نئے متوقع جاپانی وزیرِاعظم وشی ہیڈے سوگا: کسان کے بیٹے اور ایک منجھے ہوئے سیاستدان
جاپان کی برسرِ اقتدار جماعت نے یوشی ہیڈے سوگا کو شنزو آبے کے بعد اپنا نیا رہنما منتخب کر لیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ تقریباً یقینی طور پر ملک کے اگلے وزیرِ اعظم بن جائیں گے۔
گذشتہ ماہ شنزو آبے نے خراب صحت کی بنیاد پر اپنے استعفے کا اعلان کیا تھا۔
71 سالہ سوگا حالیہ انتظامیہ میں کابینہ کے چیف سیکرٹری کے عہدے پر تعینات ہیں اور کافی امکانات ہیں کہ وہ جیت جائیں گے۔
وہ شنزو آبے کے بہت قریبی ساتھی ہیں اور امکان ہے کہ وہ ان کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھیں گے۔
سوگا نے کنزرویٹیو لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی ایل) کی صدارت 534 ووٹوں میں سے 377 ووٹ لے کر حاصل کی۔ان کے مقابلے میں ایک سابق وزیرِ خارجہ فیمیو کیشیڈا اور ایل ڈی پی کے سابق سیکریٹری جنرل شیگیرو ایشیبا تھے۔
اب جبکہ پارٹی نے اپنا لیڈر منتخب کر لیا ہے تو بدھ کو پارلیمان میں ایک اور ووٹ ہو گا، جہاں سوگا ایل ڈی پی کی اکثریت کی وجہ سے تقریباً یقینی طور پر وزیرِاعظم بن جائیں گے۔
کیونکہ وہ مڈ ٹرم میں یہ عہدہ سنبھال رہے ہیں اس لیے توقع ہے کہ وہ ستمبر 2021 میں ہونے والے انتخابات تک وزیرِاعظم رہیں۔
یوشی ہیڈے سوگا کون ہیں؟
سوگا جو کہ ایک کسان کے بیٹے ہیں اور ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔
انتظامیہ میں ان کے کابینہ کے چیف سیکریٹری کے مرکزی عہدے کی وجہ سے یہ لگتا ہے کہ وہ 2021 تک عبوری حکومت جاری رکھیں گے۔
ٹوکیو کی صوفیہ یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر اور ڈین کوئچی ناکانو کے مطابق ’شنزو آبے اور پارٹی کے دوسرے ’باسز‘ نے سوگا کی حمایت اس لیے بھی کی کہ وہ ’تسلسل‘ جاری رکھنے والے سب سے بہتر امیدوار ہیں، ایک ایسا امیدوار جو ایبے کے بغیر بھی ایبے حکومت جاری رکھے گا۔‘
اگرچہ سوگا کو بہت زیادہ چست و چالاک اور پر جوش سیاستدان نہیں سمجھا جاتا لیکن ان کے متعلق مشہور ہے کہ وہ بہت قابل اور پریکٹیکل انسان ہیں۔
حال ہی میں ان کی سب سے نمایاں موجودگی اس وقت نظر آئی جب 2019 میں شہنشاہ ایکی ہیٹو نے اپنے بیٹے نوروہیٹو کے حق میں دستبرداری کی۔ سوگا پر یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ جاپان اور پوری دنیا کو نئے ’ریئوا‘ دور کے متعلق بتائیں۔
اگرچہ وہ شنزو ایبے کے استعفیٰ کے بعد پارٹی کی رہنمائی کرنے کے لیے سب سے پسندیدہ رہنما تھے لیکن یہ زیادہ واضح نہیں کہ وہ اگلے جنرل الیکشنز تک پارٹی کی سربراہی کریں گے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اس وقت تک پارٹی کا توازن کسی ایک متحرک شخص کی طرف جھک چکا ہو گا جو وسیع پیمانے پر ووٹروں تک پہنچ سکے۔
ہم کیا توقع کر سکتے ہیں؟
سوگا نے کہا ہے کہ وہ ’ایبے نومکس‘ کو جاری رکھیں گے۔ یہ ایبے کی خاص اقتصادی پالیسی ہے جو دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کو مالیاتی آسانی، مالی اخراجات اور بنیادی ڈھانچوں میں اصلاحات کے ذریعے متحرک کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔
لیکن اپنے پیشرو کی طرح ان کو بھی پہلے کورونا وائرس جیسی وبا سے نمٹنے کے لیے کچھ کرنا ہو گا۔
انتخابات سے پہلے سوگا نے کووڈ 19 کی ٹیسٹنگ کو وسیع پیمانے پر کرنے اور جاپان کے لیے ویکسین کو 2021 کے پہلے حصے تک متعارف کرانے کا وعدہ کیا ہے۔
انھوں نے کم از کم اجرت کو بڑھانے، زرعی اصلاحات متعارف کرانے اور سیاحت کو بڑھانے کا بھی وعدہ کیا ہے۔
خارجہ پالیسی کے متعلق بہت توقع ہے کہ وہ ایبے کی پالسیاں ہی جاری رکھیں گے، جس میں امریکہ کے ساتھ بہت عرصے سے جاری اتحاد کو اولین ترجیح جاری رہے گی اور چین کے ساتھ مستحکم تعلقات ہوں گے۔
جاپان کا سیاسی آؤٹ لک کیا ہے؟
قیادت کی منتقلی جاپان کے لیے ایک مشکل وقت پر آئی ہے۔ جاپان ابھی تک کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے جس کی وجہ سے اسے سب سے بڑی اقتصادی گروٹ کا سامنا ہے۔
شنزو آبے کا معیشت کو کک سٹارٹ کرنے کا درینہ پراجیکٹ، جسے ایبے نومکس کہا جاتا ہے، وبا سے پہلے بھی ’ورک ان پراگریس‘ تھا اور ملک نے جمود، کساد بازاری اور آہستہ نمو کے کئی سال دیکھے تھے۔
حکومت کے نامکمل کاموں میں سے ایک جنگ کے بعد کے امن پسند آئین میں اصلاحات کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ ایبے چاہتے تھے کہ آئین کے ایک حصے کو تبدیل کیا جائے جس میں جاپان کی فوج کو باقاعدہ طور پر تسلیم کیا جائے، جو کہ اس وقت سیلف ڈیفینس فورس کہلاتی ہے اور جسے کسی بھی بین الاقوامی فوجی ضرورتوں میں شمولیت کی اجازت نہیں۔
یوشی ہیڈے سوگا کی انتظامیہ کو ان سب پراجیکٹس میں استحکام لانا ہے۔
پروفیسر ناکونا کہتے ہیں ’لیکن بطور چیف کیبینٹ سیکریٹری وہ ’حیرت انگیز طور پر بصیرت سے خالی‘ تھے۔‘
’جس واحد نعرے کو وہ لے کر آئے تھے وہ، ’اپنی مدد، باہمی مدد اور عوامی مدد‘ کا نعرہ تھا۔ جو نیو لبرل کی ’اپنی مدد اور اپنی ذمہ داری‘ پر زور دے رہا تھا جبکہ وبا کے دور میں بہت زیادہ لوگ معاشی مشکلات کا شکار تھے۔‘
جاپان کی ’ڈائٹ‘ (ایوانِ زیریں) کے نئے جنرل الیکشن ستمبر 2021 میں متوقع ہیں اور پھر ایل ڈی پی میں ایک اور نئے قیادت کے مقابلے کا دور ہو سکتا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ وہ مقابلہ زیادہ تر اس بات پر ہو گا کہ کون عام ووٹروں کو جیت سکتا ہے، صرف اس پر نہیں کہ تسلسل جاری رکھا جائے۔
شنزو آبے نے استعفیٰ کیوں دیا؟
شنزو آبے نے کہا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی بیماری ان کی فیصلہ سازی میں آڑے آئے اور انھوں نے جاپانی عوام سے معافی مانگی تھی کہ وہ اپنے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
65 برس کے ایبے کافی برسوں سے السریٹیو کولائیٹس کی بیماری میں مبتلا تھے جو کہ آنتوں کی ایک بیماری ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ حال ہی میں ان کی حالت بہت زیادہ بری ہو گئی ہے۔
گذشتہ برس وہ جاپان کے سب سے لمبے عرصے تک رہنے والے وزیرِاعظم بن گئے تھے۔ حالیہ دور میں وہ سنہ 2012 میں وزیرِاعظم بنے تھے۔
اس سے قبل سنہ 2007 میں انھوں نے اپنی بیماری کی وجہ سے وزیرِاعظم کے عہدے سے اچانک استعفیٰ دے دیا تھا۔