دیانت کی دھند اور کرپشن کا کہرا
وسطی یورپ میں چیک رپبلک نام کا ملک ساٹھ کی دہائی میں پیدا ہونے والی ہماری نسل کے لئے فکری حریت اور شہری آزادیوں کے استعارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ چاروں طرف سے آسٹریا، جرمنی اور پولینڈ جیسے ممالک میں گھرے ہونے کے باعث براہ راست بحری رسائی سے محروم یہ ملک دنیا کے نقشے پر جنوری 1993 میں نمودار ہوا۔ قبل ازیں یہ وارسا بلاک کے رکن ملک چیکوسلاواکیہ کا حصہ تھا۔ نومبر 1989 میں مشرقی یورپ کی آزادی کے بعد چیکوسلاواکیہ کے باشندوں نے پرامن سیاسی مکالمے کے ذریعے اپنے ملک کو دو آزاد ممالک میں تقسیم کر لیا۔ چیک رپبلک کی آبادی قریب ایک کروڑ ہے۔ دارالحکومت پراگ کو پیرس، ویانا، برلن اور لندن کی طرح یورپ میں وہی مقام حاصل ہے جو ہمارے ملک میں لاہور کو۔ کافکا، میلان کنڈیرا اور ویکلاف ہیول کو کون نہیں جانتا۔ “وجود کی ناقابل برداشت لطافت” کے “مقدمے” کو “محکوموں کی طاقت” سے آشنا کرنے والے ان دیوقامت دانشوروں کو اسی شہر سے نسبت تھی۔
دس لاکھ آبادی کے شہر پراگ میں بہتے دریائے بل تاوا (Vltava) کے بائیں کنارے پر واقع پیٹرن (Petrin) کی تاریخی پہاڑی اسی طرح معروف ہے جیسے اسلام آباد میں مرگلہ۔ یہاں کے باغات میں آرٹ کے نمونے اس طرح بکھرے ہیں جیسے ٹیکسلا سے سوات تک گندھارا تہذیب کی نشانیاں۔ پیٹرن ہل کے دامن میں مجسمہ ساز Olbram Zoubeck کا ایک شاہکار ایستادہ ہے۔ کنکریٹ کی درجن بھر کشادہ سیڑھیوں کے بالائی حصے میں کانسی کے چھ قد آدم مجسمے جڑے ہیں۔ صرف پہلا مجسمہ مکمل انسانی شباہت رکھتا ہے۔ پانچ عقبی مجسموں میں کسی کا بازو غائب ہے تو کسی کی ٹانگ نہیں، کسی کا دھڑ بیچ سے چٹخا ہوا ہے تو کسی کا سر کہیں کھو گیا ہے۔ سفاک سیاسی تبصرے سے عبارت اس مجسمے کو 1948 سے 1989 تک اشتراکی استبداد کا نشانہ بننے والے شہریوں کی یادگار کا نام دیا گیا ہے۔ مئی 2002 میں اس مجسمے کی نقاب کشائی کی گئی۔ پراگ کے شہری اپنے بچوں کو یادگاری تختی پر کندہ یہ تحریر پڑھواتے ہیں، “205480 پر مقدمہ چلایا گیا، 248 کو سزائے موت دی گئی، 4500 قید خانے میں چل بسے، 327 غیرقانونی طور پر ملک چھوڑتے ہوئے سرحد پر مارے گئے اور 170938 شہری ملک بدر ہوئے۔”
اگر آپ نے دور افتادہ ناموں، مقامات اور واقعات کا یہ طومار یہاں تک پڑھ لیا ہے تو درویش آپ کا شکرگزار ہے۔ آپ کو یہ پوچھنے کا حق ہے کہ آپ کی اس ایذا رسانی کا مقصد کیا ہے۔ صاحبان، لکھنے والا ایک محب وطن شہری ہے اور قومی قیادت کا تابع فرمان ہے۔ کسی طور غیرملکی طاقتوں کا آلہ کار بننے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ آپ کیا چاہتے ہیں کہ آپ کو “کس حال میں ہیں یاران وطن” کی نثری تشریح سنائی جائے۔ یہ بتایا جائے کہ تربت میں حیات بلوچ کا ماتم کرنے والو، اگست 2016ء میں چاغی کے صدر مقام دالبندین سے اوجھل ہونے والے حفیظ اللہ حسنی کے گوشت پوست سے محروم استخوانی ڈھانچے کو کپڑوں اور جوتوں سے شناخت کر لیا گیا ہے۔ کوئٹہ میں فرض شناس ٹریفک سارجنٹ عطا اللہ کو درجنوں عینی گواہوں اور کیمروں کی موجودگی میں کچلنے والے سابق رکن اسمبلی مجید خان اچکزئی کو باعزت بری کر دیا گیا ہے۔ کندھ کوٹ کے 78 سالہ بزرگ سید بچل شاہ رواں برس فروری میں اہل خانہ کو بتائے بغیر سیر و تفریح پر چلے گئے تھے، بخیریت واپس آ گئے ہیں۔
کراچی میں پیر بخاری کالونی کی کچرا کنڈی سے پانچ سالہ بچی مروہ کی بے حرمت اور سوختہ نعش برآمد ہو گئی ہے۔ شہریوں بالخصوص صحافیوں کی غیر ذمہ داری کا نوحہ لکھا جائے کہ شمالی علاقوں کی سیاحت کے لئے جاتے وقت گاڑی لب سڑک چھوڑ جاتے ہیں اور ان کی مائیں نالہ و شیون سے کار سرکار میں مداخلت کرتی ہیں، ساجد گوندل نہ ہوا، سیالکوٹ کا اسلم قریشی ہو گیا۔ یہ تجویز کیا جائے کہ فرانس اور دیگر اخلاق باختہ ممالک سے آنے والی عورتوں کو وطن عزیز میں گھر سے نکلنے کے آداب اور اوقات کے بارے میں ایئرپورٹ ہی پر ضروری بریفنگ دی جائے۔ اس کے لئے لاہور میں تعینات اچھی شہرت کے حامل پولیس افسروں سے مدد لی جائے جنہوں نے متاثرہ خاتوں سے چھینا ہوا سامان برامد کر لیا ہے۔ ہے کل کی خبر ان کو مگر جز کی خبر گم۔
سبزی منڈی گوجرانوالہ میں پڑوسی کی مبینہ وحشت کا نشانہ بننے والی بارہ سالہ بچی کو نازک حالت میں ہسپتال داخل کر لیا گیا ہے۔ ملزم گرفتار ہونے کی اطلاعات ہیں۔ کراچی کے اللہ والا ٹاؤن میں زمیں بوس ہونے والی چار منزلہ عمارت کے ملبے سے زندہ افراد کی چیخ و پکار سنائی دے رہی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ عمارت ایک رفاہی پلاٹ پر چائنا کٹنگ کر کے غیرقانونی طور پر تعمیر کی گئی تھی۔ قابل صد احترام وزیر اعظم نے “سٹریٹجک گہرائی” کا جدید ایڈیشن بیان کرتے ہوئے قوم کو خبر دی ہے کہ “پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ اوورسیز پاکستانی ہیں۔ دہری شہریت والے غدار نہیں، بلکہ زیادہ محب وطن ہیں۔” کیا بصیرت ہے کہ جو بھی اثاثہ دریافت ہوتا ہے، اس کا محل وقوع سات لاکھ 96 ہزار مربع کلومیٹر کی حدود سے باہر پایا جاتا ہے۔ کچھ اس زمین کی آبیاری کا بھی سوچا جائے۔ یہ دھرتی بانجھ نہیں، کوئی اعتماد کا بیج بویا جائے، کسی تدبیر کو بارآوری کی مہلت ملے۔
ہمارے وزیراعظم کرپشن اور غداری کی باریکیوں پر عبور رکھتے ہیں۔ وہ ایک اچٹتی ہوئی نظر ہی سے بتا دیتے ہیں کہ کون دیانت دار ہے اور کون کرپٹ۔ کون محب وطن ہے اور کون غدار۔ ہماری مشکل مگر یہ ہے کہ مالی دیانت اور قومی امنگوں کے تال میل میں ہمارا تجربہ ایسا استوار نہیں جیسا محترم وزیر اعظم کو مبداء فیض سے ارزاں ہوا ہے۔ غلام محمد، یحییٰ خان اور غلام اسحاق خان کی مالی دیانت ضرب المثل تھی مگر ہماری کھیتی اجاڑ گئے۔ لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو پر مالی بددیانتی کی کوئی تہمت نہیں تھی، انہیں وطن دوستی کا تاوان اپنے لہو سے دینا پڑا۔ راشد نے شاید یہی الجھن بیان کرتے ہوئے لکھا تھا:
سلیماں سر بہ زانو اور سبا ویراں
سبا ویراں، سبا آسیب کا مسکن
سبا آلام کا انبار بے پایاں!