کووڈ 19 کا باعث بننے والا کورونا وائرس کئی بار دماغی خلیات پر قبضہ کرکے انہیں اپنی نقول بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے پھیپھڑوں اور جسم کے دیگر حصوں میں کرتا ہے۔
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی جسے آن لائن bioRxiv نامی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا۔
یعنی یہ تحقیق ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئی مگرایسے شواہد ضرور سامنے آئے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ وائرس براہ راست دماغی خلیات کو متاثر کرسکتا ہے۔
ویسے تو گزشتہ چند ماہ کے دوران یہ ثابت ہوچکا تھا کہ کورونا وائرس متعدد طریقوں سے دماغ کو نقصان پہنچتا ہے جیسے دماغی ورم، فالج، ذہنی الجھن اور دیگر، مگر ایسے شواہد نہ ہونے کے برابر تھے جن سے ثابت ہوتا ہو کہ یہ براہ راست دماغی ٹشوز پر بھی حملہ کرسکتا ہے۔
امریکا کی یالے یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل اکیوکو آئیواسکی نے بتایا کہ ہم متحرک انداز سے مریضوں کے ٹشوز کا ائزہ لے کر یہ دریافت کرنے کے قابل ہوئے ہیں کہ یہ وائرس کس طرح دماغ پر اثرانداز ہوتا ہے اور کونسی علامات سامنے آسکتی ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ ماہرین کو یہ جاننا چاہیے کہ یہ وائرس کس طرح دماغ میں داخل ہوتا ہے اور کس طرح اسے دماغ سے باہر رکھا جاسکتا ہے۔
تحقیق کے لیے کووڈ 19 کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے 3 مریضوں کے دماغی ٹشوز کا جائزہ لیا گیا اور محققین نے اس کے تجربات چوہوں پر بھی کیے جن کو کووڈ 19 سے متاثر کیا گیا۔
اسی طرح انہوں نے لیبارٹری میں دماغی ٹشوز کی نقل پر مبنی خلیات بھی تیار کیے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ پہلی تحقیق ہے جس میں کورونا وائرس کے دماغی انفیکشن کی جانچ پڑتال کے لیے 3 ماڈلز کو استعمال کیا گیا۔
لیبارٹری میں تیار کیے گئے خلیات میں دریافت کیا گیا کہ وائرس کس طرح ایس ٹو ریسیپٹر کے ذریعے نیورونز میں داخل ہوتا ہے۔
اس کے بعد محققین نے الیکٹرون مائیکرو اسکوپ کو استعمال کیا گیا جس کی بیمز سے ٹشوز کے ان ذرات کو جگمگایا گیا جو وائرس سے متاثر تھے۔
انہوں نے دیکھا کہ کورونا وائرس کے ذرات خلیات کے اندر قبضہ جما رہا ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ یہ وائرس ان نیورونز کو اپنی نئی نقول بنانے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔
محققین نے دریافت کیا کہ وائرس سے ان قریبی نیورونز میں بھی قریبی میٹابولک تبدیلیاں آئیں جو وائرس سے متاثر نہیں تھے۔
یہ قریبی خلیات بڑی تعداد میں مررہے تھے اور اس سے عندیہ ملا کہ متاثرہ خلیات صحت مند خلیات سے آکسیجن کو چوری کررتے ہیں تاکہ نئے وائرس تیار کرسکیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نہیں جانتے کہ اس سے ملتا جلتا عمل متاثرہ افراد کے اندر بھی ہوتا ہے یا نہیں، تاہم ایسے چند شواہد موجود ہیں جو اس کی تائید کرتے ہیں۔
ہلاک مریضوں کے ٹشوز میں تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا کہ کورونا وائرس سے متاثر خلیات کے قریب موجود دماغی جھلی پر جھریاں پڑ چکی تھی جو کہ چھوٹے فالج کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ وائرس قریبی خلیات سے آکسیجن چرا لیتا ہے جیسا لیبارٹری کے خلیات میں انہوں نے دریافت کیا تھا۔
خاص طور پر متاثرہ دماغی ٹشوز میں مدافعتی خلیات کی اس طرح بھرمار نہیں تھی جیسی توقع کی جارہی تھی۔
زیکا وائرس یا ریبیس وائرس جب دماغ پر حملہ آور ہوتے ہیں تو بڑی تعداد میں مدافعتی خلیات ان کا تعاقب کرتے ہیں، مگر کورونا وائرس کھ اس طرح حملہ کرتا ہے کہ جسمانی دفاع کو دھوکا دے دیتا ہے۔
یہ ابھی تک واضح نہیں کہ یہ خلاف معمول مدافعتی ردعمل کس طرح بیماری پر اثرانداز ہوتا ہے، مگر اس سے دماغ سے وائرس کی صفائی بہت مشکل ہوسکتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ چند مدافعتی خلیات ضرور متاثرہ مقام پر پہنچ جاتے ہیں مگر قریبی خلیات کی موت سے اعصابی نظام میں ایسا منفی ردعمل پیدا ہوتا ہے جو نقصان دہ ورم کا باعث بن سکتا ہے۔
چوہوں پر تجربات کے دوران میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے، بلکہ وہاں یہ زیادہ جان لیوا ثابت ہوا۔
چوہوں اور لیبارٹری میں تیار کردہ خلیات سے عندیہ ملتا ہے کہ اگر یہ وائرس دماغ پر پہنچ جائے تو یہ کتنا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔
اب محققین انسانوں پر تجربات کرکے جاننا چاہتے ہیں کہ کیا یہی نتائج نظر آتے ہیں یا نہیں۔
ابھی تک سائنسدان یہ بھی نہیں جان سکے ہیں کہ وائرس براہ راست دماغ تک پہن کیسے جاتا ہے۔
جب یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ کووڈ 19 لوگوں کی سونگھنے اور چکھنے کی حسوں کو متاثر کرسکتا ہے تو انہوں نے خیال ظاہر کیا تھا کہ یہ وائرس ناک کے اعصاب کے ذریعے براہ راست سفر کرکے دماغ کو متاثر کرتا ہے۔
اس نئی تحقیق میں شامل محققین بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ اس حوالے سے دوران خون تو کردار ادا نہیں کرتا۔