کورونا وائرس کی دوسری لہر: اسرائیل میں تین ہفتے کا لاک ڈاؤن، فرانس میں یومیہ دس ہزار سے زیادہ متاثرین
اسرائیل میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے باعث بڑھتے متاثرین کے پیش نظر قومی سطح پر ایک مرتبہ پھر لاک ڈاؤن نافذ کیا جا رہا ہے۔ جبکہ فرانس میں یومیہ متاثرین کی تعداد دس ہزار سے بڑھ گئی ہے۔
یورپ سمیت دنیا کے متعدد ممالک کو کورونا وائرس کی دوسری لہر کا سامنا ہے۔ جبکہ انڈیا سمیت چند ممالک میں ابھی پہلی لہر ہی قابو میں نہیں آ رہی اور متاثرین اور ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے دوبارہ لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے اعلان کے بعد یہ دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جہاں دوبارہ قومی سطح پر لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا گیا ہے۔ ملک میں جمعے سے نافذ کیے جانے والا لاک ڈاؤن تین ہفتوں تک جاری رہے گا۔
اس دوران یہودی مذہب کی سال نو کی تقریبات بھی متاثر ہوں گی۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ ‘یقیناً اس اقدام کی ہم سب کو بھاری قیمت ادا کرنا ہو گی’ لیکن ملک میں یومیہ چار ہزار سے زائد متاثرین سامنے آنے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
جبکہ اس اقدام کے پیش نظر یہودیوں کی مذہبی تقریبات متاثر ہونے کے سبب ایک اسرائیلی وزیر نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے۔
اسرائیل کے وزیر ہاؤسنگ یاکو لزمین جو ایک انتہائی مذہبی اور قدامت پسند جماعت کے سربراہ ہیں کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات یہودیوں کو ان کی مذہبی تقریبات منانے سے روک دیں گے۔ اس موقع پر انھوں نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کرنے کی بھی دھمکی دی۔
واضح رہے کہ یہودی مذہب کے تحت ان کا سب سے مقدس مذہبی تہوار یوم کپر 27 ستمبر کو منایا جا رہا ہے۔
کیا نئی پابندیاں لگائی گئی ہیں؟
اسرائیل کی کل آبادی تقریباً 90 لاکھ ہے اور یہاں حالیہ ہفتوں کے دوران یومیہ تین ہزار سے زیادہ کورونا کے نئے متاثرین میں وائرس کی تصدیق کی گئی ہے۔
اتوار کو ایک ٹی وی پر کیے گئے خطاب میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاھو کا کہنا تھا کہ ملک میں کورونا متاثرین کی یومیہ تعداد چار ہزار تک بڑھ گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ لاک ڈاؤن میں عائد کی جانے والی پابندیاں اس لاک ڈاؤن کا ایک تسلسل ہیں جو وائرس کی پہلی لہر کے دوران مارچ کے آخر سے مئی کے اوائل تک ملک میں نافذ کیا گیا تھا۔
ان پابندیوں میں درج ذیل اہم نکات شامل ہیں:
- کسی بھی کمرے، ہال یا عمارت کے اندر دس سے زائد افراد ایک ساتھ نہیں مل سکیں گے، جبکہ 20 افراد کے گروہ کو کھلے مقامات پر ایک ساتھ ملنے کی اجازت ہو گی۔
- ملک بھر میں سکول اور شاپنگ سنٹرز بند رہے گے اور شہریوں کو اپنے گھروں تک محدود رکھنے کا کہنا گیا ہے، تاہم اس میں کام کاج یا دفاتر کے لیے سفر کرنے کی اجازت ہو گی۔ دیگر افراد اپنے گھر سے پانچ سو میٹر تک محدود رہیں گے۔
- غیر سرکاری اور نجی دفاتر اور کاروبار کھولے جا سکیں گے تاہم انھیں گاہکوں کو بلانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
- تاہم سپرمارکیٹیں اور میڈیکل سٹورز اور فارمیسز عوام کے لیے کھلی رہے گی۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے ملک میں دوبارہ لاک ڈاؤن کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ لاک ڈاؤن کے باعث یہودی آبادیاں اپنے مذہبی تہوار اپنے خاندانوں کے ساتھ نہیں منا سکے گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ اس طرح کی چھٹیاں نہیں ہیں جن کہ ہم عادی ہیں، اور یقیناً ہم اپنی مذہبی تقریبات اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ نہیں منا سکیں گے۔’
ان ڈور اجتماعات پر پابندیوں سے یقیناً یہودی عبادت خانوں میں دعائیہ تقریبات پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔
دوسری جانب اسرائیل کے وزیر ہاؤسنگ نے اس اقدام کے خلاف ردعمل دیتے ہوئے اپنے استعفے کے خط میں لکھا کہ ‘یہ غلط اقدام سینکڑوں شہریوں کے ساتھ مذاق ہے۔ آپ اب تک کہاں تھے؟ کیوں یہودیوں کے مذہبی تہوار کی چھٹیاں ہی آپ کو کورونا وائرس سے نمٹنے کا ایک آسان حل دکھائی دی ہیں؟’
جبکہ اسرائیل کے وزیر داخلہ جو ایک اور انتہائی مذہبی جماعت کے سربراہ ہیں نے ٹویٹر پر ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ وہ باقاعدہ طے شدہ پابندیوں کی حمایت کرتے ہیں اور ان پر عمل نہ کرنا قتل کے مترادف ہو گا۔
اسرائیلی وزیر اعظم کو ملک میں کورونا کی وبا سے نمٹنے پر تنقید کا سامنا ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک میں وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی ناکامی کے باعث دوبارہ لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔
فرانس کی تازہ ترین صورت حال
فرانس میں جہاں کورونا وائرس کی تازہ لہر کو روکنے کی کوشش کی جاری ہے، نئے کیسز میں ریکارڈ یومیہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
سنیچر کو صحت کے حکامِ نے کہا کہ ایک دن میں دس ہزار 561 افراد میں انفیکشن کی تصدیق ہوئی جو کہ جمعہ کے مقابلے میں ایک ہزار زیادہ ہے۔
نئے کیسز میں اضافے کے علاوہ ہسپتال میں داخلے کیے جانے والے مریضوں اور انتہائی نگہداشت میں رکھے جانے والی مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
کئی ڈاکٹروں نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ وائرس کی اس تازہ وبا سے بچنے کے لیے نجی اجتماعات سے پرہیز کریں۔
ایک ہفت روزہ میں شائع ہونے والے ایک کالم میں ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ’موسم گرما میں ایک دوسرے سے مل کر لطف اندوز ہونے کے بعد، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی نجی دنیا میں محتاط ہو جائیں۔‘
ڈاکٹروں کے مطابق ’کوئی کمرہ جتنا چھوٹا ہو گا، اور اس میں جتنے زیادہ لوگ جمع ہوں گے، اس میں ہوا کا گزر کم ہو جائے گا، اور یوں بیماری کا خطرہ بڑھ جائے گا۔‘
جون سے فرانس میں تمام عمر کے لوگوں میں انفیکشن کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، لیکن حکام کا کہنا ہے کہ نوجوانوں میں خاص طور پر زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
فرانس کے علاوہ یورپ کے کئی دیگر ملکوں میں بھی نئے مریضوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
جون میں جب پورے براعظم یورپ میں مارچ سے نافذ کیے گئے سحت لاک ڈاؤن میں نرمی ہونا شروع ہوئی، تب سے نئے کیسز میں آہستہ آہستہ اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا، اور پھر گذشتہ ایک ماہ میں یہ تعداد تیزی سے بڑھنا شروع ہو گئی۔
سنیچر 12 ستمبر کے اعداد وشمار کے مطابق 2432 نئے مریضوں کو ہسپتال بھیجا گیا، جو کہ جمعے کو داخل کیے جانے والے مریضوں سے 75 زیادہ تھی۔ ہسپتال بھیجے جانے والے کل افراد میں سے 75 کو انتہائی نگہداشت میں رکھا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ سنیچر کو کورونا وائرس سے 17 افراد ہلاک ہوئے۔ یاد رہے کہ کورونا کی عالمی وبا کے آغاز سے اب تک فرانس میں 30 ہزار سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔ یوں اموات کی تعداد کے لحاظ سے فرانس دنیا میں ساتواں بڑا ملک بن چکا ہے۔
فرانسیسی حکام نے ملک کے ایسے بارہ علاقوں کو انتہائی خطرناک یا “ریڈ زون’ قرار دے دیا ہے جہاں وائرس گردش میں ہے اور وہاں ماسک پہننے اور اجتماعات پر پابندی میں سختی کر دی گئی ہے۔ ان علاقوں میں پیرس اور لیون کے علاوہ بحیرہ روم کے تقریباً تمام ساحلی مقامات شامل ہیں۔
وزیر اعظم ژاں کیسپیکس کے بارے میں خدشہ تھا کہ شاید انہیں بھی وائرس لگ چکا ہے، تاہم ہی حال میں ان کا ٹیسٹ منفی نکلا ہے۔ انہوں نے ساحلی شہروں اور جزیرہ گاڈیلوپ کے حکام کو تجویز دی ہے کہ وہ پیر سے اپنے اپنے علاقوں میں ’نئے اضافی اقدامات’ کا نفاذ کریں۔
سائیکلوں کی دوڑ ’ٹؤر ڈی فرانس’ کے منتظمین نے ان مقامات پر شائقین کے جمع ہونے پر پابندی لگا دی ہے جہاں سے ریس کا آغاز ہوتا ہے اور جہاں یہ ختم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ریس کے راستے میں ان مقامات پر بھی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ہے جو ریڈ زون میں آتے ہیں۔
دیگر یورپی ممالک میں صورت حال کیا ہے؟
فرانس کے علاوہ کئی دیگر یورپی ممالک بھی وائرس کی نئی وبا پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اتوار کو چیک ریپبلک میں بھی مسلسل تیسرے روز نئے مریضوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا اور 1541 افراد میں انفیکشن کی تصدیق ہوئی۔ ہمسائیہ ممالک نے چیک ریپبلک سے آنے والے لوگوں پر سختی کرنا شروع کر دی ہے۔
سپین میں اگرچہ وزارت صحت نے کہا تھا کہ کورونا کے نئے کیسز کی تعداد میں استحکام آ رہا ہے، لیکن جمعرات کو وہاں بھی یومیہ ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا جب 1542 نئے مریضوں کی تصدیق ہوئی۔
سنیچر کو برطانیہ میں بھی 3497 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی۔ ملک میں لوگوں کے ایک مقام پر جمع ہونے پر مزید سختی کر دی گئی ہے اور اب پیر سے انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ میں زیادہ سے زیادہ چھ افراد کو جمع ہونے کی اجازت ہو گی، چاہے یہ اجتماع گھر کے اندر ہو یا باہر۔
ویکسین کی تیاری
ایسٹرا زینیکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے ذریعے بنائی جانے والی کووڈ 19 ویکسین کا ٹرائل دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل ایک برطانوی مریض میں اس کے سائڈ ایفکٹ یعنی ضمنی اثرات کو دیکھتے ہوئے اسے روک دیا گیا تھا۔
ایسٹرا زینیکا نے منگل کو کہا کہ اس مطالعے کو روکنے کے بعد اس بات پر تحقیقات کی گئی کہ آیا دیگر اثرات ویکسین کا نتیجہ تو نہیں تھے۔
لیکن ہفتے کے روز آکسفورڈ یونیورسٹی نے کہا کہ اسے جاری رکھنا محفوظ نظر آتا ہے۔ برطانوی وزیر صحت میٹ ہینکوک نے تجربات کے دوبارہ شروع ہونے کی خبروں کا خیرمقدم کیا ہے۔
انھوں نے کہا: ‘ٹرائل کو روکنے کے فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حفاظت ہمارے لیے کس قدر اہم ہے۔ ہم اپنے سائنسدانوں کی جلد سے جلد محفوظ ویکسین لانے کی حمایت کریں گے۔’
یونیورسٹی نے ایک بیان میں کہا کہ اس بات کا امکان موجود تھا کہ ‘اتنے بڑے ٹرائل میں حصہ لینے والے کچھ لوگوں کی صحت خراب ہوسکتی ہے۔’
یونیورسٹی نے یہ بھی کہا کہ آزاد سیفٹی ریویو کمیٹی اور برطانیہ کے ضابطہ کار میڈیسن اینڈ ہیلتھ کیئر پروڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی کی سفارشات کے بعد اب مطالعہ دوبارہ شروع کیا جاسکتا ہے۔
یونیورسٹی کے مطابق مریض کی صحت کے بارے میں معلومات رازداری کی وجوہات کی بنا پر فراہم نہیں کی جاسکتی ہیں۔ لیکن نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں جاری ٹرائل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس سے ایک رضاکار میں ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کرنے والے ایک سوزش سنڈروم ٹرانسورس مائیلائٹس کی اطلاع ہے جو کہ وائرل انفیکشن کا سبب ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ویکسین کے لگ بھگ 180 رضاکاروں پر ٹرائل جاری ہیں لیکن کسی نے بھی اب تک کلینیکل ٹرائلز مکمل نہیں کیے۔
اس ویکسین کا فیز ون اور فیز ٹو ٹرائل کامیابی کے ساتھ مکمل ہوچکا ہے اور اس سے بہت زیادہ توقعات ہیں کہ مارکیٹ میں آنے والی یہ اولین ویکسین میں سے ایک ہوسکتی ہے۔
حالیہ ہفتوں میں اس کی تیسرے مرحلے کی جانچ ہو رہی ہے جس میں امریکہ، برطانیہ، برازیل اور جنوبی افریقہ سے لگ بھگ 30 ہزار افراد شریک ہیں۔
ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل میں ہزاروں لوگ حصہ لیتے ہیں اور یہ برسوں تک چل سکتا ہے۔
حکومت کے چیف سائنسی مشیر سر پیٹرک ویلانس نے بدھ کے روز ڈاؤننگ سٹریٹ پر ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ آکسفورڈ کے ٹرائل میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوئی۔