’شادی کے تین ماہ بعد میں حاملہ ہوئی اور پہلا حمل بالکل صحیح رہا لیکن ڈیلیوی نارمل نہیں ہو سکی۔ پہلے بچے کی پیدائش کے نو ماہ بعد ہی میں دوبارہ حاملہ ہو گئی مگر دوسری مرتبہ بھی میرا آپریشن ہی ہوا۔‘
’(بچوں کے درمیان) کم وقفے کی وجہ سے مجھے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ خون کی کمی، کم بلڈ پریشر اور (پیٹ پر لگے) ٹانکوں کا درد۔‘
دوسرے بچے کی پیدائش کے دو برس بعد میں ایک مرتبہ پھر اُمید سے تھی جس کے باعث مجھے خون کی کمی کے مزید مسائل ہوئے جبکہ ٹانگوں میں درد ہونا، رات بھر جاگنا اور بی چینی ہونا بھی دیگر مسائل میں شامل تھا۔ تیسرے حمل کے دوران مجھے خون کی ضرورت پڑی، میرا جسم سوجنے لگا اور اندرونی طور پر انفیکشن بھی ہوا۔‘
’(تیسرے بچے کے) چار برس بعد میں دوبارہ حاملہ ہوئی اور اس کے بعد مجھے مستقل کمر میں درد رہنے لگا۔ کیونکہ میرے چاروں بچے سی سیکشن سے ہوئے تھے اور سی سیکشن میں جو انجیکشن لگتا ہے اس سے کمر میں مسلسل درد رہنے لگتا ہے۔‘
یہ کہانی ہے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کی رہائش حنا بابر کی جن کی شادی کو دس برس ہو گئے ہیں اور اب ان کے چار بچے ہیں۔
حنا بابر کا کہنا ہے کہ پہلے حمل اور اس کے بعد ہونے والے حمل میں فرق ہوتا ہے، کیونکہ پہلے حمل کے بعد جسمانی طور پر عورت کمزور ہوتی رہتی ہے۔ ’ہم اس طرح سے اپنے کھانے پینے کا دھیان نہیں رکھتے، چھوٹے چھوٹے بچے ہوں تو انسان انھی میں لگا رہتا ہے اور اپنا دھیان نہیں رہتا۔‘
حنا کا کہنا ہے کہ ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں اندر سے بالکل ختم ہو گئی ہوں، بہت زیادہ مسائل ہیں، کیلشیم کی کمی ہے، تھکاوٹ رہتی ہے اور سی سیکشن کی وجہ سے میں وزن بھی نہیں اٹھا سکتی ہوں۔‘
ماں کا صحت مند ہونا بھی اُتنا ہی ضروری ہے جتنا نئے بچے کا اِس دنیا میں آنا، لیکن بچوں کی پیدائش میں اگر مناسب وقفہ نہ ہو تو زچہ و بچہ دونوں کی آئندہ زندگی کے لیے صحت سے متعلقہ خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر ایک لاکھ میں سے تقریباً 178 خواتین دوران حمل ہونے والی پیچیدگیوں یا زچگی کے دوران زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں جبکہ پیدائش سے لے کر ایک برس کی عمر تک پہنچنے سے قبل ایک ہزار میں سے تقریباً 42 بچے دم توڑ جاتے ہیں۔
اسلام آباد کے شفا انٹرنیشنل ہسپتال کی ڈاکٹر شہناز نواز نے ہمیں بتایا کہ بچوں کی پیدائش میں وقفے سے متعلق ہونے والی ریسرچ کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک حمل سے دوسرے حمل کے دوران کم از کم ایک سے ڈیڑھ سال جبکہ زیادہ سے زیادہ پانچ برس کا وقفہ ضروری ہے۔
’عالمی ادارہ صحت کی سنہ 2005 کی ایک تحقیق کے مطابق دو حمل کے دوران وقفہ کم از کم 24 سے 33 مہینے ہونا چاہیے کیونکہ اس دوران ماں کی صحت کافی بہتر ہو جاتی ہے اور وہ اگلے بچے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔‘
لیکن اس کے بعد حال ہی میں کینیڈا میں ہونے والی ایک تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ’ایک حمل سے دوسرے حمل کے دوران ایک سے ڈیڑھ سال کا وقفہ ضروری ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ایک اور تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ایک سے دوسرے حمل کے دوران پانچ برس سے زیادہ وقفہ بھی خطرات کو بڑھا سکتا ہے۔
’دس برس گزرنے کے بعد بھی میں پریشان ہی ہوں‘
کراچی کی صفیہ خالد کی شادی کو انیس برس ہو گئے ہیں اور ان کے چار بچے ہیں، اس کے علاوہ ان کا ایک بچہ پیدائش کے بعد دم توڑ گیا جبکہ اسی دوران اُن کا ایک حمل ضائع بھی ہوا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ انھیں پہلے حمل سے ہی بلڈ پریشر کا مسئلہ رہنے لگا اور انیس برس گزرنے کے بعد بھی یہ مسئلہ جاری ہے۔
’میں نے ڈاکٹر، ہومیو پیتھک اور حکیموں سے بھی مشورہ کیا لیکن ادویات اور علاج کے باوجود بھی میں صحت مند نہیں ہو رہی ہوں، میں شروع سے ہی اس بارے میں پریشان تھی اور دس برس گزرنے کے بعد بھی میں پریشان ہی ہوں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے دو بیٹوں کی پیدائش کے بعد وقفے کے لیے انجیکشن بھی لگوائے لیکن اس سے مجھے حیض آنا بند ہو گئے۔ دس برس قبل میری آخری بیٹی ہوئی جس کے بعد میں نے پیدائش کا سلسلہ ختم کروا دیا۔ مجھے اس دوران موٹاپا ہو گیا، خون اور آئرن کی کمی ہو گئی۔‘
ماں اور بچے کی صحت کیسے متاثر ہوتی ہے؟
ڈاکٹر شہناز نواز کہتی ہیں کہ بچوں میں مناسب وقفہ نہ ہونے سے خواتین اور بچوں کی صحت پر انتہائی بُرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور حمل کے دوران پیچیدگیاں بڑھنے سے ماں کے مرنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’ماں کو اینیمیا کا مرض ہو جاتا ہے جس سے خون کی کمی ہو جاتی ہے، فولک ایسڈ کی کمی ہو جاتی ہے۔ فولک ایسڈ ایک ایسا وٹامن ہے جو بچے کے دماغ اور کمر کی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہے۔ اگر ماں میں فولک ایسڈ کم ہو تو بچے کے دماغ اور کمر میں پانی جمع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ چند حالیہ مطالعوں میں یہ تک کہا گیا ہے کہ اگر وقفہ کم ہو تو بچوں میں آٹزم کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ وقفہ کم ہو تو پیدا ہونے والے بچے کا وزن کم ہوتا ہے اور ڈیلیوری وقت سے پہلے ہو سکتی ہے۔ بچے کی پانی کی تھیلی وقت سے پہلے پھٹ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ماں کو بلڈپریشر کا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔‘
معاشرے میں آگاہی کے لیے کیا کرنا ہو گا؟
ڈاکٹر شہناز نواز کا ماننا ہے کہ لوگوں کو اس بارے میں آگاہی دینے کے لیے ڈاکٹرز اور ماہر امراض نسواں کو چاہیے کہ وہ حمل کے دوران ہی اپنے مریضوں کو اس بارے میں تعلیم دینا شروع کر دیں۔
وہ کہتی ہیں کہ بچوں میں وقفے سے متعلق صرف خواتین کو ہی نہیں بلکہ مردوں کو بھی تعلیم دینے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کو بھی اس بارے میں شعور دیا جائے۔
’میرے پاس لوگ آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم پر خاندان کا دباؤ ہے۔ کہیں نند کا یا کسی اور کا بچہ ہو رہا ہوتا ہے تو ساس، سسر کہتے ہیں کہ آپ کا کیوں نہیں ہو رہا، پھر لڑکی ہو جائے تو کوشش ہوتی ہے کہ لڑکا ہو جائے، تو اس کوشش میں بھی بچوں میں وقفہ کم ہو جاتا ہے۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ماں کمزور سے کمزور ہوتی چلی جاتی ہے اور بچے نظر انداز ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔‘
’خواتین بچوں کے لیے اپنی صحت کو چھوڑ دیتی ہیں‘
خواتین کی صحت پر نامناسب وقفے کی وجہ سے ہونے والی پیچیدگیوں کے اثرات ایک لمبے عرصے تک یا زندگی بھر بھی رہ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر شہناز نواز کہتی ہیں کہ ’نارمل ڈیلیوری کی صورت میں پیلوس کے پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں اور ہر ڈیلیوری کے بعد اعصاب کو نقصان پہنچتا ہے جس کا بعد میں کوئی علاج بھی نہیں ہوتا۔ بچہ دانی اور مثانہ اپنی جگہ سے ہٹ کر نیچے آ سکتے ہیں، خواتین کو پیشاب کی جلد حاجت کا مسئلہ ہو سکتا ہے جبکہ قبض کی شکایت بھی ہو سکتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’زیادہ سی سیکشن ہونے کی صورت میں خواتین کا کافی خون بہہ جاتا ہے، جس سے مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے زچہ کی موت کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔‘
صفیہ خالد کئی برس گزر جانے کے بعد بھی مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو سکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی خراب صحت کی وجہ سے ان کے بچوں کی پرورش بھی متاثر ہوئی ہے۔
’بچے اتنی جلدی جلدی ہوئے کہ میں اپنے بچوں کو بھی صحیح وقت نہیں دے سکی، جلدی جلدی حمل کی وجہ سے میں بچوں کو اپنا دودھ نہ پلا سکی، مجھے اپنا دودھ چھڑوانا پڑا اور میرے بچے فیڈر پر آ گئے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں ’ہم خواتین بچوں کے پیچھے اپنی صحت کو چھوڑ دیتی ہیں کہ بچہ تھوڑا بڑا ہو گا تو ہم خود کو دیکھیں گے لیکن ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں فوراً اپنی صحت کی طرف توجہ دینا چاہیے، میں نے کافی وقت بعد اپنی صحت پر توجہ دی لیکن میں اب صحت یاب نہیں ہو رہی۔‘