منتخب تحریریں

کچھ آن دی ریکارڈ ‘ کچھ آف دی ریکارڈ

Share

نواز شریف کے متعلق پرویز مشرف کے بعض جملے تو ریکارڈ پر ہیں مثلاً 12اکتوبر1999ء کی کارروائی کے بعدمدیرانِ جرائد ‘ سینئر تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں سے پہلی میٹنگ میں ان کا کہنا تھا :اُس نے مجھے دھکا دیا…جو مجھے دھکا دے گا‘ میں اُسے دھکا دے دوں گا(مطلب یہ کہ اس نے مجھے نکالنے کی کوشش کی‘ میں نے اسے نکال باہر کیا)۔کچھ عرصہ بعد بی بی سی کے انٹرویو میں انہوں نے اسی بات کو ایک اور انداز میں دہرایا: وہ مجھے برخاست نہ کرتا تو آج بھی وزیر اعظم ہوتا۔ یاد آیا‘ حال ہی میں وزیر داخلہ بریگیڈئیر(ر) اعجاز شاہ نے عارف نظامی صاحب سے انٹرویو میں کہا تھا: نواز شریف کے گرد‘ چھ سات لوگ تھے(وہ انہی کی سنتا تھا) یہ نہ ہوتے تو وہ چوتھی بار بھی وزیر اعظم ہوتا۔ ایک اور مرحلے پر جنرل مشرف نے کہا تھا: وہ میرا دشمن نمبر ایک ہے لیکن سکیورٹی رسک نہیں۔(قدرے توقف کے بعد ) لیکن میں یہ بات بے نظیر کے متعلق نہیں کہہ سکتا…یہاں انہوں نے محترمہ کو ”پتے باز‘‘ خاتون بھی قرار دیا۔یہ الگ بات کہ اپنی صدارت کی اگلی پانچ سالہ مدت یقینی بنانے کے لیے انہوں نے انہی سے 5اکتوبر 2007ء کو این آر او کر لیا( صدارتی انتخاب 6اکتوبر کوتھا )۔ تب انٹیلی جنس چیف جنرل کیانی کو اس کے ”مصنفین‘‘ میں شمار کیا جاتا تھا۔ اسے حتمی شکل دینے کے لیے محترمہ نے مخدوم امین فہیم کو لندن سے اسلام آباد بھیجا تھا ۔ این آر او کیلئے خود بے نظیر صاحبہ نے ڈیل کا لفظ استعمال کیا تھا۔
نواز شریف کے متعلق ایک اور موقع پر جنرل مشرف نے کہا تھا: میرے ہوتے ہوئے وہ واپس نہیں آسکتا۔ وہ آئے گا‘ تو میں نہیں ہوں گا۔ کوئی ایسا وقت بھی ہوتا ہے کہ منہ سے نکلے ہوئے الفاظ پورے ہو جاتے ہیں۔ نواز شریف‘ مشرف کی موجودگی میں پاکستان آگئے اور تیسری بار وزیر اعظم بھی بن گئے۔ پھر یوں ہوا کہ مشرف پاکستان میں نہیں تھے۔
دوستوں کے قریبی حلقے میں کہی گئی بعض باتیں پردے سے چھن چھن کر باہر آجاتی ہیں لیکن آف دی ریکارڈ رہتی ہیں۔12اکتوبر 1999ء کے بعد کافی عرصہ نوازشریف کے خلاف جنرل صاحب کا غیظ و غضب بہت شدید رہا۔ وہ دوستوں میں کہا کرتے: میں اسے سیاسی و معاشی لحاظ سے تباہ کرنے کے علاوہ نفسیاتی و اعصابی طور پر مفلوج بھی کردوں گا۔ انہی میٹنگوں میں شاہ سے زیادہ شاہ کا کوئی وفادار یہ تجویز بھی پیش کرتا کہ طیارہ سازش کیس میں نواز شریف کو سزائے موت ہو جائے تو چھوٹے صوبوں (خصوصاً سندھ) میں اس تاثر کو ختم کرنے میں مدد ملے گی کہ پھانسیاں چھوٹے صوبے سے تعلق رکھنے والی قیادت ہی کا مقدر ہیں۔ نواز شریف کی خوش قسمتی کہ اس کیس کی سماعت کرنے والی کراچی کی خصوصی عدالت نے انہیں موت کے بجائے عمر قید کا مستحق سمجھا (اور شہباز شریف ‘شاہد خاقان عباسی‘ سیف الرحمن ‘ رانا مقبول اور سعید مہدی سمیت تمام شریک ملزمان کو بے گناہ قرار دے دیا۔ طیارے کے اغوا کی دنیا بھر میں یہ پہلی اور انوکھی مثال تھی جس میں ایک ہی شخص منصوبہ ساز بھی تھا اور اتنے بڑے آپریشن کو کنٹرول بھی کر رہا تھا) خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف دونوں فریق اپیل میں چلے گئے ۔ نواز شریف عمر قیدکے خلاف درخواست گزار تھے جبکہ استغاثہ مجرم کو عمر قید کے بجائے سزائے موت کا مستحق قرار دے رہا تھا۔ یہی وہ موقع تھا جب نواز شریف کے غیر ملکی دوست(جن کی پاکستان سے دوستی بھی کسی شک و شبہ سے بالا تھی) بروئے کار آئے اور نواز شریف فیملی سمیت جلاوطن ہو گئے۔ ان دوستوں میں سعودی ولی عہد شہزادہ عبد اللہ بن عبد العزیز سر فہرست تھے۔ قاضی حسین احمد سعودی عرب گئے ہوئے تھے۔ ولی عہد سے ملاقات میں نواز شریف کی جلا وطنی کی بات چھڑی تو سعودی عرب کے بااختیار شہزادے نے کہا: ہمارے دوست کی گردن تلوار کے نیچے تھی‘ ہم اسے نکال کر لے آئے۔
12اکتوبر 1999ء کی شام حراست میں لئے جانے کے بعد سے 10دسمبر2000ء کو جلا وطنی تک‘ راولپنڈی میس‘ پھر کشمیر پوائنٹ مری پر گورنر ہاؤس کے زیریں حصے‘ اس کے بعد کراچی کی لانڈھی جیل اور اٹک قلعے کی جیل میں ان پر جو بیتی‘ کیا وہ مجرم کو نفسیاتی و اعصابی طور پر مفلوج کرنے کی حکمت عملی کا حصہ تھا؟سرور محل جدہ کی ملاقاتوں میں ‘ مَیں جب بھی اس قید و بند کی بات چھیڑتا تو میاں صاحب تفصیل میں جانے سے گریز کرتے۔ شاید وہ اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر بھول جانا چاہتے تھے یا تلخ یادوں کی اذیت سے بچنا چاہتے تھے۔ تاہم کبھی وہ زبان کھول لیتے۔12اکتوبر کی شام پرائم منسٹر ہاؤس سے حراست میں لیے جانے کے بعد انہیں پشاور روڈ اور ریس کورس پارک کے قریب ایک میس میں پہنچا دیا گیا۔ اسی شب جنرل محمود‘ جنرل احسان اور جنرل اورکزئی نشریف لائے۔ اس ”ملاقات‘‘ میں جو کچھ ہوا وہ کہانی پھر سہی…مختصر یہ کہ اس ملاقات کا اختتام خاصا تلخ تھا۔ سابق وزیر اعظم کا مسکن ‘یہ کمرہ باہر کی روشنی سے مکمل طور پر محروم تھا۔ کھڑکیوں کے شیشے سیاہ کر دیئے گئے تھے۔اگلی صبح ایک باوردی ملازم دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا‘ اس کے باقی ساتھی دروازے پر کھڑے رہے ۔ اس نے ناشتے کی ٹرے میز پر رکھی اور خاموشی سے باہر نکل گیا‘ دروازہ پھر مقفل ہو گیا تھا ۔کبھی یوں ہوتا کہ دروازہ کھلتا ‘کھانے کی ٹرے اند ردہلیز کے ساتھ رکھ کر دروازہ بند کر دیا جاتا۔ کافی دن اسی عالم میں گزر گئے۔ یہ کتنے دن تھے‘ اس کا حساب رکھنا تو مشکل تھا‘ ایک دن دروازہ کھلا اور ایک درمیان درجے کے افسر نے موبائل فون میاں صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا : یہ آپ کی کال ہے۔ دوسری طرف ابا جی تھے۔جہاندیدہ اور سرد وگرم چشیدہ بڑے میاں صاحب کو اندازہ تھا کہ لمبی بات کا وقت نہیں؛ چنانچہ علیک سلیک کے بعد براہِ راست کام کی بات کی طر ف آگئے: نواز !گھبرانا نہیں۔ اللہ سے دعا کرتے رہا کرو‘ ہم مقابلہ کریں گے۔ ادھر سے کسی جواب سے پہلے کال ختم ہوگئی۔ معزول وزیر اعظم کابیرونی دنیا سے یہ پہلا رابطہ تھا۔ کوئی چالیس دن اس عالم میں گزر گئے ۔ جس کے بعد کراچی کی خصوصی عدالت میں طیارہ اغوا کیس کی سماعت شروع ہو گئی۔ ہوائی جہاز کے اس سفر کی روداد بھی دلچسپ تھی۔ اس کے لیے ایک چھوٹا سا طیارہ استعمال کیا جاتا جس کی رفتار بھی کم تھی اور اسے تیل بھر وانے کے لیے ملتان میں اترنا پڑتا۔ یوں پنڈی سے کراچی کا یہ ہوائی سفر کوئی سات گھنٹے لے جاتا۔ ایک دن تو یہ بھی ہوا کہ ملزم کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنانے کے علاوہ اس کی ٹانگیں بھی سیٹ کے ساتھ باندھ دی گئیں۔یہ خبر عام ہوئی تو احباب کی ایک غیر رسمی میٹنگ میں جناب نواب زادہ نصر اللہ خاں (مرحوم)سے رہا نہ گیا۔ وہ اسے Too Muchقرار دیتے ہوئے سخت احتجاج کر رہے تھے۔ جس پر سر کار کے حامی ایک سینئر اخبار نویس نے (جو ایک کالج میں تدریسی فرائض انجام دہی کے ساتھ ‘ باقاعدگی سے دفتر آکر کالم بھی لکھتے‘ اداریہ نویسی بھی کرتے) اسے سکیورٹی کا تقاضا قرار دیا۔ جس پر نواب زادہ صاحب مزید بھڑک اٹھے اور کہا: کیا اس بات کا خطرہ ہے کہ ملزم جہاز سے باہر چھلانگ نہ لگا دے؟ ڈاکٹر سعید الٰہی کی کتاب ”جلاوطن وزیر اعظم‘‘ میں بھی اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر ہے‘ جہاز میں ہتھکڑیاں لگانے کی باز گشت قومی میڈیا میں سنائی دی۔ میاں صاحب کے وکیل خواجہ نوید نے جج صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: جنابِ عالی! اگر خدانخواستہ جہاز کسی حادثے کا شکار ہو جائے تو ہتھکڑیاں لگے میرے موکل کی جان کیسے بچائی جا سکے گی؟ اس پر جج صاحب بھی مسکرا دیئے اور میاں صاحب بھی اپنی ہنسی ضبط نہ کر سکے۔