Site icon DUNYA PAKISTAN

خواتین کو کیوں کام کی جگہوں پر عمر کی بنا پر تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟

Share

’جیسی ہی عورت کی عمر ڈھلنے لگتی ہے تو نہ صرف اسے کم جاذب نظر یا کم دلکش سمجھا جاتا ہے بلکہ کم باصلاحیت بھی تصور کیا جاتا ہے۔‘

یہ کہنا ہے 72 سالہ بونی مارکس کا جو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سینٹا باربرا میں بونی مارکس لیڈرشپ کی بانی ہیں۔

وہ خواتین کو کسی بھی عمر کے حصے میں اپنے کیریرز میں ترقی کرنے کے بارے میں کوچنگ کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کے مسائل پر مبنی ایک پوڈ کاسٹ کی ہوسٹ بھی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ عورت جب بوڑھی ہوتی ہے تو اسے عمر اور جنس پر مبنی تعصب کی دو دھاری تلوار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بڑھتی عمر کی خواتین کے لیے میک اپ بنانے والی کمپنی لک فابلیس فارایور کی بانی ٹریسیا کیوسڈن کا کہنا ہے کہ ‘میں 72 برس کی ہوں میں آج بھی اتنی ہی محنت سے کام کر رہی ہو جتنا میں نے تمام عمر کیا ہے۔’ وہ کہتی ہیں ‘درحقیقت میری عمر ہی میرا سب سے بڑا اثاثہ ہے، یہ میرا سب سے بڑا فائدہ ہے۔’

،تصویر کا کیپشنبونی مارکس کا کہنا ہے کہ عورت جب بوڑھی ہوتی ہے تو اسے عمر اور جنس پر مبنی تعصب کی دو دھاری تلوار کا سامنا کرنا پڑتا ہے

ٹریسیا نے اپنی بیمار پوتی کی دیکھ بھال کے لیے 60 کی دہائی کے وسط میں کارپوریٹ دنیا میں ایک کنسلٹنٹ ٹرینر کی حیثیت سے اپنی ملازمت ترک کردی تھی۔ لیکن جب ان کی پوتی بہتر ہو گئیں اور ٹریسیا کی ضرورت نہیں رہی تو انھیں اپنا آپ کھویا ہوا محسوس ہوا۔

‘میں بہت اداس تھی اور مجھے اپنا آپ بہت بیکار محسوس ہوا، میرے پاس واپس اپنی زندگی میں جانے کی کوئی راہ نہیں تھی، اور میں نہ سوچا کہ میں اگلے تیس برس زندہ رہ سکتی ہوں۔’

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد کسی دوسرے عمر کے گروپ کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگلے 30 برسوں میں اس کے دوگنا ہونے کی امید ہے ، جبکہ 80 سال سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

لیکن جیسے جیسے افرادی قوت کی عمر بڑھتی جا رہی ہے ، عمر کی بنا پر تعصب بھی ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ چیریٹی ایج یوکے کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ یورپ میں سب سے زیادہ امتیازی سلوک عمر کی بنا پر تعصب ہے اور زیادہ تر خواتین ہی اس کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔

بونی کہتی ہیں کہ ‘یہ پاگل پن ہے، اگر آپ زیادہ عمر کے دکھائی دیتے ہیں حصوصاً خواتین تو آپ کی کوئی وقت نہیں ہے۔ ہمارا معاشرہ جوانی اور خوبصورتی کی پوجا کرتا ہے۔’

ٹریسیا نے دوبارہ نوکری کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ انھوں نے ایک نئی کمپنی قائم کرنے کا فیصلہ کیا جو بڑی عمر کی خواتین کے لیے میک اپ بناتی ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ اس مرد کے مقابلے میں ناکام ہو جائیں گی جو ایک ڈیزائنر میک اپ برانڈ کے سٹورز کے ڈسپلے تیار کرتا ہے، سات سال بعد اب وہ ملٹی پاؤنڈ ز کی مالیت کے کاروبار کی مالک ہے۔

بونی نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ اس نے ان کا کاروبار کا آئیڈیا یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ اگر وہ کامیاب ہونا ہوتا تو کوئی اب تک اس کے بارے میں سوچ چکا ہوتا۔

‘میں نے یہ سوچا کہ تم ایک بیوقوف انسان ہو اور میں تمھیں یہ ثابت کروں گی۔’

وہ غلط تھا۔

ٹریسیا کا یوٹیوب چینل ، جس پر وہ روزانہ پوسٹ کرتی ہے کو لاکھوں افراد دیکھتے ہیں۔ اور ان کی لک فابلیوس فارایور کی 10 رکنی مضبوط ٹیم کو اب پہلے سے کہیں زیادہ آرڈر مل رہے ہیں۔

ٹریسیا ایک ایسی خاتون ہیں جنھوں نے رجحان کو ختم کیا ہے لیکن امریکی سوسائٹی آف ایجنگ کے مطابق عالمی سطح پر بوڑھی عورتوں کو افرادی قوت میں نہ صرف کم نمائندگی دی جاتی ہے بلکہ انھیں عمر رسیدہ مرد کے مقابلے میں ملازمت ملنے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔

دنیا بھر میں مردوں کی بڑی تعداد اداروں میں اہم اور طاقتور عہدوں پر بیٹھے ہیں چاہے وہ کسی ملک کا سربراہ ہو یا کسی ادارے کا افسر۔ درحقیقت امریکی جریدے فورچون کے 500 بڑے سی ای اوز کی فہرست میں خواتین صرف سات فیصد تک ہی ہوتی ہیں جبکہ برطانیہ کے ایف ٹی ایس ای 100 سی ای اوز کی فہرست میں یہ تعداد صرف پانچ فیصد ہے۔

بونی مارکس کہتی ہیں کہ’ غیر منصفانہ سلوک سے بڑھ کر اس کے کوئی اقتصادی معنی نہیں ہیں۔کمپنیوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پچاس سال سے زیادہ عمر کی خواتین کو یہ علم ہوتا ہے کہ پیسے کہاں خرچ کیے جانے چاہیں۔'”

اکاؤنٹنگ فرم پی ڈبلیو سی کے مطابق ، درحقیقت افرادی قوت میں عمر رسیدہ افراد کو شامل کرنے سے ملک کے جی ڈی پی کو فروغ ملتا ہے۔

اس کے تازہ ترین گولڈن انڈیکس ایج کے مطابق جو یہ دیکھتا ہے کہ ممالک لیبر مارکیٹ میں بوڑھے لوگوں کی طاقت کو کس طرح استعمال کرتے ہیں ، پتہ چلا کہ اگر اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) کے 37 ممالک اضافی ملازمت کی شرح میں نیوزی لینڈ کی سطح تک اضافہ کر دیں تو طویل المدت میں جی ڈی پی میں 3.5 ٹریلین ڈالرز کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کو شامل کرنے پر اکثر نیوزی لینڈ کی مثال دی جاتی ہے چاہے وہ کارپورٹ دنیا ہو یا سیاسی میدان تمام شعبوں میں خواتین کی نمائندگی ہوتی ہے جیسا کہ سنہ 2017 سے وہاں کی وزیر اعظم جیسنڈا ایک خاتون ہیں۔

،تصویر کا کیپشنزندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کو شامل کرنے پر اکثر نیوزی لینڈ کی مثال دی جاتی ہے چاہے وہ کارپورٹ دنیا ہو یا سیاسی میدان تمام شعبوں میں خواتین کی نمائندگی ہوتی ہے جیسا کہ سنہ 2017 سے وہاں کی وزیر اعظم جیسنڈا ایک خاتون ہیں

نیوزی لینڈ کی مساوی مواقعوں کی کمشنر ڈاکٹر سونومالی سومی کہتی ہیں ‘ہم یہاں خوش قسمت ہیں، اگر میں کاروباری شعبے پر نظر دوڑاؤں تو یہاں ہمارے ہیں کچھ عظیم خواتین رہنما ہیں جو ان اداروں میں سی ای او کہ عہدوں پر براجمان ہیں۔’

‘یہ تنوع بنا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے آپ کو اس میز تک پہنچنا ہوتا ہے جہاں فیصلے کیے جاتے ہیں۔ یہ نہایت اہم ہے۔’

دنیا میں کورونا وائرس کی وبا کے دوران اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ عورتیں معاشی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں اور مردوں کے مقابلے میں ان کی نوکریاں زیادہ ختم ہوئیں ہیں خصوصاً عمر رسیدہ خواتین کو سب سہ پہلے نوکریوں سے نکالا گیا۔

تاہم برطانیہ کی پیشہ وارانہ خواتین کے نیٹ ورک کی تنظیم آل برائٹ کو اک اچھی خبر ملی ہے۔ حالانکہ کورونا نے پیشہ ورانہ طور پر خواتین کو زیادہ متاثر کیا ہے مگر اس نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجہ میں چار میں ایک خاتون اب اپنا کاروبار شروع کر رہی ہے۔ لیکن ایک خاتون کاروباری فرد کے نتیجے میں ایک اور مشکل جس کا سامنا ہے وہ سرمایہ کاری یا فنڈنگ ہے۔

،تصویر کا کیپشنرتھ سینڈرز کہتی ہیں کہ ‘صرف ایک فیصد کاروباری سرمایہ کاری ایسی کمپنیوں کو ملتی ہے جن کی تمام بانی خواتین ہوں

‘فی میل انٹرپرینورز: دی سیکرٹس آف دیئر سکسس’ کی شریک مصنف رتھ سینڈرز کہتی ہیں کہ ‘صرف ایک فیصد کاروباری سرمایہ کاری ایسی کمپنیوں کو ملتی ہے جن کی تمام بانی خواتین ہوں جبکہ آٹھ فیصد ایسے اداروں کو ملتی ہیں جن کی بانیوں میں سے کوئی ایک خاتون ہو۔’

وہ کہتی ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ کار زیادہ تر مرد ہوتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں خواتین کو کہیں اور سے رقم کا انتظام کرنا پڑتا ہے

وہ کہتی ہے کہ ’72 فیصد خواتین اپنے کاروبار کے لیے اپنے خاندان اور دوستوں کے ذریعے مدد لیتی ہیں یا کریڈٹ کارڈز اور کراؤڈ فنڈنگ کے ذریعے رقم کا انتظام کرتیں ہیں اس لیے انھیں زیادہ محنت اور جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔’

ٹریسیا کسڈن نے لک فابیلس فارایور کو شروع کرنے کے لیے اپنی بچت کے پیسوں کا استعمال کیا تھا۔ وہ چاہتی ہیں کہ معیشتیں عمر رسیدہ خواتین کی طاقت اور صلاحیت کو سمجھیں۔

انھیں سنہ 1980 میں اپنے کاروباری سفر کے دوران جنس کی بنا پر تعصب کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ سمجھتی ہیں کہ اس وقت اپنا کاروبار کا آغاز کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

‘مجھے افسوس ہوتا ہے اور میں بے چین ہو جاتی ہوں کہ ہم 30، 40 برس بعد بھی وہ ہی سب کچھ کہہ رہے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ اب بھی پہلے جیسا کیسے رہ سکتا ہے، یہ پاگل پن ہے۔’

Exit mobile version