اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف پُرتشدد واقعات میں تیزی سے اضافے کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو قرار دے دیا۔
خبررساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ثقافتی ایجنسی نے کہا کہ امسال جنوری اور جون کے درمیان 21 مظاہروں کے دوران صحافیوں پر حملہ ہوئے اور انہیں گرفتار کیا گیا یا بعض واقعات میں ہلاک ہوئے۔
رپورٹ میں کہا کہ ‘گزشتہ پانچ برس میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے غیرقانونی طاقت کے استعمال کے دوران صحافیوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا’۔
65 ممالک میں ہونے والے مظاہروں کی تحقیقات کرنے والے یونیسکو کے مطابق 2015 اور 2020 کے وسط کے دوران ہونے والے مظاہروں کے دوران کم از کم 10 صحافی مارے گئے تھے جبکہ صحافیوں پر حملوں یا گرفتاریوں کے 125 واقعات پیش آئیں۔
ملازمت کے دوران ہلاک ہونے والے رپورٹرز شام، میکسیکو، اسرائیل، نکاراگوا، شمالی آئرلینڈ، نائیجیریا اور عراق میں کام کرتے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ مظاہروں کی کوریج کرنے کی کوشش کرنے والے دنیا بھر کے سیکڑوں صحافیوں کو ہراساں، تشدد یا ڈرایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ‘ان مظاہروں کے دوران فرائض کی انجام دہی کرنے والے متعدد صحافیوں کو گرفتار کیا گیا، ان کی خفیہ نگرانی کی گئی اور ان کے سامان کو نقصان پہنچا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس نے ربڑ کی گولیوں سے لے کر کالی مرچ پر مبنی غیر مہلک گولہ بارود کا استعمال کیا جس سے درجنوں صحافی زخمی ہوئے کچھ افراد آنکھوں سے محروم ہوگئے۔
یونیسکو نے کہا کہ پولیس کو صحافیوں پر حملے کرنے پر کوئی قانونی گرفت کا خوف پیدا نہیں ہوتا۔
یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل آڈری ایزولے نے حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ صحافی بلا خوف و خطر اپنا کام انجام دے سکیں۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ‘صحافیوں کا احتجاجی تحریکوں کے بارے میں قارئین کو اطلاع دینے اور انہیں آگاہ کرنے میں اہم کردار ہے’۔
ڈائریکٹر جنرل آڈری نے کہا کہ ‘ہم بین الاقوامی برادری اور تمام متعلقہ حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ یقینی بنائیں کہ صحافیوں کے بنیادی حقوق کو برقرار رکھا جائے’۔
یونیسکو نے کہا کہ مظاہرے اکثر معاشی ناانصافی، حکومتی بدعنوانی اور بڑھتی ہوئی آمریت کے خلاف ہوتے ہیں جس سے کچھ حکومتوں کو متوازن رپورٹنگ کی روک تھام میں اپنا مفاد حاصل ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے متعدد قراردادوں میں پریس کے خلاف سیاسی رہنماؤں کی طرف سے مخالف بیان بازی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
صحافت کے معاملے پر پاکستان کی 3 درجہ تنزلی
اس تناظر میں اگر بات پاکستان کے حوالے سے کی جائے تو گزشتہ برس اپریل میں میڈیا نگرانی کے عالمی ادارے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے صحافتی آزادی کے حوالے سے ممالک کی درجہ بندی فہرست جاری کی تھی جس کے مطابق پاکستان اپنے پرانے درجے سے 3 درجہ تنزلی کا شکار ہوگیا تھا۔
آر ایس ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں میڈیا کو سینسر شپ کے کڑے معاملات کا سامنا کرنا پڑا بالخصوص عام انتخابات کے دوران، اس کے ساتھ اخبارات کی تقسیم میں رکاوٹیں حائل ہوئیں، ذرائع ابلاغ کو اشتہارات واپس لینے کے لیے دھمکایا گیا جبکہ کچھ ٹی وی چیننلز کے سگنلز بھی بند کردیے گیے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ نئی حکومت نے گزشتہ برس پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کا اعلان کیا جس کے نام میں موجود لفظ ’ریگولیشن‘ واضح طور پر سینسر شپ کو ظاہر کرتا ہے اور کہا تھا کہ صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کام کرنے والے صحافی سب سے زیادہ خطرات کی زد میں ہیں۔
6 برسوں میں 33 صحافی قتل
ایک اور تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پاکستان میں 6 برس میں صحافتی ذمہ داریاں نبھانے کے دوران 33 صحافیوں کو قتل کیا گیا جبکہ گزشتہ برس یعنی 2018 نومبر سے 2019 اکتوبر کے دوران 7 صحافی قتل ہوئے۔