میجر عزیز بھٹی کے کردار کے لیے کئی برس کا انتظار اور حقیقی تربیت
یہ سال 1984 ہے۔ افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر نے میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر پہ ڈرامہ بنانے کے لیے ان سے متشابہ کسی موزوں اداکار کو ڈھونڈنے کا ٹاسک پاکستان ٹیلی ویژن کے تمام سینٹرز کو سونپ رکھا ہے جس کی حتمی منظوری کے لیے فوج، پی ٹی وی اور میجر عزیز بھٹی کے خاندان کے افراد پر مشتمل ایک سلیکشن بورڈ بھی تشکیل دیا گیا ہے۔
پاکستانی فلم اور ٹی وی کی دنیا کے اس وقت کے ایک سے بڑے ایک فنکار بشمول عابد علی، قومی خان، فردوس جمال، راحت کاظمی اور کئی دوسرے ناموں کی فہرست پیش کی گئی لیکن بات نہ بن سکی کیونکہ متعلقہ افسران اور دیگر ذمہ داران کا یہ خیال تھا کہ فہرست میں دیے گئے سب نام مختلف کرداروں کی وجہ سے پہلے ہی اپنا ایک الگ مقام بنا چکے ہیں اس لیے قوم انھیں میجر عزیز بھٹی کے کردار میں کیسے قبول کرے گی اس لیے آپ ہمیں کوئی نیا چہرہ دیں جس کی ان سے مشابہت بھی ہو، قد کاٹھ بھی ملتا جلتا ہو اور آواز بھی اچھی ہو،مردانہ ہو تاکہ وہ سب سے الگ لگے اور لوگوں کے ذہنوں میں اس کردار کی چھاپ تادیر برقرار رہے۔
دنوں سے ہفتے اور ہفتوں سے مہینے گزرتے گئے، فہرستوں پہ فہرستیں بنیں لیکن انتخاب کا خانہ ابھی تک خالی ہے۔
دوسری طرف ان سب باتوں سے نا آشنا 24سال کا ایک خوبصورت نوجوان اپنے روز مرہ کے کام میں مگن ہے۔ وہ پی ٹی وی پر صدر اور وزیر اعظم کی سپیشل رپورٹس کا پیش کار بھی ہے (جوہفتہ میں دو یا تین بار چلتی ہیں)۔ ہفتہ وار پروگرام ’ہفتہ رفتہ‘ کا میزبان بھی ہے جو اسلام آباد سے نشر ہوتا ہے جس میں سابق سفارتکارحسین حقانی بطور تجزیہ کار شرکت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ لاہور سنٹر سے علاقائی زبانوں کے پروگرام ’ویلے دی گل‘ جو ہفتے میں تین بار نشر ہوتا ہے اس کی میزبانی کا سہرا بھی اسی نوجوان کے سر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار نیوز کاسٹر کی عدم موجودگی میں لاہور سے خبریں پڑھنے کا ذمہ بھی یہ نوجوان نبھا رہا ہے۔
خوش مزاج اور نرم گفتار یہ نوجوان ناصر شیرازی ہے جو شعبہ صحافت میں ایم اے کی ڈگری لینے کے بعد پی ٹی وی میں ملازمت کررہا ہے۔
جب کسی طرف سے بھی کوئی موزوں چہرہ سامنے نہ آسکا تو اپنے وقت کے منجھے ہوئے ہدایتکار اور پاکستان ٹیلی وژن لاہور سینٹر کے اس وقت کے جنرل مینجر محمد نثار حسین کی نظر ناصر شیرازی پر پڑی جن کی شکل و صورت اور قد کاٹھ بھی میجر عزیز بھٹی سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔
ناصر شیرازی کو ملاقات کے لیے بلا لیا گیا۔ اگلے روز ناصر شیرازی جب جنرل مینیجر سے ملنے ان کے آفس پہنچے تو انھیں بالکل بھی اندازہ نہیں تھاکہ یہ ملاقات ان کی آنے والی زندگی کو کس حد تک متاثر کرنی والی ہے اور انھیں کسی ایسے کردار کے متعلق پیشکش کی جائے گی جو ہمیشہ کے لیے ان کی پہچان بن جائے گا۔
ہلکی گپ شپ کے بعد نثار حسین بولے!
’ناصر (شیرازی) میں تمھیں( ایک ڈرامے میں) ہیرو بنانا چاہتا ہوں’, جنرل مینجر کے اس مختصر جملے سے شرمیلا نوجوان حیران ہوا۔ میں اور ہیرو! اس نے خود سے سوال کیا۔
’سرمیں پڑھنے لکھنے والا بندہ ہوں اداکاری کا کبھی سوچا نہیں اور نہ ہی یہ میرا شوق ہے۔‘
ناصر شیرازی نے معذرت کرتے ہوئے نفی میں سر ہلادیا۔ نثار حسین یہ جواب سنتے ہی زیر لب مسکرائے اور کہنے لگے کہ نہیں یار آپ اس پہ سوچو اور اپنا ذہن بناؤ ہم نے آپ کے لیے کوئی بڑا کردار سوچ رکھا ہے۔ کچھ دیر بعد یہ ملاقات ختم ہوئی اور ناصر شیرازی واپس لوٹ گئے۔
ناصر شیرازی اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ جنرل مینیجر نے دوبارہ بلا لیا۔ کہنے لگے اچھا جی کیا سوچا ہے پھر آپ نے! میں نے کہا سر سوچنا کیا ہے میں تو پہلے ہی آپ کو بتا چکا ہوں کہ مجھے اداکاری کا شوق نہیں۔ نثار حسین صاحب کہنے لگے کہ جو کردار آپ کے لیے سوچ رکھا ہے وہ بڑا تاریخی ہے اور اس کی بڑی اہمیت ہے اور وہ کردار 1965 کی پاک-بھارت جنگ کے ہیرو میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدرکا ہے۔‘
’جب میں نے یہ سنا تو بغیر کچھ سوچے، سمجھے کہ میں یہ کرپاؤں گا بھی یا نہیں فوری ہاں کردی۔ میں نے کہا کہ اتنی عظیم شخصیت کا کردار نبھانا تو خود ان کے لیے بڑے فخر اور اعزاز کی بات ہے اور وہ اس کے لیے حاضر ہیں۔‘
ان دنوں میں چونکہ کرنٹ افیئر کے پروگرام کررہا تھا اور خالد محمود ربانی نیوز کے سربراہ تھے انھوں نے ایک دن نثارصاحب کو کہہ دیا کہ ناصر کو کرنٹ افیئر سے نکال کر ہمیں دے دیں میں اسے نیوز کاسٹر بنانا چاہتا ہوں۔ نثار صاحب بولے جنٹلمین آپ نے دیر کردی ہے آپ اسے نیوز کاسٹر بنانے کا سوچ رہے ہیں جبکہ ہم تو اسے ہیرو بنانے جارہے ہیں۔
نثار حسین نے ناصر شیرازی کے متعلق بورڈ کو آگاہ کیا جہاں ان کا باقاعدہ انٹرویو کیا گیا اورسلیکشن بورڈ کے علاوہ بھی مختلف جگہوں سے رائے لی گئی جس میں سب اس بات پر متفق تھے کہ اس کردار کے لیے سب سے موزوں اگر کوئی شخص ہے تو وہ ناصر شیرازی ہی ہیں۔
سلیکشن بورڈ نے میرے علاوہ میجر عزیز بھٹی کے بیٹے ذوالفقار جنھیں ہم پیار سے ذولفی بھی کہتے ہیں اس کردار کے لیے انھیں بھی مدعو کیا لیکن انھوں نے یہ کہتے ہوئے معذرت کرلی کہ حالانکہ وہ شہید کے بیٹے ہیں اور انھیں اس کردار کو کرنے میں خوشی ہوگی لیکن جس مقصد کے لیے یہ ڈرامہ بن رہا ہے اس میں جذبات کو ایک طرف رکھ کر عقل سے کام لیا جائے اور عقل یہ کہتی ہے یہ کردارناصر شیرازی ہی سے کروایا جائے۔
ناصر شیرازی بتاتے ہیں کہ ’جب سلیکشن بورڈنے ہاں کردی تو نثار صاحب کہنے لگے کہ اس کردار کے لیے آپ کو کافی وقت دینا پڑے گا۔ ہم آپ کو سکھائیں گے، ٹرین کریں گے اور اس کردار کے لیے آپ کو تیار کریں گے۔‘
اس کردار کے لیے منتخب ہونے کے بعد اپنے خاندان کے رد عمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ وہ گھر والوں کو اس کے متعلق تب تک بتانا نہیں چاہتے تھے جب تک یہ ڈرامہ مکمل ہو کر سکرین پہ چلنے کے لیے تیارنہ ہوجائے۔
’لیکن ایک روز میرے ایک دوست افضال شاہد (اب فوت ہوچکے ہیں) جو ایک قومی اخبار میں کام کر رہے تھے میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اپنا کوئی البم دکھاؤ۔ میں نے کہا آپ نے کیا کرنا ہے۔ ازراہ تفنن کہنے لگے کہ تمھارے لیے رشتہ ڈھونڈنا ہے۔ میں نے جب دوبارہ پوچھا تو کہنے لگا یہ نہیں بتانا بس تم اپنا البم دو۔ ان کے ساتھ چونکہ قریبی تعلق تھا اس لیے انھوں نے پورے کمرے کی چیزیں ادھر ادھرالٹ پلٹ دیں اورایک البم ڈھونڈ لیا جس میں سے وہ تصویر نکال لی جس میں ایسے لگ رہا تھا جیسے میجر عزیز بھٹی ہی بیٹھے ہوں۔‘
’انھوں نے وہ تصویر لی اور رفو چکر۔ ایک ہفتے بعد انھوں نے اپنے سنڈے میگزین میں وہ تصویر تمام تر تفصیلات کے ساتھ شائع کردی کہ ناصر شیرازی ہی وہ شخص ہے جو میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر پہ بننے والے ڈرامے کا کردار ادا کررہا ہے۔ اس طرح یہ بات میرے گھر والوں سمیت سب کو پتہ چل گئی جس پہ والدین اور بہن بھائی بڑے خوش ہوئے اور دعائیں دیں۔‘
سلیکشن کا مرحلہ مکمل ہوجانے کے بعد ٹریننگ کا سلسلہ شروع ہونا تھا لیکن 1984کے بعد حالات کچھ ایسے بدلے کہ یہ شروع نہ ہوسکا اور دو سال بیت گئے۔ 1986 میں ڈرامہ کے بارے میں دوبارہ بازگشت شروع ہوئی۔ اس بار بطور پروڈیوسر قرعہ یاور حیات صاحب کے نام نکلا۔ ملاقاتیں چلتی رہیں کہ کیا ہوگا، کب ہوگا اورکیسے ہوگا لیکن عملی طور پر کچھ بھی شروع نہ ہوسکا۔
1986-87میں بھارت کے ساتھ حالات پھر کشیدہ ہوگئے اور یہ معاملہ پھر التوا کا شکار ہوگیا۔
ناصر شیرازی کے مطابق، جب یہ بات باہر نکلی کہ پاکستان میجر عزیز بھٹی پہ نشان حیدرڈرامہ بنارہا ہے تو بھارت نے اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق سے باقاعدہ احتجاج بھی کیا تھا۔’ایک طرف آپ تعلقات میں نرمی کا کہتے ہیں جبکہ دوسری طرف ہمارے خلاف نشان حیدر دکھاتے ہیں۔ ‘ اس مرحلے پر ڈرامے کا یہ منصوبہ ایک بار پھرروک دیا گیا۔
اس وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ کبھی کبھی انھیں یہ خیال ضرور آتا تھا کہ شاید یہ ڈرامہ بن ہی نہ پائے کیونکہ بہت عرصہ گزر چکا تھا۔
کرتے کرتے 1995 آگیا جب ڈرامے کی پروڈکشن کے متعلق معاملات دوبارہ شروع ہوئے۔ ناصر شیرازی کے بقول انھیں یقین نہیں تھا کہ اس بار بھی یہ ڈرامہ بن پائے گا یا نہیں لیکن وہ خود کو یہ کہہ کر سمجھا لیتے تھے کہ اس سے پہلے بھی نشان حیدر پہ ڈرامے بن چکے ہیں اور یہ والا بھی ضرور بنے گا کیونکہ 65 کی جنگ ایک بہت بڑی جنگ تھی جس میں فوج اور عوام نے مل کر اپنے سے بڑے دشمن کو شکست دی تھی۔
جب ڈرامے کی شوٹنگ کا وقت آیا تو میں اس وقت روزنامہ پاکستان میں کام کر رہا تھا کیونکہ میری پی ٹی وی کی ملازمت تو کئی سال قبل ہی جا چکی تھی۔ میں نے اپنے چیف ایڈیٹر اور مالک اکبر علی بھٹی سے بات کی کہ میجر عزیز بھٹی پہ اس طرح ایک ڈرامہ بن رہا ہے اور اس میں اتنا عرصہ لگ سکتا ہے لہٰذا مجھے چھٹی چاہیے بے شک تنخواہ کے بغیر، لیکن انھوں نے زیادہ سنجیدہ نہ لیا۔
کہنے لگے کہ نوجوان تم اتنی اہم پوزیشن پر ہو چھٹی نہیں مل سکتی۔ ڈرامہ کرو یا پھر نوکری یہ کہہ کر انھوں نے انکار کردیا جس کے بعد میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا اس لیے میں نوکری سے استعفیٰ دے کر شوٹنگ پہ آگیا۔
اس ڈرامے کا سکرپٹ مشہور لکھاری اصغر ندیم سید نے لکھا اور انھوں کمال خوبصورتی اورعرق ریزی سے چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی ڈرامائی شکل دے کرکے لکھا۔ جب کہ اس ڈرامے کے ہدایت کار سلیم طاہر تھے وہ بھی ایک منجھے ہوئے پروفیشنل تھے۔
ناصر شیرازی کے بقول اس سکرپٹ کی ایک اور خوبی یہ بھی تھی کہ اس میں صرف ڈائیلاگ ہی نہیں بلکہ ایسے جملے بھی ہیں جو میجر عزیز بھٹی نے اپنی زندگی میں کسی نہ کسی موقع پرادا کیے تھے۔
ایک سویلین کے لیے ایک فوجی افسر کے کردار کو نبھانے میں درپیش چیلینجز کے بارے میں بات کرتے ہوئے ناصر شیرازی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک مشکل کام تھا جس کے لیے بہت محنت کی گئی۔ میجر عزیز بھٹی کے متعلق کئی کتابیں اور رسائل پڑھے۔
’جب ٹریننگ کے لیے مجھے میجر عزیز بھٹی کی انفنٹری بٹالین میں بھیجا گیا تو متعلقہ فوجی افسران نے مجھے بڑے پیار سے پڑھایا، لکھایا اور ٹریننگ دی اور فوجی افسران کے رہنے کے طور طریقے سکھائے۔ جسمانی طور پر کام کافی مشکل تھا، آٹھ آٹھ گھنٹے کھڑے ہیں تو کھڑے ہیں، چل رہے ہیں تو چل رہے ہیں، گھٹنے واقعی سوجھ جایا کرتے تھے یہ سب کرتے۔‘
’میجر عزیز بھٹی کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ان کے سینئر اور جونیئر نے بہت مدد کی۔ بطور بھائی اور باپ سمجھنے کے لیے ان کے خاندان کے لوگوں سے مدد ملی۔ اس کے علاوہ ٹرینگ کے دوران میں نے تقریبا 200 افراد کے انٹرویو بھی کیے یہ سمجھنے کے لیے کہ میجر بھٹی کی شخصیت کیسی تھی۔‘
‘ہمارے خاندان اورمیجر عزیز بھٹی کے خاندان کے تعلقات دہائیوں پہ محیط تھے اور دونوں خاندانوں کا آپس میں کافی آجانا تھا۔ میرے چچا میجر احسان الرحمٰن جو کہ میجر عزیز بھٹی کے ساتھ ہی فوج میں بھرتی ہوئے تھے اور انھوں نے ایک ساتھ کئی کورسز بھی کیے تھے اس لیے اس کردار کو سمجھنے کے لیے ان سے بھی کافی مدد ملی’۔
ناصر شیرازی کے مطابق، سب سے مشکل مراحل میں سے ایک کمپنی کمانڈر کے حالت امن اور حالت جنگ میں کردار کو سمجھنا اور پھر جنگ کی جذیات کو سمھجنا تھا اور اس کے لیے انھوں نے بہت محنت کی تھی۔
ٹریننگ کے دوران پیش آئے دلچسپ لمحات کو یاد کرتے ہوئے ناصر شیرازی بتاتے ہیں کہ میجر عزیز بھٹی کی جس بٹالین کے ساتھ انھیں اٹیچ کیا گیا تو ٹرینگ کے مرحلے پہ کمانڈنگ افسر کرنل محسن کمال تھے جو بعد میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے اور سیکنڈ ان کمانڈ میجر ربانی تھے۔
’ایک دن ہنستے ہوئے کرنل کمال کہنے لگے کہ ربانی ! یار یہ شیرازی کا ڈسپلن ٹھیک کرو۔ پھر مسکرا کر خود ہی کہنے لگے ‘ اگر اسے پتہ ہونا کہ سال میں اس کی دو اے سی آرز میں نے لکھنی ہیں تو یہ خود بخود ہی ٹھیک ہوجائے گا۔‘
اسی طرح کے ایک اور دلچسپ واقع کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ‘جب ہم لاہور میں بارڈر کے قریب لوکیشن دیکھنے گئے تو ایک کمانڈنگ افسر اور ایک میجر تھے وہ ان کے ساتھ کھیتوں میں چل رہے تھے۔ بارشیں بہت زیادہ ہوئیں تھیں اور ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ ہم ایک پگ ڈنڈی پہ چل رہے تھے جس کی چوڑائی بمشکل ایک اینٹ جتنی ہوگی لیکن وہ دونوں فوجی افسران ایسے چل رہے تھے جیسے کسی شاہراہ پہ چل رہے ہوں۔ میں ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا تو میں اچانک نیچے پانی میں گرگیا، کمانڈنگ افسر کہنے لگے کم آن کم آن ینگ مین، کوئی بات نہیں اٹھو اور چلتے جاؤ۔ میں تھوڑا آگے گیا تو پھر پانی میں گرگیا اس طرح کے کئی دلچسپ واقعات شوٹنگ اور ٹرینگ کے دوران پیش آئے۔‘
ڈرامے کی پروڈکشن کے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اپنی نوعیت کا شاید یہ منفرد ڈرامہ بھی ہے جس میں کوئی مصنوعی سیٹ نہیں لگایا گیا بلکہ یہ تمام ان جگہوں پہ فلمایا گیا جہاں حقیقت میں وہ واقعات رونما ہوئے ہیں۔
اس ڈرامے کی شوٹنگ چار مختلف شہروں میں کی گئی۔ ہم نے شروع پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے کیا جہاں پاسنگ آؤٹ پریڈ دکھائی گئی اور پاسنگ آؤٹ ڈنر کے مناظر میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے بھی شرکت کی تھی اس کے علاوہ انفنٹری کالج کوئٹہ، میجر عزیز بھٹی کے آبائی گھر کے مناظر کے لیے گجرات میں واقع ان کے گاؤں لادیاں بھی گئے جہاں میجر صاحب کا مزار بھی ہے اور آخر میں جنگ کے مناظر لاہور میں واقع بی آر بی نہر پہ فلمائے گئے۔
لاہور میں جس ملٹری اکاموڈیشن میں میجر عزیز بھٹی رہتے تھے وہ بھی ان دنوں خالی تھی ہم نے وہاں اس گھر کے کچھ مناظر بھی ریکارڈ کیے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ اس تاریخی ڈرامہ کی ایک خاص یہ بھی تھی کہ شوٹنگ کے دوران اس بات کا بھی خاص خیال رکھا گیا کہ جو اسلحہ 65ء کی جنگ میں استعمال ہوا تھا وہی اسٹور سے نکال کر استعمال کیا گیا۔ اس وقت کے ٹینک، گولے اور وہی ایم پی 5بندوقیں استعمال کی گئیں۔
ڈرامہ کے مختلف کرداروں کے متعلق بات کرتے ہوئے ناصر شیرازی نے بتایا کہ اس ڈرامے میں کچھ کرداروں کے لیے تو لوگ فنکار برادری سے لیے گئے لیکن اس ڈرامے میں جو بندہ بھی وردی میں نظر آتا ہے وہ سب اس وقت کے حاضر سروس فوجی افسران اور جوان تھے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ’لاہور میں بی آر بی نہر کے کنار ے پر جب جنگ کے مناظر فلمانے کا وقت آیا تو انڈیا کو باقاعدہ طور پر آگاہ کیا گیا کہ ہم بارڈر کے ساتھ ڈرامہ کی شوٹنگ کرنے لگے ہیں تاکہ 40, 50 ٹینکوں کی موومنٹ اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے کہیں بارڈر کہ کوئی ہلچل ہی نہ ہو جائے۔‘
’اس ڈرامے کے لیے جب میرا انتخاب ہوگیا تو پھر مجھے بہت سے اور ڈراموں کے لیے پیشکش بھی آئیں لیکن میں کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر انکار کردیتا۔‘
’مجھے کہا بھی یہی گیا تھا کہ جب تک یہ ڈرامہ مکمل نہ ہوجائے آپ نے کوئی اور ڈرامہ نہیں کرنا کیونکہ ہم چاہتے ہیں ایک بالکل نیا چہرہ میجر عزیز بھٹی کے کردار میں سامنے آئے۔ متعلقہ افسران کا خیال تھا جو کہ بعد میں سچ ثابت بھی ہوا کہ اگر میں نے اور ڈراموں میں حصہ لے لیا تو پھر باقی اداکاروں میں اور ان میں کیا فرق رہ جائے گا کیونکہ ایسے تو میری خود کی بھی ایک الگ پہچان بن جائے گی۔ ‘
’اس کردار کے لیے میں نے بھاری قیمت چکائی ہے۔ میں نے 1984 سے 1995 تک کم از کم 100 کے قریب مختلف ڈراموں کی پیشکشیں ٹھکرائیں۔ ڈرامہ آن ایئر ہو جانے کے بعد میں نے دوسرے ڈراموں میں بھی کام کیا اور اب تک 70 کے قریب مختلف ڈراموں میں کام کر چکا ہوں۔‘
اس کردار کو نبھانے کے لیے کتنے پیسے وصول کیے، اس سوال پہ ناصر شیرازی کہنے لگے کہ وہ (پیسے) میرے لیے اہم نہیں تھے میں صرف اس مقصد کو دیکھ رہا تھا جسے مدنظر رکھ کر وہ ڈرامہ بنایا جارہا تھا۔
’سچی بات ہے پیسوں کے بارے میں نہ کبھی میں نے سوچا اور نہ ہی انھوں نے جو اس ڈرامے کو بنا رہے تھے۔ اس ڈرامے کو بنانے کا مقصد اتنا بڑا تھا کہ مجھے اگر کروڑوں روپے بھی دے دیے جاتے تو ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی میری نظر میں۔ مجھے آج بھی یہ محسوس ہوتا ہے اس کردار سے اﷲ نے لوگوں کی نظروں میں جو عزت اور احترام دیا ہے پیسوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔‘
کتنے عرصے میں ڈرامہ مکمل ہوا، اس سوال پہ زور کا قہقہ لگاتے ہوئے کہنے لگے ،’دیکھیں جی میرے تو دس سال لگ گئے اس لیے میں تو اسے دس سال ہی کہوں گا۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میجر عزیز بھٹی شہید چونکہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ماموں تھے اور اس ڈرامے میں میں نے چونکہ میجر عزیز بھٹی کا کردار نبھایا ہے تو اس لحاظ سے میں ان کا ماموں ہوں (یہ کہتے ہوئے وہ خود بھی مسکرانے لگے)۔
ڈرامہ پی ٹی وی کی سکرین پہ چلنے کے بعد رد عمل کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ ردعمل اتنا زبردست تھا کہ لوگ مجھے آج بھی میجر عزیز بھٹی کے نام سے ہی جانتے ہیں۔
’سکرین پہ آکر لوگوں کو مختلف ناموں اور مختلف کرداروں کے ناموں سے جانا جاتا ہے اور یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ مجھے لوگ میجر عزیز بھٹی کے نام سے جانتے ہیں جبکہ میرا اپنا نام کسی کو یاد بھی نہیں۔ میجر عزیز بھٹی کانام میری پہچان بن چکا ہے اور مجھے اس پر فخر ہے۔‘
’جب باہر نکلتا ہوں تو فوجی ٹرک میں بیٹھے بچے بھی کہہ رہے ہوتے ہیں میجر عزیز بھٹی جارہے ہیں، ٹریفک اشارے پہ رکتا ہوں تو ساتھ والی گاڑیوں کے شیشے نیچے ہوجاتے ہیں کہ دیکھو میجر عزیز بھٹی‘، لوگوں کی نظروں میں یہ پیار اور اور محبت الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ میں درجنوں نہیں بلکہ ایسے سینکڑوں لوگوں کو ملا ہوں جو کہتے ہیں کہ ہم نے میجر عزیز بھٹی شہید والے ڈرامہ سے متاثر ہوکر فوج جوائن کی تھی اور میں اس چیز کو بڑا اعزاز سمجھتا ہوں۔
ڈرامے کہ پروڈکشن میں ایک بڑا زبردست لمحہ ہے۔ ’وہ یہ ہے کہ شہادت کا سین ریکارڈ ہونا ہے۔ دشمن کے ٹینک کی بیرل دکھاتے ہیں اس میں سے شیل نکلتا ہے اور مجھے آکر لگتا ہے اور میں نیچے زمین پہ گرتا ہوں اور شہید ہو جاتا ہوں۔ اب میں نے اس منظر میں اداکاری سے دکھانا تھا کہ میں شہید ہوچکا ہوں جس کے بعد ایک چھوٹی ٹرالی آتی ہے اور مجھے اس میں ڈال کر لیجایا جارہا ہوتا ہے جبکہ بیک گراؤنڈ میں ‘اے راہ حق کے شہیدو’ نغمہ چل رہا ہوتا ہے۔ ڈائریکٹر نے کٹ بھی بول دیا لیکن میں نے آنکھیں نہیں کھولیں اور میں اس نغمے کے سحر میں اس قدر مبتلا ہو گیا کہ میں نے ایسا محسوس کیا جیسے میں حقیقت میں شہید ہوچکا ہوں۔‘
ڈرامہ بنے کم و بیش 25 سال گذر جانے کے بعد بھی اس سین کو فلمائے جانے کے وقت ان کے جذبات کی ترجمانی ان کی نم آنکھیں اس روز بھی کر رہی تھیں۔
جب ڈرامہ مکمل ہوگیا تو ٹیلی کاسٹ کرنے سے پہلے پی ٹی وی میں اس کا پر ری ویو رکھا گیا جس میں اعلیٰ فوجی افسران، پی ٹی وی کے اہم عہدیدار اور میجر صاحب کی بیگم جنھیں ہم احترام میں باجی ذرینہ کہتے تھے ان سمیت خاندان کے دیگر لوگ بھی جمع تھے کیونکہ ان سے اس روز منظوری لینا تھی۔ ’فنکار برادری سے مجھے بھی بلایا گیا تھا۔جب شہادت کا منظر ختم ہوا تو وہ زار و قطار رو رہیں تھیں اور آخری فقرہ جو انھوں نے کہا وہ یہ تھا،’ناصر شیرازی نے جو کردیا ہے اس سے بہتر ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ میجر صاحب شہید یہی کچھ تھے جو آپ نے دکھا دیا۔‘
ان کے چھوٹے بیٹے جاوید اقبال بھی مجھ سے کہنے لگے کہ جب میجر صاحب شہید ہوئے تو وہ محض چھ ماہ کے تھے اس ڈرامہ کو دیکھ کر انھیں پتہ چلا کہ میجر صاحب کیسے زبردست باپ اور کس قدر فرض شناص فوجی افسر تھے اور ’یہ ناصر شیرازی آپ کا ہی کمال ہے کہ آپ نے اس ڈرامے کے ذریعے مجھے میرے باپ سے روشناس کروایا۔‘