اسلام آباد: خصوصی عدالت کی جانب سے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف سے متعلق ’متنازع ‘ فیصلے پر فوج اور عدلیہ کے درمیان اضطراب کی اطلاعات کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ان کی حکومت ملک کے استحکام کو کبھی خراب نہیں ہونے دے گی۔
رپورٹ کے مطابق وزیراعظم آفس میں اپنے قانونی معاون بابر اعوان سے ملاقات کے دوران عمران خان نے کہا کہ ریاستی اداروں کو مضبوط کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
خیال رہے کہ فوج اور حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ کے سربراہ کی حیثیت سے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ تحریر کیا تھا۔
دوسری جانب حکومت نے سپریم کورٹ میں سنگین غداری کیس کا فیصلہ چیلنج کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا۔
اس حوالے سے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیراعظم نے موجودہ حالات میں اداروں کا ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔
علاوہ ازیں ملاقات میں بابر اعوان نے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کرنے اور خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے سے متعلق قانونی پہلوؤں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
ادھر وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اس بات پر زور دیا کہ اداروں کے درمیان ہم آہنگی وقت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں قوم، پاکستان کے روشن مستقبل کے خلاف سازش کرنے والے عناصر کو شکست دے گی۔
فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ فوج کا حوصلہ پست کرنے اور ریاستی اداروں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
دوران گفتگو معاون خصوصی نے کہا کہ حکومت، سپریم جوڈیشل کونسل میں (پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف) ریفرنس دائر کرکے اپنی ذمہ داری پوری کرنے جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت جو مسلسل لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کررہا ہے وہ پاکستان کی صورتحال کا فائدہ اٹھارہا ہے۔
خیال رہے کہ 17 دسمبر کو خصوصی عدالت نے مختصر فیصلے میں 2 ایک کی اکثریت سے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی تھی اور بعدازاں 19 دسمبر کو اس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا۔
تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی جبکہ جسٹس نذر اکبر نے انہیں بری کردیا تھا۔
تاہم اس تفصیلی فیصلے میں جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار احمد سیٹھ کی اس رائے سے اختلاف کیا تھا جس میں انہوں نے پیرا گراف 66 میں یہ لکھا تھا کہ اگر پرویز مشرف سزا سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے’۔
اس پیرا پر جسٹس شاہد نے اختلاف کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ بنیادی قانون کے خلاف ہے اور مجرم کے لیے موت کی سزا کافی ہے۔
علاوہ ازیں تفصیلی فیصلے کے بعد پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک مختصر پریس کانفرنس بھی کی تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے تفصیلی فیصلے نے ہمارے خدشات کو درست ثابت کردیا۔
میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اگر ہمیں خطرات کے بارے میں معلوم ہے تو ہمارے پاس اس کا ردعمل بھی موجود ہے، اگر ہم بیرونی حملوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں، اندرونی دہشت گردی کا مقابلہ کرسکتے ہیں تو جو ملک دشمن قوتوں کا موجودہ ڈیزائن چل رہا ہے، اسے سمجھ کر اس کا بھی مقابلہ کریں گے۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ 17 دسمبر کے مختصر فیصلے پر جن خدشات کا اظہار کیا گیا تھا وہ تفصیلی فیصلے میں صحیح ثابت ہوئے ہیں، یہ فیصلہ کسی بھی تہذیب اور اقدار سے بالاتر ہے اور چند لوگ آپس میں لڑوانا چاہتے ہیں۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ افواج پاکستان صرف ایک ادارہ نہیں ہے بلکہ ایک خاندان ہے ہم عوام کی افواج ہیں اور جذبہ ایمانی کے بعد عوام کی حمایت سے مضبوط ہیں، ہم ملک کا دفاع بھی جانتے ہیں اور ادارے کی عزت اور وقار کا دفاع بھی بہت اچھے طریقے سے جانتے ہیں۔