Site icon DUNYA PAKISTAN

تیرے معصوم سوالوں سے پریشان ہوں میں

Share

غور طلب بات تو یہ ہے کہ مولانا شیرانی نے یہ کیوں فرض کر لیا ہے یا انکی سوچ اس نکتے تک ہی کیوں محدود ہے کہ صرف بیوی ہی نا فرمان ہو سکتی ہے؟؟ مولانا کی پرواز تخیل شاید ایک نافرمان شوہر تک پہنچتے پہنچتے شل ہو جاتی ہے یا پهر انکی جملہ ازواج ہیں ہی اتنی ان موڑ کہ انہیں تابع فرمان کرنے کے لیئے بالآخر زچ ہو کر مولانا کو قاعدہ قانون کا سہارا لینا پڑ گیا چاہے اجتماعیت کے ملفوف میں ہی سہی –
تفنن بر طرف مگر حقیقت یہ ہی ہے کہ تحفظ حقوق نسواں کےنام پر ایکبار پهر ملک کی نصف آبادی کو احساس عدم تحفظ میں مبتلا کر دینے والا ایک اور متنازعہ بل اس اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے پیش کر دیا گیا ہے کہ جس کے اپنے بارے میں اب یہ سوال اٹهایا جا رہا ہے کہ آخر اس کونسل کا دائرہ کار کیا ہے ؟ غامدی صاحب کا کہنا تو یہ ہے کہ آئین کے مطابق کونسل صرف ریاستی معاملات سے متعلق تجاویز دے سکتی ہے.جبکہ مجوزہ بل کی شقیں خالصتا” شخصی معاملات سے متعلق ہیں جو اصل میں اللہ اور اس کے بندے کا معاملہ ہیں
سوچنے کی بات تو یہ بهی ہے کہ اسلام تو ہر فسم کے تشدد کی مذمت کرتا ہے،پهر ایسے میں کیا مولانا شیرانی وضاحت کریں گے کہ ہلکا پهلکا تشدد کیا ہوتا ہے؟ اور کس طرح کیا جاتا ہے؟فرض کریں کہ ایک مرد کے نزدیک ہلکی پهلکی سرزنش کے لیئے بیوی کو ایک تهپڑ ہی کافی ہے لیکن کسی اور کا سات تهپڑوں کے بعد بهی دل نہ بهرے اور وہ محترم بعد میں بہت آرام سے فرما دیں کہ انہوں نے تو ہلکا پهلکا تشدد کیا تها،تو کوئی کیا بگاڑ لے گا کہ ‘کام’ تو “شریعت” مطابق ہی ہوا ناں ! لہذا مغالطے سے بچنے کے لیئے اس “ہلکے پهلکے” کی مولانا صاحب خود ہی حد بندی فرما دیں تو زیاده بہتر ہےکہ کہیں ہمارے “اسلامی”مردوں سے کوئی غیر شرعی حرکت نہ ہو جائے.
ویسے مجهے یہ بهی لگ رہا ہے کہ کہیں مولانا مذہب کی آڑ میں اپنی قدیم قبائلی معاشرت وروایات کی ترجمانی تو نہیں کر رہے؟ اور اگر ایسا ہے تو اور زیادہ مقام غور ہے کہ آیا نافرمان بیوی پر تشدد کی اجا ت ہمارے جیسے جاگیردارانہ معاشرے میں جہاں مرد صدیوں سے حاکم اور عورت محکوم کا رول نبهاتے چلے آرہے ہوں،مزید بگاڑ کا باعث نہ ہو گا؟اس طرح کیا همارے خاندانی و معاشرتی نظام کا تارو پود بکهر کر نہ رہ جائے گا؟
ایک معصومانہ سوال تو یہ بهی بنتا ہےکہ اگر بیوی یہ محسوس کرتی ہے کہ خاوند راہ راست پر نہیں ہے تو پهر کیا اسے بهی اسی طرح کے ہلکے پهلکے تشدد کا حق حاصل ہو گا کہ نہیں ؟ یا پهر بڑی سہولت کے ساتهه یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ صرف مرد کو ہی ہر طرح کی ‘دل پشوری’ کا فطری حق حاصل ہے؟؟

یہ کالم مئ 2016 میں شائع کیا جا چکا ہے۔

Exit mobile version