بحریہ ٹاؤن کراچی میں منظور شدہ پلان کے خلاف تعمیرات روکنے کا حکم
کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کو منظور شدہ پلان اور عمارات کے قوائد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیرات بڑھانے سے روک دیا۔
جسٹس محمد شفیع صدیقی کی سربراہی مین 2 رکنی بینچ نے صوبائی حکام، بحریہ ٹاؤن اور دیگر فریقین سمیت ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے 4 ہفتوں میں جواب دینے کی ہدایت کردی۔
تاہم بینچ نے درخواست گزار کی جانب سے عوامی مفادات کی آڑ میں سیکڑوں مقدمات فائل کرنے پر بھی سوال اٹھایا اور سندھ بار کونسل (ایس بی سی) اور سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس ایچ سی بی اے) سے اس معاملے پر معاونت طلب کی۔
درخواست گزار محمود اختر نقوی کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی میں مبینہ طور پر غیرقانونی تعمیرات کے خلاف 2 درخواستوں میں مؤقف اپنایا ہے کہ اگرچہ کسی بھی انتظامیہ کی جانب سے منظوری نہیں دی گئی لیکن بلڈنگ پلان اور قوائد کی منظوری کے بغیر اس طرح کی تعمیرات ہورہی ہیں۔
درخواست گزار نے کہا کہ یہ معاملہ مفاد عامہ کی قانونی چارہ جوئی میں آتا ہے اور اسی لیے انہیں یہ درخواستیں دائر کرنے کا مکمل حق تھا۔
اپنی دوسری درخواست میں انہوں نے مؤقف اپنایا کہ وہ خود بھی بحریہ ٹاؤن کے رہائشی تھے اور انہوں نے اس کے احاطے میں بڑھنے والی تعمیرات کو چیلنج کیا۔
اس موقع پر بینچ کا کہنا تھا کہ درخواست گزار نے اس احاطے کا کوئی عنوان یا منظوری پیش نہیں کی جہاں وہ خود رہائش پذیر تھے کیونکہ انہیں حق رکھنے کے لیے حق دکھانا پڑتا۔
جس پر درخواست گزار نے کہا کہ آئندہ سماعت سے قبل گھر/ولا کے منظور شدہ پلان کی نقل دائر کریں گے جو درخواست کے عنوان میں دکھایا گیا تھا۔
اس پر بینچ نے کہا کہ درخواست گزار عوامی مفادات کی آڑ میں اس طرح کے کیسز رضاکارانہ طور پر دائر کر رہا، مزید یہ کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں اس طرح کے کیسز کو مفاد عامہ کی قانونی چارہ جوئی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تاہم بینچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ درخواست گزار پیشہ ور وکیل ہونے کی حیثٰت سے عوامی مفاد کی آڑ میں اس طرح کی درخواستیں مسلسل دائر کر رہا ہے۔
بینچ نے اپنے حکم میں کہا کہ اگرچہ ہم نے فریقین سمیت ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو نوٹس جاری کردیے ہیں تاہم ہم یہ بھی دیکھنا چاہیں گے کہ درخواست گزار کو آیا سیکڑوں کیسز دائر کرنے پر بطور رضاکار (پرو بونو) تصویر کیا جاسکتا ہے اور درخواست گزار کو بطور پیشہ ور وکیل کام کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
بعد ازاں عدالت نے اپنے دفتر کو ہدایت کی کہ وہ درخواست گزار کی جانب سے دائر کیے گئے تمام کیسز کی تفصیلات ان کے تصرف اور التوا کے ساتھ فراہم کرے جبکہ ان درخواستوں کی نوعیت کے بارے میں بھی آگاہ کرے۔
اس ساتھ ساتھ ساتھ ایس بی سی اور ایس ایچ سی بی اے کو بھی نوٹسز جاری کیے کہ وہ اس معاملے پر معاونت کرے۔
عدالت نے حکم دیا کہ ‘4 ہفتوں بعد معاملے کو سنیں گے، اس دوران منظور شدہ پلان اور/ یا قوائد کی خلاف ورزی میں کوئی تعمیرات نہیں بڑھائی جائے’۔
مزید برآں عدالت نے درخواست گزار کی جانب سے دائر ایک جیسی درخواستوں کو مشترکہ سماعت کے لیے کلب (یکجا) کرنے کی ہدایت بھی کی کیونکہ ان درخواستوں میں ایک جیسے سوال شامل ہیں۔
علاوہ ازیں مذکورہ بینچ نے درخواست گزار کو ملیر ندی پر اور اس کے اطراف مبینہ تجاوازات کے خلاف ایک اور درخواست میں یہی ہدایات جاری کیں۔
محمود اختر نقوی نے مذکورہ درخواست میں الزام لگایا کہ ضلع ملیر سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے نے اپنے دفتر کا استعمال کرتے ہوئے ملیر ندی کے ایک وسیع علاقے میں تجاوزات کرلی ہیں اور پلاٹس/گھروں کو عوام کے لیے فروخت کرنے کےلیے نکال دیا ہے۔
بعد ازاں بینچ نے فریقین اور ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹسز جاری کردیے لیکن درخواست گزار کو یہ دلائل دینے کی ہدایت کہ کہ آیا اس معاملے کو بطور رضاکارانہ طور پر تصور کیا جائے یا وہ بطور پیشہ ور وکیل انہیں کام کرنے کی اجازت دے سکیں۔