کچھ عرصہ پہلے تک صوبہ بلوچستان کے بہت سے دیگر سرحدی علاقوں کی طرح ضلع کیچ کے ایک چھوٹے سے گاؤں بلیدہ میں بھی منشیات باآسانی اور ارزاں نرخوں پر دستیاب تھی۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے سرحدی اضلاع افغانستان میں تیار کی جانے والی منشیات کی سمگلنگ کے بین الاقوامی روٹ کا حصہ ہیں اور اسی لیے ان علاقوں میں منشیات کی وبا کا عام ہونا اور کئی خاندانوں کا اس وبا کے ہاتھوں تباہ ہونا کوئی راز کی بات نہیں ہے۔
تاہم انسداد منشیات کے حوالے سے بلیدہ گاؤں میں حال ہی میں سماجی اور معاشرتی سطح پر ایک بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ اب نا تو یہاں سرعام منشیات فروخت کرنے والوں کے اڈے ہیں، نا ہی نوجوان نسل کو منشیات باآسانی اور ارزاں نرخوں میں دستیاب ہے اور تو اور وہ افراد جو نشے کی لت میں مبتلا ہو چکے تھے اُن کی صحت کی بحالی کا کام گاؤں ہی کی سماجی تنظیمیں اور سرکاری سطح پر کیا جا رہا ہے۔
بلیدہ گاؤں میں آنے والی اس اہم سماجی تبدیلی کی شروعات کا سہرا اس علاقے کی خواتین کے ایک ایسے گروپ کے سر ہے جن کے گھروں اور خاندان کے بیشتر مرد حضرات منشیات کی لت کے شکار ہو چکے تھے۔
یہ وہ خواتین ہیں جن کی زندگی صرف اس لیے کٹھن بنی کیونکہ ان کے بیٹے، بھائی، شوہر منشیات کے عادی تھے مگر پھر انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس گھمبیر صورتحال میں خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کریں گی۔
ان خواتین کے گروہ میں شامل دو خواتین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ کن حالات کے تحت انھیں نے اپنے علاقے میں انسداد منشیات کی مہم کا آغاز کیا اور مقامی لوگوں اور انتظامیہ کو اس میں شریک کیا۔
اسی علاقے کی رہائشی گل بی بی پانچ بیٹوں اور چار بیٹیوں کی ماں ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے پانچوں بیٹے منشیات کی لت میں مبتلا تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ ایک روز ’ایک خاتون نے مجھ سے سوال کیا کہ کب تک ہمارے والد، خاوند، بیٹے منشیات کے ہاتھوں تباہ ہوتے رہیں گے اور ہم مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں ظلم کا شکار ہوتی رہیں گی؟‘
’میں نے پوچھا کہ ہم کیا کر سکتی ہیں تو انھوں نے کہا کہ ہم باہر نکل کر ان منشیات کے اڈوں کو آگ لگا دیتے ہیں۔ ہم تو ویسے ہی چلتی پھرتی لاشیں ہیں جو بھی ہو گا اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘
گل بی بی کا کہنا تھا کہ ’میری اپنی زندگی انتہائی تکلیف دہ تھی، نہ صرف میں نے بلکہ ہمارے علاقے کی کئی خواتین نے اس مہم کا حصہ بن گئیں۔‘
گل بی بی نے بتایا کہ جب خواتین جلوس کی شکل میں باہر نکلیں تو انھیں نہیں پتا کہ خواتین میں اتنی طاقت، جوش اور جذبہ کہاں سے آ گیا تھا کیونکہ اس جلوس نے ہر وہ جگہ جلا کر راکھ کر دی جہاں پر منشیات فروخت ہوتی تھی۔
بلیدہ ہی کی ایک اور رہائشی رضیہ بی بی بتاتی ہیں کہ جب نشے کے عادی اُن کے خاوند اور بیٹے نے ان کی بیٹی کی ضرورت کے 300 روپے بھی چھین لیے تو اُسی وقت انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب ان کے علاقے میں یا تو منشیات فروش ہوں گے یا وہ۔
انھوں نے برقعہ پہنا اور ہر اُس گھر گئیں جہاں پر نشے کے عادی مرد موجود تھے اور متاثرہ خواتین سے بات چیت کی۔ اور پھر کچھ عرصے بعد ان متاثرہ خواتین نے مل کر اپنے گاؤں میں موجود منشیات کے تمام اڈے یا تو بند کروائے یا انھیں تباہ کر دیا۔
رضیہ بی بی بتاتی ہیں کہ ان کی شادی 35 برس قبل ہوئی تھی اور ان کے چھ بچے ہیں جن میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ’دس سال پہلے تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا، خاوند محنت مزدوری کرتا تھا اور جب بڑا بیٹا کچھ بڑا ہوا تو وہ بھی اپنے والد کے ساتھ مزدوری پر جانے لگا۔‘
’مگر دس سال قبل میرے خاوند اور کچھ عرصے بعد دو بڑے بیٹے، جن میں ایک شادی شدہ اور دو بچوں کا باپ بھی ہے، نشے کی لت میں مبتلا ہو گئے۔ یہی وہ وقت تھا جب میری میری زندگی کے کٹھن ترین دن شروع ہوئے۔ اُس وقت میرے بچے چھوٹے تھے اور سب سے چھوٹی بیٹی پہلی کلاس میں پڑھتی تھی، اب وہ فرسٹ ایئر کی طالبہ ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ خاوند کے مزدوری چھوڑنے اور نشہ شروع کرنے کے بعد ابتدا میں انھوں نے سلائی کڑھائی اور محنت مزدوری شروع کر دی مگر مسئلہ یہ تھا کہ ان کی کمائی کا بڑا حصہ بھی خاوند اور بیٹا نشے کے لیے چھین لیتے تھے جس کے باعث روز مرّہ کا گزارہ کرنا مشکل تر ہو گیا تھا۔
’باقی دنیا کا تو مجھے نہیں پتا مگر ہمارے بلوچ معاشرے میں اگر خاوند، والد یا بیٹا گمراہ ہو جائیں یا منشیات کے عادی بن جائیں تو اس کا سب سے بڑا خمیازہ گھر کی خواتین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ میرے معاملے میں بھی یہ ہی ہو رہا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ایک طرف وہ بچوں کو پال رہی تھی تو دوسری طرف نشے کے پیسے پورے کرنے کے لیے خاوند کے تشدد کا نشانہ بنتی تھیں۔
’ایک دن جب خاوند اور بیٹے نے کئی دن کی محنت سے جمع کیے ہوئے بیٹی کے ضرورت کے پیسے بھی مجھ سے چھین لیے تو یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے فیصلہ کیا کہ اب اس طرح زندگی نہیں گزر سکتی۔‘
’میں نے سب خواتین، جن کے گھر کے مرد نشہ کرتے تھے، کو کہا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں، والد اور خاوندوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوں۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ اس مہم میں ان کی بیٹی اور ایک بیٹے نے ان کا بہت ساتھ دیا تھا، وہ بینر اور چارٹ بناتے تھے۔
رضیہ بی بی نے بتایا کہ’مجھے اچھے سے یاد ہے کہ جب ہم خواتین باہر نکلیں تو علاقے کے مرد حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ کچھ نے روکنے کی کوشش کی مگر ہمارے تیور اچھے نہیں تھے۔‘
انسداد منشیات مہم آگے کیسے چلی؟
اس واقعے کے اگلے روز علاقے کی سیاسی و سماجی شخصیت اور انسداد منشیات کمیٹی بلیدہ زامران کے چئیرمین حاجی برکت بلیدی کچھ نوجوانوں کے ہمراہ ان خواتین کے پاس آئے جنھوں نے یہ اقدام کیا تھا۔
حاجی برکت بلیدی نے بی بی سی کو بتایا کہ بلوچ معاشرے کے اندر عام کیا خاص حالات میں بھی خواتین کا باہر نکلنا ممکن نہیں ہوتا، مگر جب ایک اچھے کام کے لیے خواتین باہر نکلیں تو پھر یہ بات بلوچ معاشرے کے لیے چیلنج بن گئی تھی کہ اگر خواتین یہ کام کر سکتی ہیں تو مرد کیوں نہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ خواتین کی جانب سے جلوس کے بعد علاقے کے چند نوجوان خود ہی اکھٹے ہوئے اور مختلف اجلاس منعقد ہوئے جن میں حکمت عملی طے کی گئی۔
’یہ (بلیدہ) کوئی بڑا علاقہ نہیں ہے۔ سب لوگ ایک دوسرے اور منشیات کے کاروبار سے منسلک لوگوں کو اچھے سے جانتے ہیں۔ ہم لوگ جرگے کی شکل میں اُن کے گھروں میں گئے۔ ان لوگوں سے درخواست کی کہ وہ اس کاروبار کو چھوڑ دیں۔ کئی ایک نے رضاکارانہ طور پر کاروبار ختم کر دیا جبکہ کچھ کو اُن کے گھر کی خواتین نے یہ کام کرنے سے روکا دیا۔‘
حاجی برکت بلیدی کا کہنا تھا کہ اب علاقے بھر میں بیداری کی لہر ہے، نوجوانوں نے گروپ تشکیل دیے ہیں جو مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں نگرانی کرتے ہیں۔ ’اگر کوئی منشیات کا کاروبار کرتے ہوئے مل جائے تو اس کے حوالے سے قانون کی مدد لینے کے علاوہ قبائلی روایات کے تحت کارروائی ہوتی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ اب ایسی اطلاعات بہت کم ہیں کہ کسی جگہ پر منشیات فروخت ہو رہی ہو۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چند روپوں میں ملنے والا نشہ اس سرحدی علاقے میں ایک ہزار روپے فی گرام میں بھی دستیاب نہیں ہے۔
منشیات کے عادی افراد کے لیے علاج معالجہ
رضیہ بی بی کا کہنا ہے کہ اب ان کے علاقے میں منشیات کھلے بندوں دستیاب نہیں ہے۔ ’میرے خاوند اب علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ سُنا ہے کہ تربت میں کسی جگہ پر موجود ہیں جبکہ میرے بیٹوں کو منشیات کے خلاف قائم علاقہ کمیٹی علاج معالجہ فراہم کر رہی ہے، جس سے وہ بہت بہتر ہو چکے ہیں۔‘
حاجی برکت بلیدی کا کہنا ہے کہ منشیات کے عادی لوگوں کو زندگی کی طرف لوٹانے کے لیے انھوں نے ایک بحالی سینٹر قائم کیا ہے جبکہ کچھ لوگوں کو کوئٹہ اور کراچی بھی علاج کی غرض سے بھیجا جا رہا ہے۔
سابق رکن اسمبلی میر فتح محمد بلیدی کہتے ہیں کہ ’یہ ٹھیک ہے کہ مقامی طور پر تو منشیات کے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں مگر اصل صورتحال یہ ہے کہ بین الاقوامی سمگلر مقامی ہینڈلرز کو ان کی خدمات کے عوض انتہائی سستے داموں اور بعض اوقات مفت منشیات فراہم کر دیتے ہیں، جس کے بعد وہ اس منشیات کو مقامی طور پر انتہائی سستے داموں فروخت کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی سپلائی لائن مکمل طور پر ختم کیے بغیر بلوچستان میں منشیات کا خاتمہ یا کسی حد تک قابو پانے کا خیال محض خام خیالی ہے۔
میر فتح محمد بلیدی کا کہنا تھا کہ اس لیے ہم نے انتظامیہ کے ساتھ اپنی میٹنگز میں یہ مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان کے راستے منشیات سمگلنگ کے بین الاقوامی روٹ کا خاتمہ کیا جائے۔
علاقے کے ڈپٹی کمشنر میجر (ر) محمد الیاس کہتے ہیں کہ بلیدہ کا علاقہ دور دراز علاقہ ہے جہاں منشیات کے روٹ مقامی لوگوں کے زیر اثر کام کرتے تھے۔ ’کچھ مقامات پر ہماری رسائی کم ہوتی تھی مگر جب مقامی لوگوں نے ہمارا ساتھ دیا تو وہاں پر جرگے منعقد کروائے گئے۔ جرگہ کے بعد قانون نافذ کرنے والوں اداروں کو ذمہ داریاں دی گئیں، جنھوں نے منشیات کے مزید اڈوں کو بند کروایا۔‘
’ہم نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ جن مقامات پر لیویز فورس کی تعیناتی کی ضرورت ہے وہاں پر تعیناتیاں کی جا رہی ہیں، منشیات کی سپلائی لائن کو کاٹنے کے لیے سخت ترین اقدامات پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔‘
ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کو کارروائیوں کے مثبت نتائج مل رہے ہیں اور وہ یہ توقع کر رہے ہیں کہ منشیات کی اس وبا پر بڑی حد تک قابو پا لیا جائے گا۔
’منشیات کی بین الاقوامی سپلائی لائن‘
بلوچستان کے سرحدی اضلاع کیچ، چاغی، گوادر وغیرہ میں منشیات کی وبا عام ہے۔
بلیدہ سے بلوچستان اسمبلی کے سابق ممبر صوبائی اسمبلی میر فتح محمد بلیدی بتاتے ہیں کہ برسوں سے بلوچستان کے سرحدی اضلاع کی ساحلی پٹی اور پہاڑی راستے منشیات کی ایران سمگلنگ کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور وہاں سے یہ مبینہ طور پر یورپ اور دیگر خطوں میں سمگل کی جاتی ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ بین الاقوامی طور پر سمگل کی جانے والی منشیات کا 15 سے 20 فیصد مقامی طور پر استعمال ہوتا ہے۔
’یہی وجہ ہے کہ ہمارے علاقوں میں بچوں کے لیے چاکلیٹ اتنی آسانی سے دستیاب نہیں، جتنی آسانی سے منشیات دستیاب ہوتی ہے۔‘
انسداد منشیات کمیٹی بلیدہ کے چیئرمین حاجی برکت بلیدی کا کہنا تھا کہ کرسٹل جیسا نشہ، جس کی بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک کلو کی قیمت کروڑوں روپے میں بنتی ہے، وہ بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں تقریبا 300 روپے فی گرام میں دستیاب ہو جاتا ہے۔
’جب نشہ اتنا کُھلے عام اور سستا دستیاب ہوگا تو پھر نوجوانوں نے تو تباہ ہونا ہی ہے۔‘
ضلع کیچ مکران ڈویثرن کا سب سے بڑا اور بلوچستان میں آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ضلع ہے۔ اس ضلع کی سرحد ایران کے ساتھ لگتی ہے۔
ڈپٹی کمشنر کیچ میجر (ر) محمد الیاس کا کہنا ہے کہ ’منشیات کا بین الاقوامی روٹ ان علاقوں سے گزرتا تھا جس کی وجہ سے یہ وبا مقامی لوگوں میں بھی سرایت کر چکی ہے۔‘
بلیدہ ایک ایسا علاقہ تھا جہاں پر کبھی منشیات گلی محلوں میں عام اور انتہائی سستی تھی مگر وہاں پر اب منشیات عام نہیں ہے۔ اور اگر دستیاب بھی ہے تو یہ انتہائی سستی نہیں، بلکہ بہت مہنگی ہے اور اس کی وجہ علاقے میں منشیات کے خلاف اٹھنے والی عوامی مہم ہے۔
ڈپٹی کمشنر میجر (ر) محمد الیاس کہتے ہیں کہ اِس مہم کا آغاز علاقے کی مقامی خواتین نے کیا تھا جس کے بعد اب یہ عوامی مہم بن چکی ہے جس کی مدد سے مقامی طور پر کسی حد تک منشیات کے استعمال اور دستیابی پر کنٹرول میں مدد ملی ہے۔