موٹروے کے قریب خاتون کا مبینہ ریپ: سوشل میڈیا پر متاثرہ خاتون کی شناخت ظاہر نہ کرنے کی اپیل
پاکستان میں صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے علاقے گجر پورہ میں موٹروے کے قریب خاتون کے ساتھ مبینہ ریپ اور ڈکیتی کے واقعے کے بعد اس سے منسلک کئی ضمنی مباحث اور سوالات جنم لے رہے ہیں۔
ایک طرف لوگ غم و غصے کے اظہار کے ساتھ واقعے میں ملوث افراد کی گرفتاری اور انھیں سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب لاہور پولیس کے ایک اعلی افسر کے اس سلسلے میں دیے گئے بیانات پر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
لیکن اب لوگوں میں ایک تشویش یہ بھی پیدا ہو رہی ہے کہ متاثرہ خاتون اور بچوں کے نام اور دیگر نجی معلومات ناصرف ٹیلیویژن چینلز بلکہ سوشل میڈیا پر بھی دھڑا دھڑ شیئر کی جا رہی ہے اس بات سے قطع نظر کہ ایسا کرنا نہ صرف متاثرہ خاتون، ان کے بچوں اور اہلخانہ کے لیے نقصان دہ ہو گا بلکہ یہ عمل غیر قانونی ہے۔
یاد رہے کہ ریپ کا نشانہ بننے والے افراد کی شناخت اور معلومات کو لیک کرنا قابلِ تعزیر جرم ہے۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
احتساب اور داخلی امور سے متعلق وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ اس کیس کو حل کرنے کے لیے پولیس تیزی سے کام کر رہی ہے۔
’لیکن پولیس اور میڈیا سے گزارش ہے کہ متاثرہ خاتون کی شناخت کو ہر حال میں محفوظ رکھا جائے۔ ہمیں یہ معاشرہ سب سے کے لیے محفوظ اور رہنے لائق بنانا ہو گا۔‘
انسانی حقوق کے کارکن سلمان صوفی نے اس حوالے سے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’موٹروے واقعہ حیرت انگیز اور پریشان کُن ہے۔ یہ تشویشناک ہے کہ اتنی سکیورٹی والا علاقہ بھی خواتین کے لیے غیر محفوظ ہے۔‘
’مجرموں کو جلد گرفتار کر کے ان کے خلاف فوراً کارروائی شروع کی جائے۔ اور میڈیا پر خاتون کی شناخت ظاہر نہیں کی جانی چاہیے۔‘
صحافی مونا خان کہتی ہیں کہ ’سوشل میڈیا صارفین اور میڈیا سے گزارش ہے کہ ریپ سے متاثرہ خاتون کا پتا بھی چلے تو برائے مہربانی اپنی ریٹنگ کے لیے اُن سے متعلق کوئی معلومات پبلک نہ کریں۔‘
صحافی جویریہ صدیقی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’متاثرہ خاتون کا نام، پتہ (اور) گاڑی کا نمبر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ مت کریں اور ایف آئی آر شیئر کرتے وقت نام پتا چھپا دیں۔‘
ایڈووکیٹ بختیار بلوچ لکھتے ہیں کہ مبینہ ریپ کے واقعات کے بعد متاثرہ افراد کی تصاویر یا نام ظاہر کرنے پر لوگوں کو قانونی کارروائی کی صورت میں سزا ہو سکتی ہے۔
قاضی قیوم نے لکھا کہ ’اس بدقسمت خاتون کی آزمائش تو اب شروع ہو گی۔‘
صارفین کو ایسے واقعات پر رائے کا اظہار کرتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟
سوشل میڈیا پر ریپ یا جنسی جرائم کا نشانہ بننے والے افراد کا نام، پتہ، فون نمبر، گاڑی کا نمبر اور ایسے دیگر پہلوؤں کو ظاہر کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے جن سے اُن کی شناخت ممکن ہو سکے۔
بعض ایسے بھی کیسز سامنے آئے ہیں جب لوگوں کی جانب سے متاثرین کی تصاویر شیئر کی جاتی ہیں۔۔
اسی طرح پولیس کی ایف آئی آر میں متاثرہ افراد کے نام اور ذاتی معلومات درج ہوتی ہیں۔ ان ایف آئی آرز کو شیئر کرنے سے پہلے صارفین متاثرہ افراد کی ذاتی نوعیت کی معلومات کو حذف کر سکتے ہیں۔
سمارٹ فونز میں تمام صارفین کے پاس یہ آپشن ہوتی ہے کہ وہ ایف آئی آر کی تصویر میں سے متاثرہ افراد کا نام، پتہ، فون نمبر اور دیگر داتی معلومات کو باآسانی حذف کر سکتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ایپ سٹورز پر کئی ایپس بھی دستیاب ہوتی ہیں۔
عورت مارچ کے ٹوئٹر ہینڈل سے کی جانے والی ایک ٹویٹ میں آرٹیکل 376 کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جنسی جرائم کے متاثرہ افراد کی شناخت شائع کرنا قابلِ تعزیز جرم ہے جس کے تحت زیادہ سے زیادہ تین سال تک قید کی سزا اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔