موٹروے سانحہ اتنا سنگین تھا کہ میڈیا پر تمام موضوعات پس منظر میں چلے گئے۔ اس سے پہلے احمد نورانی کی سٹوری‘ اس کے جواب میں جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کا مؤقف اور شیخ رشید کی کتاب”لال حویلی سے اقوام متحدہ تک‘‘ ناظرین اور سامعین کی دلچسپی کے موضوعات تھے‘ جن پر ٹاک شو ہورہے تھے‘ کالم لکھے جارہے تھے اور تبصرے ہورہے تھے۔ احمد نورانی کی سٹوری سوشل میڈیا پر آئی اور وہیں تک محدود رہی۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر جنرل صاحب کے انٹرویوز نے اسے ایک عوامی موضوع بنادیا اور یہ حکایت عام ہوتی چلی گئی ۔شامی صاحب کے بقول جنرل صاحب نے اپنے خلاف سوشل میڈیا کا ایک بڑا حملہ ناکام بنا دیا تھا۔
شیخ رشید کی کتاب ”لال حویلی سے اقوام متحدہ تک‘‘ دنیا پبلشرز کی پہلی پبلی کیشن ہے۔ شیخ صاحب میڈیا کے ڈارلنگ ہیں کہ پردہ سکرین پر سب سے زیادہ رش لیتے ہیں۔ لیکن شیخ صاحب بھی جانتے ہیں کہ یہ سب ان کے ووٹراور سپورٹر نہیں۔ سید عطا اللہ شاہ بخاری یاد آئے‘برصغیر میں جن کی خطابت کا طوطی بولتا تھا۔ وہ اس میدان کے ایسے شاہسوار تھے‘ دور و نزدیک کوئی جن کا ہم پلہ نہ تھا۔عشا کے بعد شروع ہونے والا جلسہ فجر تک جاری رہتا۔ کوئی ایک آدمی اٹھ کر نہ جاتا۔یوں لگتا‘ شاہ جی نے ہزاروں لوگوں کو مٹھی میں بند کرلیا ہو۔ لیکن شاہ جی جانتے تھے کہ ان کی تقریر سے لطف اندوز ہونے والے اجتماع میں ان کے ووٹرکتنے ہیں۔ انہیں اس کے اظہار (اور اعتراف )میں بھی کوئی عار نہ ہوتی: میں جانتا ہوں‘ تم تقریرمیری سنتے ہو‘ ووٹ جناح کو دیتے ہو۔ میں تقریر کرتا ہوں تم کہتے ہو‘ واہ شاہ جی! میں کہتا ہوں ووٹ دوگے‘تمہارا جواب ہوتا ہے‘ناں شاہ جی۔
شیخ صاحب ناظرین وسامعین ہی کا نہیں‘ قارئین کا بھی وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔ ”لال حویلی سے اقوام متحدہ تک‘‘کی مقبولیت جس کا ثبوت ہے۔ پہلاایڈیشن شائع نہیں ہوا تھا کہ ایڈوانس بکنگ میں ختم ہوگیا‘دوسرا ایڈیشن بھی ہاتھوں ہاتھ نکل گیا۔ سنا ہے‘ اب تیسرا ایڈیشن زیر طبع ہے۔ تقریب ِرونمائی کے مہمانِ خصوصی گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کا کہنا تھا کہ وہ پنجاب کی تمام یونیورسٹیوں کی لائبریریوں میں یہ کتاب رکھوانے کی کوشش کریں گے چاہے‘ اپنے پلے سے خرید کر دینی پڑے ۔
اتوار 6ستمبر کو یہ تقریب رونمائی‘ شہر کی یاد گار تقاریب میں ایک تھی۔ برادرم عمران یعقوب کوگلہ ہے کہ سبھی مقررین کی تقاریر میں شیخ صاحب کی خوبیاں ہی خوبیاں تھیں حالانکہ دوستوں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے دوست کو اس کی خامیوں سے بھی آگاہ رکھتے ہیں۔عمران کو اس تقریب میں ایسے دوست کی کمی محسوس ہوئی ۔ مقررین کی تقاریر سے انہیں یوں لگا جیسے شیخ صاحب ایک ایسے فرشتہ صفت انسان اور ایک ایسے نیک نیت سیاستدان ہیں کہ ان جیسا کوئی دوسرا اس ملک میں تو کیا پورے عالم میں نہیں ملے گا۔
کتابوں کی تقاریب رونمائی کے بارے میں شامی صاحب کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ان کے بقول‘ یہ کسی ادبی حلقے کا تنقیدی اجلاس نہیں ہوتا‘ جس میں کسی نظم‘غزل‘ افسانے یا انشائیے وغیرہ کا بے رحمی سے جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کی خوبیوں سے زیادہ خامیاں زیر بحث آتی ہیں۔ ان کے خیال میں نئی کتاب‘ کسی نومولود کی پیدائش کی طرح ہوتی ہے‘ جس پر احباب مبارک باد کے لیے آتے ہیں(اللہ تعالیٰ توفیق دے تو مٹھائی کا ڈبہ‘ کیک یا گلدستہ بھی لے آتے ہیں )نومولود کی بلائیں لیتے ہیں۔ کوئی اس کے چہرے مہرے کا تنقیدی جائزہ نہیں لیتا کہ آنکھیں چھوٹی ہیں‘ ناک چپٹی ہے‘ سرلمبوترا ہے‘پیشانی چوڑی نہیں ۔اس تقریب رونمائی میں ”نومولود‘‘ کے صدقے واری جانے کے ساتھ ”والد محترم‘‘ کی شخصیت‘ ان کی وجاہت اور جواں ہمتی وجواں مردی کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا جارہاتھا۔ اس میں کسی نے‘ کسی بخل سے کام نہ لیا۔” فکرِ ہر کس بقدرِہمت اوست‘‘والا معاملہ تھا۔
ہم بدقسمتی سے شیخ صاحب کی اس آٹوبائیو گرافی کاتاحال مطالعہ نہیں کرسکے۔ لیکن جو اصحابِ ذوق یہ سعادت حاصل کرچکے‘ ان کا کہنا ہے کہ شیخ صاحب نے بے نظیر صاحبہ کے (دوسرے) دورِ حکومت میں بہاولپور میں ایام ِاسیری کے دوران ”فرزندِ پاکستان‘‘ میں میاں نوازشریف کی تعریف وتوصیف میں جو کچھ لکھا‘ کتابِ تازہ میں بھی جوں کا توں موجود ہے ۔ اس میں انہوں نے کسی قطع وبرید کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
میاں نوازشریف کے ساتھ شیخ صاحب کے تعلق کی اپنی کہانی ہے‘ 12اکتوبر 1999ء کے بعد جس میں نیا موڑ آیا۔ نوازشریف‘ پوری شریف فیملی سمیت جلا وطن تھے (26سالہ حمزہ تھا‘ جو فیملی بزنس کی دیکھ بھال کے لیے لاہور میں رہ گیا تھا۔ بعض لوگ اسے مشرف کا یرغمال بھی قرار دیتے) مسلم لیگ کے بطن سے مسلم لیگ(ق) جنم لے چکی تھی۔ اسے جملہ ریاستی اداروں کی بھرپور سپورٹ بھی حاصل تھی لیکن خاموش ووٹر کی اکثریت اب بھی نوازشریف کے ساتھ تھی۔ پنڈی ان شہروں میں تھا‘ جہاں یہ اکثریت خاموش بھی نہیں تھی؛ چنانچہ شیخ صاحب کو نوازشریف والی مسلم لیگ کے ٹکٹ کی اہمیت اور افادیت کا بخوبی اندازہ تھا۔ اس کے لیے انہوں نے لاہور کے بزرگ ایڈیٹر کی پرزور سفارش بھی کروائی‘ شریف فیملی میں بزرگ کی حیثیت حاصل تھی‘ بڑے میاں صاحب بھی ان کا احترام کرتے اور ان کی رائے کو بے پناہ اہمیت دیتے۔ 12اکتوبر کے بعد شیخ صاحب کے رویے سے نوازشریف خوش نہیں تھے‘لیکن بزرگ ایڈیٹر کی سفارش کو ٹالنا بھی آسان نہ تھا۔ وہ یہ کڑوا گھونٹ بھرلیتے لیکن پنڈی کے مسلم لیگی کارکنوں کی مزاحمت بہت شدید تھی۔ جو ریاستی دبائو کے تمام تر حربوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود اپنے لیڈر کے ساتھ وفا داری بہ شرطِ استواری پر قائم رہے تھے اور اب انہوں نے اسے اپنی سیاسی انا کا مسئلہ بنالیا تھا (اسی سیاسی انا کا مظاہرہ اچھرہ لاہور میں مسلم لیگ کے ورکرز اور ووٹرز نے 2013ء کے الیکشن میں کیا ۔میاں صاحب نے یہاں پنجاب اسمبلی کی سیٹ پر‘ سِٹنگ ایم پی اے حافظ میاں نعمان کی بجائے اختر رسول کو ٹکٹ دے دیا تھا؛ چنانچہ یہاں سے ایاز صادق قومی اسمبلی کا الیکشن آسانی سے جیت گئے لیکن ان کے نیچے صوبائی سیٹ پر وہ اختر رسول کو نہ جتواسکے۔ اورمیاں اسلم اقبال جیت گئے۔ حافظ نعمان نے ٹکٹ سے محرومی کے باوجود پارٹی اور اس کی قیادت سے وفاداری نبھائی)۔
ٹکٹ سے محرومی کے بعد شیخ صاحب نے نئی انتخابی حکمت عملی اختیار کی۔ وہ دوسیٹوں سے الیکشن لڑ رہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ دونوں سیٹ جیت کر نوازشریف کے قدموں میں رکھ دیں گے۔ وہ یہ دونوں سیٹ جیت گئے‘ لیکن اپنے انتخابی وعدے کے برعکس پرویز مشرف کے ہوگئے جس کا بدلہ ووٹرز نے ان کی چھوڑی ہوئی ایک سیٹ پر اپوزیشن کے امید وار حنیف عباسی کو جتواکر لے لیا۔ شیخ صاحب پرویز مشرف کے چہیتے ترین وزرا میں شمار ہوتے تھے۔ خود انہیں بھی یہ کہنے میں عار نہ ہوتی کہ سیاست تو وہ اب کررہے ہیں اس سے پہلے تو جھک ہی مارتے رہے۔ لال مسجد‘جامعہ حفصہ اور چیف جسٹس سمیت اعلیٰ عدلیہ کے خلاف مشرف کے اقدامات کا خمیازہ شیخ صاحب کو بھی بھگتنا پڑا۔ جب 2008ء کے الیکشن میں وہ پنڈی کے دونوں حلقوں میں ہار گئے۔ ایک حلقے میں ملتان سے آیا ہوا جاوید ہاشمی مدمقابل تھا… دوسرے میں حنیف عباسی۔ ”لال حویلی یا لال مسجد‘‘ان کا انتخابی نعرہ تھا۔ لیکن اہل ایمان ہی نہیں‘ شیخ صاحب جیسے سیاستدان بھی صورتِ خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے‘ ادھر نکلے۔ وہ ایک بار پھر وفاقی وزیر ہیں ۔ اور کون جانتا ہے‘ اگلی بار کیا ہوں؟