فیچرز

سول سروسز میں انڈیا کے مسلمانوں کو زیادہ مواقع ملنے کے دعوؤں کی حقیقت کیا ہے؟

Share

آپ نے حال ہی میں سول سروسز سے متعلق بہت سارے ٹویٹس دیکھے ہوں گے جنھیں انڈیا کا سب سے اہم اور باوقار امتحان سمجھا جاتا ہے۔

سول سرو‎سز یعنی یو پی ایس سی کے ذریعہ ہونے والے ان امتحانات کے بارے میں ایک حلقہ سوشل میڈیا پر سوالات اٹھا رہا ہے۔

’یو پی ایس سی جہاد‘ ہیش ٹیگ کے ساتھ بہت سارے ٹویٹس ایک طویل عرصے سے ٹرینڈ کر رہے ہیں جس میں مسلم امیدواروں کے لیے مختلف معیار کی بات کی جا رہی ہے۔

ان میں سے کچھ ٹوئٹس اس طرح ہیں: ’یو پی ایس سی میں ہندوؤں کے لیے 6 مواقع ہیں تو مسلمانوں کے لیے نو مواقع ہیں، ہندوؤں کی زیادہ سے زیادہ عمر 32 سال جبکہ مسلمانوں کے لیے 35 سال ہے۔‘

اس کے علاوہ ان ٹویٹس میں اردو میڈیم میں دیے جانے والے امتحانات میں کامیابی کی شرح اور مسلمانوں کے لیے کوچنگ سینٹر وغیرہ پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

اس سے قبل سوشل میڈیا میں یو پی ایس سی امتحان میں ’اسلامک سٹڈیز‘ کا ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کرتا رہا۔

سوشل میڈیا پر یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ ’اسلامک سٹڈیز مضمون کے ذریعے مسلمان آئی اے ایس، آئی پی ایس اور آئی ایف ایس بن رہے ہیں جبکہ یو پی ایس سی میں ویدک یا ہندو سٹڈیز جیسا کوئی مضمون نہیں۔‘

سوشل میڈیا پر کیے جانے والے ان دعوؤں کی بی بی سی ہندی کی فیکٹ چیک ٹیم نے کی تحقیقات کی ہیں۔ آئیے معلوم کریں کہ یو پی ایس سی کے سول سروسز امتحان کے معیار کیا ہیں۔

یو پی ایس سی

یو پی ایس سی کس اہلیت کا مطالبہ کرتا ہے؟

رواں سال 12 فروری کو یو پی ایس سی نے سول سروسز کے ابتدائی امتحان کے لیے ایک نوٹس جاری کیا جس میں اہلیت، عمر، ریزرویشن اور امتحانات کے مضامین وغیرہ کے بارے میں معلومات دی تھیں۔

کون امیدوار آئی اے ایس، آئی ایف ایس یا آئی پی ایس بن سکتا ہے؟ اس سوال پر نوٹس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ انڈیا کا شہری ہونا ضروری ہے نہ کہ کسی خاص مذہب، ذات یا مسلک کا۔

اس کے بعد عمر کے سوال کا جائزہ لیتے ہیں۔ یو پی ایس سی نے سول سروسز امتحان کے لیے واضح طور پر بتایا ہے کہ اس کے لیے کم سے کم عمر 21 سال جبکہ زیادہ سے زیادہ 32 سال ہے لیکن اس میں صرف شیڈول ذات (ایس سی)، شیڈول ٹرائب (ایس ٹی)، زیادہ پسماندہ ذات (او بی سی)، جسمانی طور پر معذور اور سابق فوجیوں کے لیے عمر میں نرمی ہے۔

ایس سی اور ایس ٹی برادری کے لیے زیادہ سے زیادہ عمر 37 سال ہے، او بی سی برادری کے لیے زیادہ سے زیادہ عمر 36 سال اور جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے 42 سال ہے۔ اس کے علاوہ سول سروسز کے امتحان تک آپ کا گریجویٹ ہونا لازمی ہے۔

اس میں کہیں بھی مسلمان یا کسی دوسرے مذہب کا کوئی ذکر نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمر کا پیمانہ معاشرے پر مبنی ہے نہ کہ مذہب کی بنیاد پر۔

مسلمانوں کو زیادہ مواقع ملتے ہیں؟

سوشل میڈیا پر یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ یو پی ایس سی امتحان میں مسلمانوں کو نو مواقع حاصل ہیں۔

اس دعوے کو درست ماننے سے پہلے یو پی ایس یس کے نوٹس پڑھیں جس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ امیدواروں کے اس میں شرکت کے زیادہ سے زیادہ چھ مواقع ہیں جبکہ ایس سی، ایس ٹی برادریوں اور جسمانی طور پر معذور امیدواروں کے لیے امتحان دینے کی کوئی حد نہیں۔

اس کے علاوہ او بی سی برادری سے آنے والے امیدوار یہ امتحان زیادہ سے زیادہ نو بار دے سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یو پی ایس سی کسی بھی مذہب کی بنیاد پر موقع نہیں دے رہی اور صرف 9 مرتبہ مسلمانوں کو امتحان دینے کا دعویٰ غلط ہے۔

مسلم طالبہ

اس کے علاوہ سول سروسز کے امتحان کے 26 اختیاری مضامین میں اسلامک سٹڈیز نام کا کوئی مضمون نہیں۔ بھوپال میں سول سروسز کی کوچنگ کرنے والے لکشمی شرن مشرا کا کہنا ہے کہ اسلامی سٹڈیز کے مضمون والی بات مکمل طور پر غلط ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’یو پی ایس سی میں کوئی اسلامی سٹڈیز کا مضمون نہیں۔ اردو ادب کے مضمون میں ادب سے متعلق سوالات ہیں نہ کہ مسلمانوں سے متعلق۔ آپ کو حیرت ہو گی جب آپ یہ دیکھیں گے کہ ان دنوں تاریخ میں مغل عہد سے متعلق سوالات نہیں پوچھے جاتے ہیں۔ آج مسلمانوں کی تاریخ سے ہی سوال نہیں پوچھا جا رہا اور کہا جارہا ہے کہ یہ سب پڑھ کر مسلمانوں کا انتخاب ہو رہا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر انٹرویو میں مسلمانوں کو زیادہ نمبر (مارکس) دینے کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے۔ اس پر لکشمی شرن مشرا کا کہنا ہے کہ ’ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ کسی مسلمان نے انٹرویو بورڈ کی سربراہی کی ہو۔ بورڈ کے تمام ممبروں کے پاس مساوی نمبر ہیں۔ انٹرویو میں 275 نمبر ہوتے ہیں جبکہ سارا سلیکشن مین امتحانات کے نمبروں پر مبنی ہوتا ہے۔ جس کے کل نمبر 1750 ہیں۔‘

اردو میڈیم سے فائدہ مل رہا ہے؟

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے دعوؤں میں ایک دعویٰ یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ مسلم امیدوار اردو ادب اور اردو میڈیم کی بدولت سول سروسز میں زیادہ آ رہے ہیں۔

اردو میڈیم کے بارے میں بات کی جائے تو سنہ 2019 کے 94 ویں فاؤنڈیشن کورس میں لال بہادر شاستری انتظامیہ اکیڈمی میں 326 ٹرینی آئی اے ایس تھے۔

اگر آپ ان ٹرینی آئی اے ایس کے سول سروس میں میڈیم کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان میں سے 315 کا انگریزی میڈیم تھا، ہندی میں آٹھ اور گجراتی، کننڑ اور مراٹھی میڈیم سے ایک ایک طلبہ تھے یعنی اس میں اردو میڈیم کا کوئی آئی اے ایس نہیں تھا۔

اسی طرح ہم نے سنہ 2018، 2017 اور 2016 کے تربیتی کورسز کا میڈیم دیکھا جس میں سے کوئی بھی اردو میڈیم سے نہیں آیا تھا۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر اردو ادب کی بدولت کامیابی حاصل کرنے کے بارے میں بھی بات کی جارہی ہے۔

انڈین آئین کے آٹھویں شیڈول میں شامل 22 زبانوں کو سول سروسز کے مین امتحان میں اختیاری مضامین کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔

یو پی ایس سی نے ایک اعداد و شمار جاری کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کتنے لوگوں نے مرکزی امتحان میں کس زبان کے ادب کو اختیاری مضمون کے طور اپنایا ہے۔

سنہ 2017 میں جہاں 265 افراد نے ہندی ادب کا انتخاب کیا وہیں 114 افراد نے کننڑ، 111 نے ملیالم اور 106 نے تمل ادب کا انتخاب کیا۔ جہاں تک اردو کا سوال ہے تو صرف 26 امیدواروں نے اس کو بطور مضمون منتخب کیا۔ سنہ 2018 میں صرف 16 امیدوار تھے جنھوں نے اردو ادب کو اختیاری مضمون کے طور پر منتخب کیا۔

زبان ادب کے موضوع پر لکشمی شرن مشرا کا کہنا ہے کہ ’طلباء بہت سارے پیرامیٹرز کو مدنظر رکھتے ہوئے زبان و ادب کے اختیاری مضمون کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کی شروعات پالی زبان سے ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پالی کا نصاب مختصر تھا اور اس کے جاننے والے کم تھے۔ اس کے بعد جنوبی انڈیا کے طلبا کی وجہ سے سول سروسز کے امتحان میں جنوبی انڈین زبانوں کا غلبہ بڑھ گیا۔ کننڑ زبان و ادب کے طلبا کو بہت زیادہ فوائد ملے جبکہ سنسکرت زبان و ادب کے طلبا نے پچھلی دہائی میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔‘

’ان دنوں اردو اور سندھی ادب تیزی سے ابھرنے والے مضامین ہیں لیکن اس کا انتخاب کرنے والے طلبا بہت کم ہیں اور وہی اس کا انتخاب کرتے ہیں جنھیں یقین ہے کہ وہ آرام سے اس مضمون میں امتحان پاس کر لیں گے۔ جو مسلمان ان امتحانات میں کامیاب ہو رہے ان میں سے 80 فیصد اردو کو اختیاری مضمون کے طور پر منتخب نہیں کرتے ہیں۔‘

اردو ادب کی کامیابی کی شرح کیوں زیادہ نظر آتی ہے؟ اس سوال پر لکشمی شرن مشرا کا کہنا ہے کہ ’فرض کیجیے کہ پولیٹیکل سائنس کا انتخاب دس ہزار طلبا کر رہے ہیں لیکن ان میں سے صرف چند طلبا کامیاب ہو رہے ہیں جبکہ اردو کو کم ہی لوگ اختیار کرتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر پاس ہو رہے ہیں تو اس کی کامیابی کی شرح تو زیادہ ںظر آئے گی ہی۔‘

انابت خالق اور رینا جمیل
،تصویر کا کیپشنرینا جمیل اور انابت خالق نے مسلم لڑکیوں میں تعلیمی بیداری کا ذکر کیا

آئیے لکشمی شرن مشرا کی بات کو اس طرح سے سمجھتے ہیں۔ سنہ 2017 میں ہندی زبان و ادب میں 265 امیدواروں نے امتحان دیا اور 19 پاس ہوئے جبکہ اردو میں 26 امیدواروں نے امتحان دیا اور صرف پانچ پاس ہوئے۔

اس طرح یہاں ہندی ادب کی کامیابی کی شرح 7.1 فیصد ہوئی جبکہ اردو ادب کی کامیابی کی شرح 19.2 فیصد ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اعداد و شمار کو توڑ موڑ کر عوام کو الجھایا جارہا ہے۔

صرف مسلمانوں کو مفت کوچنگ حاصل ہے؟

سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ حکومت مسلمانوں کو سول سروسز امتحان کے لیے مفت کوچنگ فراہم کر رہی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔

سوشل جسٹس اینڈ ایمپاورمنٹ، وزارت اقلیتی امور سمیت کئی دوسری وزارتیں ہیں جو سول سروسز امتحان کی تیاری کرانے والی متعدد کوچنگ سکیموں کو فنڈ فراہم کرتی ہیں اور کوچنگ بھی مہیا کراتی ہیں اور یہ مسلمانوں کے بجائے خواتین، اقلیتوں، ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی برادری کے لیے ہوتی ہیں۔

حال ہی میں سوشل جسٹس اینڈ ایمپاورمنٹ نے ایس سی اور او بی سی طلبہ کو اپنی پسند کے کوچنگ انسٹیٹیوٹ میں کوچنگ کے لیے ایک سکیم شروع کی جس میں کوچنگ کے ساتھ سکالرشپ بھی دی جائیں گی۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی، جامعہ ہمدرد یونیورسٹی اور زکوۃ فاؤنڈیشن جیسی متعدد غیر سرکاری تنظیمیں سول سروسز امتحان کی تیاری کراتی ہیں۔ یہ سب اقلیتوں، خواتین، معاشی طور پر پسماندہ، ایس سی اور ایس ٹی طلبا کے لیے کوچنگ فراہم کراتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف یہی تنظیمیں ہیں جو مسلم لوگوں سے وابستہ سول سروسز امتحان کی کوچنگ چلارہی ہیں؟

لکشمی شرن مشرا کا کہنا ہے کہ اس بار سول سروسز کے نتائج میں جین برادری کے اچھے خاصے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، تو کیا یہ کہنا چاہیے کہ یو پی ایس سی جین مت کی حمایت کررہا ہے۔

’جین انٹرنیشنل ٹریڈ آرگنائزیشن‘ جین مت کی ایک تنظیم ہے۔ اس کے پاس ایک ہزار کروڑ روپے کا فنڈ ہے۔ اس فنڈ کے تحت اس تنظیم نے جے پور، اندور، دہلی، چینئی میں رہائشی کوچنگ سینٹرز کھولے ہیں جہاں جین برادری کے بچوں کو تین سے چار سال تک مفت کوچنگ دی جاتی ہے۔ مدھیہ پردیش کے پی ایس سی میں جین مذہب کے امیدواروں کا انتخاب اچھا ہے اور ان کی کامیابی کی شرح 20-25 فیصد ہے۔‘

’ہر برادری اور ریاست یہ چاہتی ہے کہ ان کے لوگ سول سروسز میں پہنچیں۔ جب گجرات میں نریندر مودی وزیراعلی تھے تو سردار پٹیل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن نے سول سروسز امتحان کی کوچنگ شروع کی تاکہ گجراتی شہری زیادہ سے زیادہ سول سروسز میں پہنچ سکیں۔ مہاراشٹر میں مہاراشٹر نو نرمان سینا نے بلاک سطح پر کوچنگ شروع کی۔ آر ایس ایس کی سنکلپ سنستھا کے بارے میں سب جانتے ہیں جو ان امتحانات کی تیاری کراتا ہے۔ ہر مذہب، ہر ذات، ہر برادری سول سروسز میں اپنی نمائندگی بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔!

حقیقت یہ ہے کہ یو پی ایس سی یعنی سول سروسز امتحانات میں مسلمانوں کی کامیابی کی شرح انتہائی کم رہی ہے۔ سنہ 2019 کے امتحانات میں کامیاب ہونے والے کل 829 میں سے 42 مسلم امیدوار ہیں جو کہ کل تعداد کا صرف پانچ فیصد ہیں جبکہ ملک میں مسلم آبادی تقریبا 15 فیصد ہے۔

سنہ 2018 میں صرف 28 مسلم امیدواروں نے اس میں کامیابی حاصل کی تھی جبکہ سنہ 2016 اور 2017 میں 50-50 امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔

بی بی سی ہندی کی فیکٹ چیک ٹیم نے اپنی جانچ میں یہ پایا کہ سروسز امتحانات میں مسلمانوں کو خصوصی چھوٹ دیے جانے کے دعوے سراسر غلط ہیں۔