کورونا وائرس کی وبا کے باعث پاکستان بھر میں تعلیمی سرگرمیاں کئی مہینوں تک بند رہی ہیں۔ حکومتی دعوؤں کے مطابق چونکہ اب پاکستان میں وبا کے پھیلاؤ پر بڑی حد تک قابو پانے کے بعد حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں اس لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ 15 ستمبر سے ملک بھر میں تعلیمی سرگرمیاں بھال کر دی جائیں گی۔
تاہم یہ کام مرحلہ وار کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں نویں، دسویں اور انٹرمیڈیٹ تک کے سکول و کالجوں کو کھولا جائے گا۔ اس کے ایک ہفتے بعد 23 ستمبر کو چھٹی سے آٹھویں جماعت کے طلبا کو سکول آنے کی اجازت ہو گی۔ جبکہ تیسرے مرحلے میں تمام پرائمری سکول کے بچے 30 ستمبر سے سکول جائیں گے۔
حکومت نے سکولوں کو کھولنے اور بچوں کو کورونا سے بچانے کے لیے احتیاطی تدابیر کے ضابطہ کار یعنی ایس او پیز بھی جاری کیے ہیں جن کا اطلاق ملک بھر کے ہر سرکاری اور نجی سکول و کالج پر ہو گا اور وہ ان احتیاطی ہدایات پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہوں گے۔
تعلیمی اداروں کے لیے حکومتی ایس او پیز کیا ہیں؟
حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کو کھولنے اور ملک میں تعلیمی سلسلے کو بھال کرنے کے لیے درج ذیل ایس او پیز جاری کیے گئے ہیں۔
- ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا گیا ہے لیکن ماسک بچوں کو سکول سے نہیں ملے گا بلکہ والدین کو گھر سے پہنا کر بھیجنا ہو گا۔
- ایک کلاس روم میں بچوں کی آدھی تعداد کو بٹھایا جائے گا۔ تو اگر ایک کلاس میں 40 بچے پڑھتے ہیں تو ایک دن 20 بچے آئیں گے اور اگلے دن باقی 20 بچوں کو بلایا جائے گا۔
- وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سماجی دوری اپنائی جائے گی۔
- سکول میں بچوں کو ہاتھ دھونے کی ترغیب دی جائے گی اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اس کی پابندی کی ذمہ دار ہو گی۔ اس کے علاوہ سکولوں میں ہاتھ دھونے کی سہولت کو بڑھایا جائے اور سینیٹائزر بھی مہیا کیے جائیں گے۔
- اگر کسی بھی بچے یا سکول کے اہلکار کو کھانسی یا بیماری کی علامات ظاہر ہوں تو سکول کی ذمہ داری ہوگی کہ فوری طور پر انھیں سب سے الگ کیا جائے اور کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر فوری طور پر محکمہ صحت کو اطلاع دی جائے گی۔
- اگر کسی بچے میں کھانسی یا بیماری کی علامات ہوں تو والدین اسے سکول مت بھیجیں۔
- سکول کھلنے سے چند دن پہلے انتظامیہ سکول میں جراثیم کش سپرے کروانے کی پابند ہو گی۔
- سکول میں داخل ہونے سے قبل ہر شخص کا درجہ حرارت چیک کیا جائے گا۔
- سکول میں کہیں بھی بھیڑ یا زیادہ افراد کو اکھٹا نہیں ہونے دیا جائے گا۔
- تمام سکولوں کی کنٹینوں کو بند رکھا جائے گا اور بچے اپنے گھروں سے ہی کھانے پینے کی اشیا لائیں گے جو وہ کلاس روم میں بیٹھ کر ہی کھائیں گے۔
- روزانہ صبح سکول میں ہونے والی اسمبلی پر پابندی ہو گی۔
- سکولوں کی انتظامیہ پابند ہو گی کہ وہ اپنے سکول کے اساتذہ کو تربیت دیں کہ انھوں نے ان تمام ایس او پیز کی پابندی کس طرح کروانی ہے۔
یہ دیکھنے کے لیے کہ حکومت کے جاری کردہ ایس او پیز پر سکول اور دیگر تعلیمی ادارے عملدرآمد کروانے کے لیے کتنے تیار ہیں، بی بی سی نے لاہور کے چند سرکاری اور نجی سکولوں کا دورہ کیا جو اپنے وسائل کے مطابق ان ایس او پیز کے تحت دوبارہ کھلنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
سرکاری سکول کا حال
سب سے پہلے لاہور کے ایک بڑے اور اہم علاقے کے سرکاری سکول میں جانے کا اتفاق ہوا۔ جیسے ہی ہم سکول کے دروازے سے اندر داخل ہوئے تو سامنے ہی ایک چار پائی پر کچھ خواتین بیٹھی ایک دوسرے کے سر میں تیل لگا کر جوئیں نکال رہی تھیں اور چند بچے ان کے ارد گرد کھیل رہے تھے۔
آگے بڑھی تو کشادہ گراونڈ میں پودے لگے ہوئے تھے۔ وہیں اس سکول کے کچھ سرکاری اساتذہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان سے بات چیت کے دوران سکول کے دوبارہ کھلنے کے حوالے سے پوچھا تو ان سب نے خوشی کا اظہار کیا۔
ایک استاد نے کہا: ’اچھا ہے کہ سکول کھل رہے ہیں کیونکہ ہمارے بچوں کا بہت زیادہ حرج ہوا ہے۔ ہمیں تو بچوں کو واپس پٹری پر لانے میں ہی ایک ماہ لگ جائے گا کیونکہ جو ہم نے پڑھایا تھا وہ تو سب بھول چکے ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا ’سرکاری سکول کے تمام بچوں کے پاس سمارٹ فون یا گھروں میں ٹی وی تھوڑی ہوتے ہیں کہ ہم انھیں آن لائن کلاس دے دیتے یا وہ ٹیلی سکول سے کچھ سیکھ لیتے۔‘
جب ہم نے ایس او پیز کا ذکر کیا کہ آپ لوگ اس حوالے سے کیا اقدامات کر رہے ہیں تو وہاں موجود تمام عملہ اور ٹیچرز نے اپنی مشکلات کا اظہار کرتے ہوئے کئی شکوے کیے۔
سکول انتظامیہ کے ایک اہلکار کا کہنا تھا انھوں نے سکول کی صفائی کروا لی ہے اور کلاس روم میں سماجی فاصلہ قائم کرنے کے لیے کرسیوں اور میزوں کو بھی دور دور کر دیا گیا ہے۔ ’ہمارا عملہ ہر چیز کے لیے تیار ہے لیکن خرچے والے کاموں کے لیے حکومت کو ہمارے مدد کرنی چاہیے۔‘
انھوں نے بتایا انھیں کہا گیا ہے کہ ماسک، سینیٹائزر اور بخار چیک کرنے والی گنز سکول کے فنڈز سے ہی خریدی جائیں۔ ’صورت حال تو یہ ہے کہ ہم فنڈز کی کمی کے باعث گذشتہ دو ماہ سے سکول کے بجلی کے اور دیگر بلز تک ادا نہیں کر پائے، تو ہم یہ سب چیزیں کیسے اور کہاں سے خرید لیں؟ ہمارے سکول کے پاس تو فنڈز ہی نہیں ہیں۔‘
ایک ٹیچر کے مطابق حکومت اگر انھیں فنڈز نہ بھی دے لیکن کم از کم ایس او پیز پر عمل کرنے کے لیے تمام سامان ہی مہیا کر دے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ایس او پیز کے مطابق ہر بچے کو گھر سے ماسک پہن کر آنا ہوگا ’جبکہ ہمارے سکول میں 70 فیصد ایسے بچے پڑھتے ہیں جن کی فیس ہم نے معاف کی ہوئی ہے اور سکول ہی انھیں کتابیں اور یونیفارم دیتا ہے۔ وہ کس طرح روزانہ بیس روپے کا ماسک خریدیں گے؟‘
ایک ٹیچر نے اپنے خوف کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں نویں اور دسویں جماعت کے طلب علموں کو پڑھتا ہوں اور میرے کلاس کے بیشتر بچے کورونا کی وبا کے دوران اپنے گھر کا نظام چلانے کے لیے اپنے والدین کے ہمراہ محنت مزدوری کرتے رہے ہیں۔ اس لیے مجھے تو ڈر ہے کہ وہ اب سکول واپس آئیں گے بھی یا نہیں۔‘
ان تمام مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے پنجاب گورنمنٹ سکولز ایسوسی ایشن آف کمپیوٹر ٹیچرز کے صدر کاشف شہزاد کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایس او پیز جاری تو کر دیے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ان پر عمل نہ ہوا تو اس سکول کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ’ہمیں یہ بتائیں کہ جب ہمارے پاس وسائل ہی نہیں ہوں گے تو ہم کہاں سے یہ سب پورا کریں؟‘
ان کے مطابق پنجاب سمیت ملک بھر کے بیشتر چھوٹے شہروں اور دیہات میں قائم سکولوں میں واش روم تک کی سہولت میسر نہیں اور اگر کہیں ہے بھی تو برے حالوں میں ہیں۔
’ان حالات میں بچے ہاتھ کہاں دھوئیں گے؟ ہم ہر کلاس میں سینٹائزر بھی خرید کر نہیں رکھ سکتے۔ یہی نہیں بلکہ کئی ایسے سکول ہیں جہاں پینے کا صاف پانی بھی دستیاب نہیں، اس لیے میرے خیال میں وسائل کے بغیر ان ایس او پیز پر عمل درآمد کرنا بہت مشکل ہے۔‘
نجی سکولوں میں حالات
سرکاری سکولوں کی طرح ملک بھر میں بہت سے نجی سکول بھی وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔
ملک بھر میں ایسے پرائیوٹ سکولوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو کسی چھوٹے سے گھر یا چھوٹی جگہ پر کھلیں ہیں اور جگہ کی کمی کی وجہ سے وہاں سماجی دوری اختیار کرنا، اور سب بچوں کے لیے واش روم اور ہاتھ دھونے کی سہولت مہیا کرنا بھی ممکن نہیں۔
ایسے ہی ایک نجی سکول کی پرنسپل نے بی بی سی کو بتایا: ’بڑے سکول بہت زیادہ فیس وصول کرتے ہیں، اس لیے وہ سہولیات بھی دے سکتے ہیں۔ آپ یہ مت بھولیں کہ وہ ان سہولیات کے لیے سکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین سے کتنے پیسے وصول کرتے ہیں۔‘
چھوٹے نجی سکولوں کے علاوہ ہم نے ایک نامور پرائیویٹ سکول کا بھی دورہ کیا اور ان کے انتظامات کا بھی جائزہ لیا۔ وسائل کے لحاظ سے اس سکول میں کسی چیز کی کمی نظر نہیں آئی۔
وہاں موجود ٹیچر سے جب میری گفتگو ہوئی تو وہ کہنے لگیں کہ ’یہ اچھا فیصلہ ہے کیونکہ بچے گھر میں آن لائن کلاسز لے کر تنگ پڑ چکے تھے اور موثر انداز میں پڑھائی بھی نہیں ہو پا رہی تھی۔‘
اس سکول کے پرنسپل اور ٹیچرز نے مجھے اپنے سکول میں کی جانے والی تیاریاں دیکھائیں جو سرکاری سکولوں سے قدرے مختلف ہیں۔
تمام کلاسوں میں جراثیم کش سپرے کیا جا رہا تھا اور جگہ، جگہ کورونا وائرس سے متعلق آگاہی بینر لگا رکھے ہیں۔ مختلف مقامات پر ہاتھ دھونے کا طریقہ کار، کھانسی اور چھینکنے کی صورت میں منھ کو ڈھانپنے کے صیح طریقہ کار کے پوسٹرز بھی آویزاں ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسا کمرہ بھی تیار کیا گیا ہے جہاں بچے کی طبیعت خراب ہونے کی صورت میں اسے باقی بچوں سے الگ کیا جا سکتا ہے۔
ان بچوں کے لیے جو گھر سے ماسک پہن کر نہیں آئیں گے، سکول نے اضافی ماسک بھی رکھے ہیں۔
کلاس رومز میں سماجی دوری اپنانے کے لیے مکمل تیاری کے ساتھ ساتھ ساونڈ سسٹم بھی نصب کیے گئے ہیں تاکہ اگر کوئی پیغام بچوں تک پہنچانا ہے تو اسے باآسانی پہنچایا جا سکے۔ بخار چیک کرنے والی گن کے علاوہ ہر کلاس روم میں ہینڈ سینٹائزر بھی رکھے گئے ہیں۔