کیا ہم پنجرے میں بند مرغیاں ہیں؟
یہ تب کی بات ہے جب متحدہ پاکستان میں انگریزی دور کے جدوجہدی ورثے سے ملنے والے سیاسی شعور سے مالامال نسل جوان تھی اور اسے دنیا کا ہر بڑا مسئلہ اپنا مسئلہ لگتا تھا۔
مثلاً سن پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائی تک عام بات تھی کہ طلبا خود کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ریلیاں نکالتے تھے۔ تنخواہ اور بنیادی سہولتوں کے مطالبات کے حق میں مزدوروں کے جلسے ہوا کرتے تھے۔
صحافیوں کی قلم چھوڑ ہڑتالیں اور دھرنے بھی عجوبہ نہیں تھے۔ ون یونٹ کے خلاف جلسے جلوس بھی اکثر و بیشتر دیکھنے کو مل جاتے تھے۔
اسی پاکستان میں اگر ایک طرف اسلامی نظام کے نفاذ کے حق میں اجتماعات ہوتے تھے تو انڈیا میں ہندو مسلم فسادات کے خلاف بھی ڈھاکہ، لاہور اور کراچی کی سڑکوں پر ریلیاں نکلتی تھیں۔
فلسطینوں سے اظہار یکجہتی، الجزائر کی تحریکِ آزادی کی حمایت، ویتنام میں سامراجی مداخلت کی مذمت، غرض دنیا کا ایسا کون سا اہم معاملہ تھا جو سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے بن کر پاکستانی سڑکوں اور جلسہ گاہوں میں نظر نہیں آتا تھا۔
یحییٰ خان کے دور میں کہنے کو مارشل لا تھا مگر مغربی پاکستان ہو کہ مشرقی پاکستان، ہر مسئلے اور موضوع پر جلسہ جلوس ہوتا تھا۔
ہر طبقہ محض اپنے مسائل اپنی ناک سے آگے نہ دیکھنے کا عادی نہیں ہوا تھا بلکہ اپنے جیسے مسائل زدہ دیگر طبقات کے ساتھ بھی اظہارِ یکجہتی کا حصہ بنتا تھا۔
بھٹو دور میں اگرچہ سیاسی سرگرمیوں کو محدود رکھنے اور حزبِ اختلاف کو لگام دینے کے لیے ’65 کی جنگ کے دور سے عائد ایمرجنسی قوانین کے تحت ڈیفنس آف پاکستان رولز ( ڈی پی آر ) کا بے تحاشا استعمال ہوا مگر پھر بھی دیگر طبقات کے حق میں آواز اٹھانے کا چلن کسی حد تک باقی رہا۔
البتہ جب جنرل ضیا الحق کا مارشل لا نافذ ہوا تو ایک طرف جہاں سیاسی جماعتوں اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہوئی وہیں رفتہ رفتہ طلبا، مزدور اور کسان سیاست اور فنونِ لطیفہ کا قبلہ درست کرنے کے نام پر ان طبقات و سرگرمیوں کو یک رخا رکھنے یا مزاحمت کی صورت میں ان کا سانس بند کرنے کا منصوبہ بند کام شروع ہوا۔
1980 کی دہائی میں بحالیِ جمہوریت کی جو دو تحریکیں چلیں اس پیمانے پر بعد میں کبھی عوامی موبی لائزیشن نہیں ہو سکی۔
شاید لوگ تھکتے جا رہے تھے یا پھر قوانین کا شکنجہ مضبوط تر ہونے لگا تھا یا پھر غیر جماعتی سیاست کےمتعارف ہونے کے سبب منظم احتجاج کا روایتی سیاسی کلچر دم توڑنے لگا تھا یا پھر علاقائیت، لسانیت و فرقہ واریت کے انجکشنوں نے قومی سیاسی بصیرت کو یک رخا بنا دیا تھا۔
نتیجتاً ہر قومیت، فرقے، مسلک اور زبان بولنے والے کو اپنے اپنوں کے سوا اردگرد کے دیگر مسائل زدہ پاکستانی طبقات نظر آنے بند ہوتے چلے گئے۔
مثلاً اگر عورتیں اپنے حقوق میں جلوس نکال رہی ہیں تو اس میں اکادکا مرد نظر آئیں گے۔ اگر فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف شیعوں نے دھرنا دے رکھا ہے تو سنی لاتعلق دکھائی دیں گے۔
اگر بلوچ کوئی ریلی نکال رہے ہیں تو پنجابیوں کو اس سے کوئی سرو کار نہیں اور اگر دینی جماعتیں کسی مذہبی معاملے پر احتجاج کر رہی ہیں تو ان کا احتجاج عموماً دینی مسائل تک ہی محدود رہتا ہے۔
ریپ، مہنگائی، طلبا کے مسائل، جبری اغوا، ماحولیات یا گورننس جیسے معاملات سے ان کا بظاہر کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔
اجتماعی مسائل پر اظہارِ یکجہتی کی روایت کے خاتمے اور ہر طبقے کو محض اپنی ناک تک دیکھنے کی عادت نے سماج پر اجتماعی کنٹرول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ بے پناہ مضبوط کر دیے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بظاہر ہر طبقہ اپنے اپنے مسائل کے حل کے لیے پھڑ پھڑانے کی کوشش کرتا ہے مگر اجتماعی قوت کی روح رخصت ہونے اور ایک دوسرے سے بدگمان ہونے کے سبب ہر طبقہ اپنے مسائل حل کروانے کے لیے موثر سودے بازی کی طاقت سے محروم ہے۔
چنانچہ آج منظر یہ ہے کہ لاہور سیالکوٹ موٹر وے ریپ کیس پر بڑے شہروں میں صرف خواتین کے جلوس نکل رہے ہیں جیسے یہ صرف انھی کا مسئلہ ہو، فیسوں میں اضافے یا دیگر تعلیمی مسائل کے حل کے لیے طلبا کی اگر کوئی ریلی نکلتی بھی ہے تو بھاری بھاری فیسیں دینے والے والدین تک اس کا حصہ بننے کو تیار نہیں۔
کراچی میں بارشوں کے سبب آنے والے سیلاب نے حالانکہ ہر آبادی اور طبقے کو متاثر کیا مگر احتجاج صرف ڈیفنس اور کلفٹن والوں نے صرف ڈیفنس اور کلفٹن کے لیے کیا۔
باقی آبادیاں کمر کمر پانی میں سامان بچانے کے سبب احتجاج بھی نہ کر سکیں اور نہ ہی ان کے لیے کسی اور طبقے یا جماعت نے آواز اٹھانے کی زحمت کی۔
کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہم سب پنجرے میں بند وہ مرغیاں ہیں جن کو ایک ایک کر کے قصائی باہر نکالتا ہے اور باقی مرغیاں مزید کونے میں دب کر زرا سا چوں چاں کرتی ہوئی سوچتی ہیں کہ شکر ہے ہماری باری نہیں آئی۔
مگر پنجرہ شام تک خالی ہو جاتا ہے اور اگلی صبح پھر بھر جاتا ہے۔