پاکستان اور سعودی عرب نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے اس دعوے پر مبنی خبروں کی تردید کی ہے کہ پاکستان نے کوالالمپور سمٹ میں شرکت سعودی عرب کے مبینہ دباؤ پر نہیں کی ہے۔
جمعے کے روز ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے ملائیشیا میں جاری کوالالمپور سربراہی اجلاس میں پاکستان کی عدم شرکت کے حوالے سے پاکستان پر مبینہ سعودی دباؤ کا تذکرہ کیا تھا۔
سنیچر کی صبح پاکستان میں سعودی عرب کے سفارت خانے نے ذرائع ابلاغ پر چلنے والی ایسی ’بے بنیاد‘ خبروں کی تردید کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے پر مجبور کیا ہے اور پاکستان کو دھمکی دی ہے۔
سعودی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات ایسے نہیں جہاں دھمکیوں کی زبان استعمال ہوتی ہو، اس لیے کہ یہ گھرے تزویراتی تعلقات ہیں جو اعتماد، افہام و تفہیم اور باہمی احترام پر قائم ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان بیشتر علاقائی، عالمی اور بطور خاص امت مسلمہ کے معاملات میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔‘
جبکہ پاکستان پہلے ہی کہہ چکا ہے پاکستان نے سمٹ میں حصہ اس لیے نہیں لیا کیوں کہ ’مسلم امہ میں تقسیم پر مسلمان ممالک کے خدشات کو دور کرنے کے لیے پاکستان کو وقت درکار ہے۔‘
یاد رہے کہ ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں 18 دسمبر سے 21 دسمبر تک ہونے والے کوالالمپور سربراہی اجلاس کی صدارت وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کر رہے ہیں جبکہ ترکی کے صدر طیب اردوغان، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی اور ایران کے صدر حسن روحانی بھی سربراہی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔
سعودی سفارت خانے کا مزید کہنا ہے کہ سعودی عرب ہمیشہ دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے تاکہ پاکستان ایک کامیاب اور مستحکم ملک کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکے۔
اردوغان نے کیا کہا تھا؟
اس سمٹ میں پاکستان کی غیر موجودگی پر بات کرتے ہوئے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے ہم نے دیکھا ہے کہ سعودی عرب پاکستان پر دباؤ ڈالتا ہے۔‘
جمعے کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستان اور انڈونیشیا کی اجلاس میں غیر موجودگی کے بارے میں اردوغان کا کہنا تھا کہ ان کو اچھا لگتا اگر وہ بھی شریک ہوتے۔
ان ممالک کی غیر حاضری کے تناظر میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے کردار پر بات کرتے ہوئے صدر طیب اردوغان نے کہا کہ یہ ان ممالک کی عادت ہے کہ یہ دوسرے ممالک پر بعض اقدامات کرنے یا نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب میں 40 لاکھ پاکستانی کام کر رہے ہیں۔ وہ (پاکستانیوں کو) واپس بھیجنے کی دھمکی دے رہے ہیں کہ ان کے بجائے بنگلہ دیشی لوگوں کو پھر سے نوکریاں دے دیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ معاشی مشکلات کی وجہ سے پاکستان کو ’ایسی دھمکیاں ماننی پڑتی ہیں۔‘
انھوں نے یہ تاثر بھی دیا کہ انڈونیشیا کو بھی اسی قسم کے دباؤ کا سامنا ہے۔
پاکستان کی حکومت نے کیا کہا؟
جمعے کو پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے سمٹ میں حصہ اس لیے نہیں لیا کیوں کہ ’مسلم امہ میں تقسیم پر مسلمان ممالک کے خدشات کو دور کرنے کے لیے پاکستان کو وقت درکار ہے‘۔
بیان میں کہا گیا ہے ’امہ کے اتحاد کے لیے پاکستان اپنی کوششیں جاری رکھے گا‘۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے پاکستان کے کوالالپمور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کے بارے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی مقامی میڈیا کے صحافیوں سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ سمٹ میں عدم شرکت کی وجوہات متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے چند تحفظات ہیں جنھیں پاکستان کم وقت کے باعث دور نہیں کر سکا۔
پاکستانیوں کا ردِعمل
ترکی کے صدر کے سعودی عرب اور پاکستان سے متعلق بیان کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صارفین کی جانب سے ایک نئی بحث کا آغاز ہو چکا ہے اور ’اردوغان‘ اس وقت ٹوئٹر کا ٹاپ ٹرینڈ ہے۔
چند صارفین جہاں سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے عمران خان کے فیصلے کو درست قرار دیا تو وہیں کچھ نے اس بات پر افسوس کا بھی اظہار کیا کہ پاکستانیوں کو اس حوالے اپنی ہی قیادت نے خود کیوں اعتماد میں نہیں لیا۔
سوشل میڈیا صارف عطا الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ایک پاکستانی کے طور پر ہمیں عدم شرکت کے پاکستانی فیصلے کی حمایت کرنی چاہیے اور یہ کہ پاکستان کا مفاد پہلے آنا چاہیے کیونکہ ہم نے گذشتہ دہائیوں میں دیکھا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ ہم نے خود لڑی ہے۔
کچھ صارفین نے وزیرِ اعظم عمران خان کے عدم شرکت کے فیصلے پر ان کی بظاہر حمایت یا مخالفت کیے بغیر درمیانی راہ اپناتے ہوئے پاکستان پر موجود سعودی مالی قرض کی جانب نشاندہی کی۔
ایک صارف نے اس حوالے سے عمران خان کی حکومت پر بظاہر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ قوم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ قوم سے کوئی بات نہیں چھپائی جائے گی۔ کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ یہ بات اردوغان کے بجائے عمران خان کے منھ سے پتہ چلتی؟
ٹوئٹر صارف شاکر اللہ کا کہنا تھا کہ انھیں یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ کیسے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب کو خوش کرنے کے لیے ایسا کیا، اس کے بجائے عمران خان کی تعریف کیوں نہیں کی جا رہی جنھوں نے ان حالات میں بالکل درست فیصلہ کیا۔
ایک صارف نے تو اس پورے سربراہی اجلاس پر ہی سوالات اٹھا دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اردوغان نے وہی تصور پیش کیا ہے جو کبھی پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پیش کیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی نقل تیار کرنے جیسا ہے جو کہ ان کے مطابق ایک ناکام منصوبہ ہے۔
انھوں نے لکھا کہ اسلامی یونین بھی ممکنہ طور پر ناکام ہوگی کیونکہ یونین ہو یا نہ ہو، طاقتور ممالک غریب ممالک کا مفاد نہیں دیکھتے۔
کوالالمپور سمٹ کیا ہے؟
ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں ہونے والے اس سربراہی اجلاس میں مسلم رہنما، دانشور اور دنیا بھر سے سکالر مسلم دنیا کو درپیش مسائل اور ان ممالک کے باہمی دلچسپی کے امور کے بارے میں تبادلہ خیال کے لیے ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوتے ہیں۔
اس کا پہلا اجلاس نومبر 2014 میں کوالالمپور میں ہوا تھا، جس میں معروف مسلم شخصیات کے درمیان مسلم دنیا کو درپیش مسائل کے لیے نئے اور قابل قدر حل تلاش کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
اس سربراہی اجلاس کے رکن ممالک میں ملائیشیا، ترکی، قطر، موریطانیہ اور الجیریا شامل ہیں۔
جبکہ اس برس ہونے والے سربراہی اجلاس میں پاکستان، ایران، انڈونیشیا کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
اس سربراہی اجلاس میں ترکی سے صدر طیب اردغان، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی اور ایران کے صدر حسن روحانی شرکت کر رہے ہیں جبکہ پاکستان سے عمران خان کو اجلاس میں شریک ہونا تھا۔
پاکستان اس سمٹ میں شرکت کیوں نہیں کر رہا؟
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے ترک صدر اور ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد سے ملاقات میں مسلم امہ کی مثبت عکاسی کے لیے مل کر ایک نیا ٹی وی چینل بنانے کا اعلان کیا تھا۔
عمران خان کے گذشتہ دورہ ملائیشیا کے دوران مہاتیر محمد نے انھیں ملائیشیا میں تیار کردہ ایک گاڑی بھی تحفہ میں دی تھی جو چند روز قبل ہی وزیر اعظم ہاؤس پہنچی ہے۔
جہاں ایک طرف اتنی قربت دیکھی گئی وہاں ایسا کیا ہوا کہ پاکستان نے کوالالمپور سمٹ سے محض ایک دن قبل اس میں شرکت کرنے سے معذرت کر لی۔
اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سابق سفیر آصف درانی کا کہنا تھا کہ یہ تاثر درست ہے کہ پاکستان ملائیشیا میں ہونے والے اس سربراہی اجلاس میں سعودی عرب کے دباؤ کے باعث شرکت نہیں کر رہا۔
ان کے مطابق پاکستان کے موجودہ معاشی حالات سے یہ مجبوریاں واضح ہو کر سامنے آتیں ہیں اور اس پر پاکستان نے ملائیشیا اور ترکی کو اعتماد میں لیا ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مقامی میڈیا کے صحافیوں سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے یہ اشارہ دیا کہ پاکستان کی اس سربراہی اجلاس میں عدم شرکت کی وجوہات متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے چند تحفظات ہیں جن کو دور کرنے کے لیے پاکستان نے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن دستیاب وقت میں یہ تحفظات کو دور نہ کر پانے کی وجہ سے پاکستان اب اس سمٹ سے کنارہ کشی اختیار کر رہا ہے۔