلم کھوکھر۔ جاوید اختر اور ندیم غوری اپنے کریئر کے اختتام پر بین الاقوامی امپائرز بھی بنے۔ ان میں جاوید اختر اور ندیم غوری پر کرپشن کے الزامات بھی لگے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے ندیم غوری پر چار سالہ پابندی عائد کی۔ ایک انڈین ٹی وی چینل کے اسٹنگ آپریشن کے دوران متعدد امپائرز یہ کہتے ہوئے پائے گئے تھے کہ وہ پیسے لے کر بیٹسمینوں کو آؤٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔ ان میں ندیم غوری کی وڈیو بھی شامل تھی۔
جاوید اختر پر جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ کے سابق سربراہ ڈاکٹر علی باقر نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے مبینہ طور پر بک میکرز سے رابطے تھے۔ جاوید اختر نے راولپنڈی کی عدالت میں ڈاکٹر علی باقر کے خلاف مقدمہ بھی دائر کیا تھا لیکن ڈاکٹر علی باقر نے پاکستان آکر مقدمے کا سامنا کرنے سے انکار کردیا تھا۔
محمد اسلم کھوکھر کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر کھیلے گئے اولین فرسٹ کلاس میچ میں سنچری بنانے والے پہلے بیٹسمین ہیں۔
دسمبر 1947 میں سندھ اور پنجاب کے درمیان باغ جناح لاہور میں کھیلے گئے اس میچ میں محمد اسلم کھوکھر نے پنجاب کی پہلی اننگز میں 117 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔
محمد اسلم کھوکھر نے دائیں ہاتھ کے بیٹسمین کے طور پر اپنے ٹیسٹ کریئر کی ابتدا 1954 میں انگلینڈ کے خلاف ٹرینٹ برج میں کی تھی۔ اسی میچ میں خالد حسن نے بھی اپنے ٹیسٹ کریئر کا آغازکیا تھا۔
محمد اسلم کھوکھر نے کرکٹر کی حیثیت سے کریئر ختم ہونے کے بعد امپائرنگ کی۔ انہوں نے تین ٹیسٹ میچوں میں امپائرنگ کے فرائض انجام دیے تھے۔