میں نے پچیس تیس برس سے ٹرین کا سفر نہیں کیا کہ اب دھکے کھانے کی عمر نہیں رہی، چنانچہ میں نے اک ربع صدی پہلے والے لاہور ریلوے اسٹیشن کی یادوں میں گم ہو کر اپنے پیارے شہر وزیر آباد کا خیالی سفر کیا، سو آپ بھی ایک منٹ کے لئے یہ فرض کریں کہ میں ابھی ابھی لاہور سے وزیر آباد روانہ ہونے لگا ہوں، روانہ کیا ہونے لگا ہوں، بس یوں سمجھیں کہ روانہ ہو چکا ہوں، چنانچہ میرے گلے میں بیگ ہے اور میرے چاروں طرف انسانوں کا سمندر ہے۔ یہ سب لوگ کراچی سے آنے والی گاڑی کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ یہ گاڑی وزیر آباد جہلم اور راولپنڈی وغیرہ سے ہوتی ہوئی پشاور جائے گی۔ اس گاڑی میں کچھ مسافر کوئٹے کے بھی ہوں گے جو روہڑی سے سوار ہوئے ہوں گے۔
اسٹیشن پر جو لوگ موجود ہیں ان میں سے بیشتر تو مسافر ہیں، باقی یا تو اپنے عزیزوں کو الوداع کہنے کے لئے آئے ہیں یا اپنے کسی مہمان کو ریسو کرنے یہاں موجود ہیں۔ ان لوگوں کے علاوہ پلیٹ فارم پر بک اسٹال اور گھریلو مصنوعات بیچنے والوں کے اسٹال میں سرخ قمیضوں میں ملبوس قلی بھی اپنے کاندھوں یا ٹھیلوں پر سامان لاد کر پلیٹ فارم کے خالی کونے پُر کرنے میں مشغول ہیں، گاڑی لیٹ ہے۔ ابھی سگنل ڈائون ہوا ہے اور نہ انائونسمنٹ کے ذ ریعے یہ بتایا گیا ہے کہ گاڑی کتنی لیٹ ہے۔ پلیٹ فارم پر موجود لوگوں کی بےچینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ بار بار اپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھتے ہیں اور پھر اپنا شک دور کرنے کے لئے پلیٹ فارم کے درمیان میں نصب سرکاری گھڑی پر نظر ڈالتے ہیں، کچھ کی گھڑیاں اس گھڑی کے عین مطابق ہیں اور کچھ کی آگے پیچھے ہیں لیکن بےچینی سب کی یکساں ہے۔
بےچینی صرف اصلی مسافروں اور ان کے اقرباء ہی میں نہیں بلکہ ان کے درمیان موجود خوانچہ فروش اور اسٹال والوں میں بھی ہے۔ ان سب کو گاڑی کا انتظار ہے، گاڑی آئے گی تو یہ رزق حلال کمائیں گے مگر گاڑی نہیں آ رہی، انائونسمنٹ ہو رہی ہے مگر یہ انائونسمنٹ کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ پلیٹ فارم پر انسانوں کا ہجوم ہے اور وہ ایڑیاں اٹھا اٹھا کر اس سمت دیکھ رہے ہیں جدھر سے گاڑی آنی ہے۔ کچھ دیر پہلے لوگوں میں ہلچل سی ہوئی تھی اور وہ اپنا اپنا سامان اٹھا کر آگے کو سرک آئے تھے کیونکہ انہیں انجن کی وِسل سنائی دی تھی مگر اب ان کے چہرے پھر لٹک گئے ہیں کیونکہ وہ گاڑی نہیں تھی، کالے دیو جیسا انجن تھا جو دھواں نکالتا اور آگ برساتا ان کے قریب سے گزر گیا تھا۔ ایک بار گاڑی دکھائی دی تھی مگر وہ پٹڑی بدل کر دوسرے پلیٹ فارم پر جا کر کھڑی ہو گئی، اب وہ گاڑی بھی اپنی منزل کو روانہ ہو چکی ہے۔ اس کے بعد بھی کئی گاڑیاں آئی ہیں مگر وہ سب دوسرے پلیٹ فارموں پر جا کر رکی ہیں اور پھر اپنی اگلی منزل کے لئے روانہ ہو گئی ہیں۔ کالے دیو جیسا انجن بھی اس دوران کئی دفعہ چیختا چلاتا ادھر سے گزرا ہے مگر اس پلیٹ فارم کے مسافروں کو انجن کا نہیں، گاڑی کا انتظار ہے، اپنی اس گاڑی کا جس کے لئے وہ اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔
گاڑی ابھی تک نہیں آئی۔
میں پلیٹ فارم پر گلے میں بیگ لٹکائے کھڑا ہوں۔ میرے سامنے دھواں چھوڑتے ہوئے انجن ہیں یا اس پلیٹ فارم کے اطراف میں واقع دوسرے پلیٹ فارم ہیں لیکن جہاں میں ہوں وہاں لوگ ایڑیاں اٹھا اٹھا کر اس گاڑی کی راہ تک رہے ہیں جو انہیں ان کی منزل مقصود تک پہنچائے گی۔ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں اور مجھے یقین ہے یہ گاڑی ضرور آئے گی۔ گاڑی ضرور آئے گی مگر اس گاڑی کے آنے سے پہلے میں نے سفر کی روداد لکھ دی ہے، اس سفر کی جو میں نے نہیں کیا۔ اگر اس روداد میں کوئی خامی ہے، کسی جگہ کوئی تضاد نظر آتا ہے، واقعات میں ہم آہنگی نہیں ہے، کردار گڈمڈ ہو گئے ہیں یا کہیں صورتحال پوری طرح واضح نہیں ہوئی تو اس پر کسی کو رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ جو سفر نہ کیا ہو اس کی روداد ایسی ہی ہوتی ہے۔