شیخ صاحب، آپ کو اچھا لگے یا برا، میری باتیں آپ کو بھائیں یا ناراض کردیں، میں ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں ’’میں آپ کو نہیں مانتا!‘‘۔
آپ نہ سونے چاندی کا چمچہ لیکر پیدا ہوئے، نہ آکسفورڈ یا ہاورڈ کی ڈگری لی، نہ آپ کسی بڑے خاندان کے چشم وچراغ ہیں، نہ آپ کی کوئی وراثتی نشست ہے، نہ آپ کی سیاسی خاندانوں میں رشتہ داری ہے، نہ ہی آپ کسی بیوروکریٹ یا جرنیل کےقرابت دار ہیں، آپ میں کوئی بھی وہ خوبی نہیں جو ہمارے منے پرمنے لیڈرز میں ہوتی ہے، اس لئے شیخ صاحب! میں آپ کو نہیں مانتا۔
آپ کوارٹروں، جھگیوں اور گلی محلوں کے رہائشی ہیں، آپ تھڑوں پر بیٹھ کر سیاست کرنے والے ہیں، آپ ریڑھی پر کھڑے ہو کر ناشتہ کرنے والے ہیں، آپ ہیئر ڈریسر سے نہیں نائی سے حجامت کرواتے ہیں، آپ ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتےبلکہ نانبائی سے راہ چلتے نان لیکر کھا لیتے ہیں، آپ چاچی اللہ رکھی اور ماما بوٹا سے گپ شپ لگاتے ہیں، شیخ صاحب آپ اور ہیں جبکہ ہمارے پسندیدہ لیڈر اورطرح کے ہیں۔ اسی لئے شیخ صاحب میں آپ کو نہیں مانتا…
ہم ان کو مانتے ہیں جن کے نعرے لگتے ہیں، ہم نعرے مارنے والوں کو نہیں مانتے۔ ہم عرش سے فرش پر آنے والوں کو مانتے ہیں، ہم فرش سے اٹھ کر اپنے آپ کو اوپر لیجانے والوں کو نہیں مانتے۔ ہمارے اوتار، ہمارے لیڈر، ہمارے سیاست دان سب اوپر کے طبقے سے ہیں، ہم نچلے طبقے سے آنے والوں کو نہیں مانتے، اسی لئے شیخ صاحب! میں آپ کو نہیں مانتا!
آپ گلی محلے تک محدود رہتے تو آپ قابلِ قبول تھے۔ کونسلر، ایم پی اے تک بھی ٹھیک تھا مگر آپ قومی سطح پر گلی محلے کی بات کرتے ہیں، یہ ناقابلِ قبول ہے۔ آٹے دال کا بھائو عوامی جلسے میں بتانا تو قابلِ قبول ہے مگر کابینہ کے بھرے اجلاس میں مہنگائی کی بات کرنا ناقابلِ قبول ہے۔ تھڑے پر یا کارنر میٹنگ میں کارکنوں کے حقوق کی بات کرنا قابلِ قبول ہے مگر حکومت کا وزیر ہو کر ورکروں کی بات کرنا ناقابلِ قبول ہے، اسی لئے شیخ صاحب، میں آپ کو نہیں مانتا۔
آپ اب تک خاک نشینوں کے ساتھی اور ہمراہی ہیں، آپ کارکن سے لیڈر اور لیڈر سے وزیر ہو گئے مگر آپ نے کلاس نہیں بدلی، اب بھی چھولے کھاتے اور لسی پیتے ہیں، برگر اور کافی کے رسیا نہیں ہو سکے، جہاں ہر کوئی بدل جاتا ہے آپ وہاں جا کر بھی نہیں بدلے، جہاں ہر ایک کی صحبت بدل جاتی ہے مگر آپ اب بھی ورکروں، عامل صحافیوں اور سڑک چھاپوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ پریس کانفرنس میں بھی آپ کے دائیں بائیں ابھی تک ماجھے گامے کھڑے ہوتے ہیں۔ اقتدار، حکومت اور وزارت سب کو بدل دیتی ہے مگر آپ نہیں بدلے، اسی لئے شیخ صاحب، میں آپ کو نہیں مانتا۔جناب شیخ، سن لیں میرا لیڈر اشرافیہ کے نیلے خون کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، سونےچاندی کا چمچ اس کے منہ میں ہوتا ہے، باہر سے تعلیم لے کر آتا ہے اور وہاں سے سیدھا ہمارے کندھوں پر سوار ہوتا ہے، اسی لئے شیخ صاحب میں آپ کو نہیں مانتا۔
مجھے آپ پر اور بھی کئی اعتراضات تھے، آپ مجھے شروع سے ہی بڑھک باز لگتے تھے، میں نے ایک بار آپ سے پوچھا تو آپ نے کہا نچلی کلاس والے کو اپنا قد اونچا کرنے کے لئے شور مچانا پڑتا ہے تب ہی لوگ اس کی بات کو سنتے ہیں۔ مجھے آپ کے قیمتی سگار بھی بہت برے لگتے تھے۔ جنرل مشرف جیسا اسٹائلش جنرل سگار پیئے یا چودھری فواد جیسا موروثی سیاست دان سگار کی خوشبو مہکائے تو سمجھ آتی ہے، آپ جیسا تھڑے باز سگار پیتا عجیب سا لگتا تھا۔ مجھے اور میری کلاس کو آپ کا لال مفلر بھی اچھا نہیں لگتا اسی لئے ہم نے سگار اور لال مفلر کو آپ کے ہر مزاحیے خاکے کا حصہ بنا کر پیش کیا، ہم چاہتے تھے کہ آپ کو ان اعتراضات کی مٹی میں دفن کر دیں اور ثابت کر دیں کہ آپ دو نمبر ہیں، آپ جو بنتے ہیں آپ اصل میں وہ نہیں ہیں، دراصل شیخ صاحب میں آپ کو مانتا ہی نہیں تھا۔
میں آج سچ کہہ دوں، میں شیخ صاحب کو دل سے مانتا ہی نہیں تھا، ان کے اچھے پہلو معلوم ہوتے تو میں ادھر یا ادھر جھٹکا دیکر واپس اپنی پرانی پوزیشن پر چلا جاتا مگر ہوا یوں کہ لاک ڈائون کی کال تھی، عمران خان نے کمیٹی چوک راولپنڈی پہنچنے کی کال دی ہوئی تھی، اسلام آباد راولپنڈی میں ہو کا عالم تھا، شہروں اور بازاروں میں پولیس کا قبضہ تھا، اندازہ ہو گیا کہ عمران خان بنی گالہ سے نہیں نکل سکیں گے، احتجاجی کال ٹھس ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی، ایسے میں آفت کا پرکالہ شیخ رشید موٹر سائیکل پر بیٹھ کر راولپنڈی کی پُر پیچ گلیوں سے جس بہادری سے کمیٹی چوک آ پہنچا اس نے مجھے ہلا دیا۔ چوک میں پہنچ کر شیخ رشید جیو کی ڈی ایس این جی کی چھت پر جا پہنچا اور وہاں بیٹھتے ہی اپنا لمبا سگار سلگایا، گویا احتجاجی نے اپنی منزل پالی تھی۔ اس دن سے اس لمحہ سے مجھے شیخ رشید کا سگار اور شیخ رشید کا لال مفلر بھی اچھا لگنے لگ گیا ہے۔
شیخ صاحب کے بارے میں تعصب کا ماسک اُترا تو ان کی شخصیت میں پرانی روح بیٹھی نظر آئی۔ وہ مولانا ابو الکلام آزاد کی وطن پرستی، عطاء اللہ شاہ بخاری کی آزاد پسندی، شورش کاشمیری کی بےباکی کا مجموعہ ہیں، ان ہی رہنمائوں کی طرح جیل گئے تو کتاب لکھ ڈالی، جیل کے واقعات اور اپنی اسیری کی کہانی کو بیان کیا۔ قوم پرست رہنمائوں اور شیخ رشید میں ایک فرق البتہ ضرور ہے۔ شیخ رشید 14بار (بقول ان کے) مختلف وزارتوں کے انچارج رہے ہیں جبکہ ان کے آئیڈیل لیڈرز اقتدار کی بجائے زیادہ تر اسیر ہی رہے۔ شیخ صاحب کی مگر خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اقتدار میں رہ کر بھی اپنی آزادی، خودی اور بےباکی کو قربان نہیں کیا، وہ اکیلے سپاہی ہیں مگر پوری فوج کے برابر ہیں۔ اپنی پارٹی کے اکلوتے بڑے لیڈر ہیں مگر کئی پارٹیوں پر اکیلے ہی بھاری ہیں۔
شیخ صاحب! ہم نوآبادیاتی نظام کے پروردہ نظریاتی غلام ہیں، ہمیں اپنی کلاس کے لوگ اپنے جیسے کھاتے پیتے عام افراد اچھے نہیں لگتے، ہمیں پہلے گورے اچھے لگتے تھے، گورے گئے تو ہمیں گوروں جیسی عادتوں والے برائون صاحب اچھے لگنے لگ گئے، ہماری غلامانہ ذہنیت اب بھی برقرار ہے اسی لئے ہماری ساری قیادت ہماری کلاس سے نہیں اشرافیہ اور دولت والے طبقہ سے ہے۔ ہمارے طبقے کا کوئی لیڈر بننے کی کوشش کرے تو اول تو ہم خود اسے اٹھنے نہیں دیتے اور اگر وہ ہم سے لڑبھڑ کر فتح یاب بھی ہو جائے تو اس کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں ہوتے کہ وہ قومی سیاست کرسکے۔
شیخ صاحب آپ کی اصل کامیابی یہ ہے کہ آپ سب رکاوٹوں کو پار کرکے اعلیٰ ترین قومی سطح پر پہنچے ہیں اور اب بھی آپ کا دل اسی طرح دھڑکتا ہے جیسے کسی عامی کا، ورکر کا یا عامل صحافی کا، آپ اقتدار کے ایوانوں میں بھی غریب کی بات کرتے ہیں، آپ شروع میں مخالفوں کے بارے میں سخت زبان استعمال کرتے تھے اب محتاط ہو گئے ہیں، محتاط ہی رہنا چاہئے۔ آخر میں مجھےیہ ماننا پڑے گا کہ شیخ صاحب آپ جیت گئے اور مجھ سمیت آپ کے ناقدین ہار گئے ہیں تاہم یہ ہار میٹھی ہار ہے کہ شیخ صاحب آپ جیتے ہیں تو ہماری کلاس جیتی ہے، اصل میں ہم ہی جیتے ہیں…
(اس کالم کے کچھ حصے شیخ رشید احمد کی کتاب ’’لال حویلی سے اقوام متحدہ تک‘‘ کی تقریب ِ رونمائی میں پڑھے گئے تھے۔)