35 برس کی عمر میں میراڈونا کسی بھی کلب سے پیشکش نہ ملنے پر اپنے ملک ارجنٹینا واپس چلے گئے۔ مشہورِ زمانہ پیلے اسی عمر میں امریکہ میں ایم ایل ایس میں کھیل رہے تھے جسے تب ریٹائرڈ کھلاڑیوں کی فٹبال لیگ تصور کیا جاتا تھا۔
35 برس کی عمر میں زیڈان بھی ریٹائر ہو چکے تھے اور عمر کے اسی حصے میں رونالڈینو کو کوئی بھی کھلانا نہیں چاہتا تھا۔
فٹبال کے کھیل کی نوعیت ایسی ہے کہ 30 کا ہندسہ پار کرنے کے بعد کھلاڑی سٹاپیج ٹائم یعنی کہ اضافی وقت میں کھیل رہا ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ یہ اس کھلاڑی کے لیے بونس سال ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ کھیل کے لیے درکار تیزی اور پھرتی ہے جو عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔
لیکن پھر ایک ایسا کھلاڑی بھی ہے جس نے 30 برس کا ہونے کے بعد نہ صرف 247 گول کیے بلکہ اس نے تین مختلف ملکوں میں تینوں لیگز اور چیمپیئنز لیگ کے اعزاز بھی اپنے نام کیے ہیں۔ یہ ایک ایسا کھلاڑی ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
35 برس کے کرسچیانو رونالڈو کل سویڈین کے خلاف دو گول کرنے کے بعد 100 گول کرنے والے تاریخ میں دوسرے کھلاڑی بنے۔
یہ بات اس لیے بھی دلچسپ ہے کیونکہ دنیائے فٹبال کے بہت بڑے بڑے نام اپنے پورے کریئر میں 100 گول کا ہندسہ پار نہیں کر سکے اور رونالڈو نے اتنے گول صرف پرتگال کی طرف سے کھیلتے ہوئے کیے ہیں۔ رونالڈو کے کریئر کے کُل گولز کی تعداد 632 ہے۔
کل والے میچ کے بعد اب رونالڈو، بین الاقوامی میچوں میں سب سے زیادہ گول کرنے والے علی دایی سے صرف 8 گول پیچھے ہیں۔ کل رونالڈو سارا دن ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرتے رہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ علی دایی کا نام بھی ٹرینڈ کر رہا تھا اور بہت سے لوگ یہ پوچھ رہے تھے کہ یہ فٹبالر ہے کون۔
ایران کا میراڈونا
ایران میں علی داعی کا وہی درجہ ہے جو کہ ارجنٹینا میں میراڈونا کا ہے۔ فٹبال کے مداحوں کی نئی نسل بہت سے فٹبالرز اور ان کے کھیل کے انداز اور صلاحیت سے بے خبر ہے۔ یوٹیوب پر پرانی ویڈیوز دیکھنے سے کسی بھی کھیل کے کسی بھی کھلاڑی کی صلاحیت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔
1993 میں پاکستان کے خلاف ایران کی ٹیم مینیجمنٹ نے 24 برس کے علی داعی کو سٹرائیکر پوزیشن پر کھلانے کا فیصلے کیا۔ وہ اس میچ میں گول تو نہ کرسکے لیکن اس نئے کھلاڑی کی تیزی اور پوزیشنل پلے کی خاصیت کی وجہ سے ٹیم مینیجمنٹ نے انھیں سکواڈ کا مستقل حصہ بنانے کا فیصلہ کیا۔
علی داعی کے لیے 100 گول کے ہندسے تک پہنچنا رونالڈو سے زیادہ مشکل اس لیے بھی تھا کیونکہ اس دور میں ایران کے پاس فٹبالرز کو فٹ اور چست رکھنے کے لیے نہ تو جدید دور کی ٹیکنالوجی تھی اور نہ ہی ملک کی سیاسی صورتحال کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ فٹبال کھیلنے کے مواقع میسر تھے۔
100 گول کا تعاقب
ہنگری کے فرینک پسکاس کا قومی ٹیم کے لیے سب سے زیادہ 84 گول کرنے کا ریکارڈ 47 برس تک کوئی نہیں توڑ سکا تھا۔
علی داعی جو 83 گول کر چکے تھے، نے تب ایشین کوالیفائر میں شمالی کوریا کے ساتھ میچ میں ایک گول کر کے پسکاس کا ریکاڈ برابر کردیا۔ لیکن ایرانی مداحوں میں سے کسی ایک نے میدان میں پٹاخہ پھینکا جو کہ شمالی کوریائی کھلاڑی کو جا لگا اور پوری ٹیم میدان سے باہر چلی گئی۔
ریفری کے بار بار بلانے پر بھی شمالی کوریا کی ٹیم احتجاجاً واپس نہیں آئی اور ریفری نے ایران کو فاتح قرار دے دیا۔ لیکن کھیل کے قوانین کچھ اس طرح کے تھے کہ علی داعی کا گول باضابطہ طور پر ریکارڈ میں شامل نہیں ہوا یا عام زبان میں اس گول کو مانا نہیں گیا۔
سٹرائیکر کی پوزیشن پر کھیلنے والے علی داعی نے کچھ دن بعد ہی لبنان کے خلاف میچ میں پینلٹی کک کے ذریعے گول کر کے ریکارڈ برابر کر دیا اور اس کے چند دن بعد اسی ٹیم کے ساتھ ایک اور میچ میں مزید گول کر کے سب سے زیادہ گول کرنے کا اعزاز اپنے نام کر لیا۔
1996 کے ایشیا کپ میں زبردست کارکردگی دکھانے کے بعد علی داعی کو جرمن لیگ بنڈسلیگا سے پیشکش ہوئی، جسے قبول کرنے کے بعد وہ چیمپیئنز لیگ میں کھیلنے والے پہلے ایشیائی کھلاڑی بھی بنے۔ معروف جرمن کلب بائرن میونخ کی طرف سے 23 میچ کھیل کر انھوں نے چھ گول کیے۔
جرمنی، فرانس، انگلینڈ، سپین اور اٹلی کی فٹبال لیگز کو ’بگ فائیو‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیائے فٹبال کی پانچ بڑی اور کھیل کے معیار کے لحاظ سے اعلیٰ ترین لیگز ہیں۔ ان لیگز میں زیادہ تر بڑِے اور نامور کھلاڑی ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ متبادل کھلاڑی بھی موجود ہوتے ہیں۔
داعی کیونکہ ایشائی طرز کی فٹبال کھیلتے تھے تو انھیں جرمنی اور یورپ میں اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع پوری طرح سے نہیں مل سکا۔
ایک لیگ سے دوسری لیگ میں جانے کے بعد کھلاڑیوں کو اکثر سیٹل ہونے میں بھی وقت لگتا ہے لیکن کیونکہ داعی کے متبادل کھلاڑی بائرن کے پاس موجود تھے تو انھیں بینچ تک ہی محدود کردیا گیا اور انھیں کھیلنے کے زیادہ مواقع نہیں ملے۔
انھوں نے اگلے سیزن میں حریف کلب ہرتھا کی طرف سے کھیلا لیکن وہاں بھی ان کا کھیل یورپی طرز کی فٹبال سے الگ نظر آیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یورپ میں اعداد و شمار محدود ہیں۔
لیکن اپنے ملک کے لیے بین الاقوامی سطح پر کھیلتے ہوئے ان کے گول اب بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہیں اور اس ریکارڈ کو 17 برس بیت چکے ہیں۔
اور ان 17 برسوں میں اب جا کر صرف ایک کھلاڑی اس کے نزدیک آیا ہے، جو اسے حقیقی طور پر سے توڑ سکتا ہے۔