لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے موٹروے کے قریب ایک خاتون کے ریپ کے حوالے سے دائر ہونے والی ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو آج دوپہر ایک بجے طلب کر لیا ہے اور پوچھا ہے کہ یہ کیسی انکوائری ہے جس میں محکمے کا سربراہ مظلوم کو غلط کہنے پر تُل گیا ہے۔
پیر کو عدالت مقامی وکیل ندیم سرور کی درخواست پر کارروائی کر رہی تھی جس میں واقعے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب پیش آنے والے ایک واقعے کے دوران دو افراد نے مبینہ طور پر مدد کے انتظار میں سڑک کنارے کھڑی گاڑی میں سوار خاتون کو پکڑ کر قریبی کھیتوں میں اُن کے بچوں کے سامنے ریپ کیا تھا۔
بی بی سی کی ترہب اصغر کے مطابق سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ سی سی پی او کے بیان پر پوری صوبائی کابینہ کو معافی مانگنی چاہیے تھی، جس سے قوم کی بچیوں کو کچھ حوصلہ ہوتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر اسی ذہن کے ساتھ تفتیش ہو رہی ہے تو پتا نہیں کتنی حقیقت ہے اور کتنی ڈرامہ بازی ہے۔
پیر کو سماعت کے دوران جب سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے کی تفتیش کے لیے وزیر قانون کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے تو عدالت نے پوچھا کہ وزارت قانون کا اس معاملے سے کیا لینا دینا ہے اور سی سی پی او کو ہدایات جاری کیں کہ وہ تحقیقات کی رپورٹ سمیت دوپہر ایک بجے عدالت آ جائیں۔
واضح رہے کہ سی سی پی او لاہور نے گذشتہ ہفتے موٹروے پر پیش آنے والے ریپ کے واقعے کے بعد متعدد ٹی وی چینلز پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ: ’تین بچوں کی ماں اکیلی رات گئے اپنے گھر سے اپنی گاڑی میں نکلے تو اسے سیدھا راستہ لینا چاہیے ناں؟ اور یہ بھی چیک کرنا چاہیے کہ گاڑی میں پیٹرول پورا ہے بھی یا نہیں۔۔۔‘
ندیم سرور کی درخواست میں سی سی پی او کے بیان کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان کی جانب سے ایسا بیان نامناسب ہے اور اس سے ملزموں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
تحقیقات کہاں تک پہنچیں؟
پنجاب کے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس کیس میں نامزد دو میں سے ایک ملزم اب پولیس کی تحویل میں ہے اور اس سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
نامہ نگار ترہب اصغر کے مطابق پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم اپنے والدین اور اہلِ خانہ کے ہمراہ اتوار کی صبح لاہور کے ماڈل ٹاؤن تھانے میں پیش ہوا جہاں دیے گئے بیان میں اس نے کہا ہے کہ اس کا ریپ کے اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔
ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ملزم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ وہ ماضی میں مرکزی ملزم کے ساتھ وارداتوں میں ملوث رہا ہے تاہم اس ریپ کے واقعے سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ موبائل نمبر جس کا ذکر پولیس حکام نے کیا اس کے زیر استعمال ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق ملزم کا ڈی این اے حاصل کر کے اسے تجزیے کے لیے بھیج دیا گیا ہے اور نتیجہ آنے کے بعد ہی اس بارے میں مزید تفصیلات سامنے آئیں گی۔
گذشتہ روز صوبے کے وزیراعلیٰ کی سربراہی میں اعلیٰ حکام کی پریس کانفرنس میں پولیس کی تحویل میں موجود ملزم کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ دو ہفتے قبل ہی ضمانت پر رہا ہوئا تھا اور غالب امکان ہے کہ وہ وقوعے کے وقت مرکزی ملزم کے ساتھ موجود تھے۔