عمر عزیز کے 35برس پارلیمانی رپورٹنگ کی نذر کئے ہیں۔آج بھی اس کی بابت The Nationکے لئے پریس گیلری والا کالم لکھتا رہتا ہوں۔ ان تمام برسوںمیں ’’ہمارے نمائندوں‘‘ کو میں نے ہمیشہ پولیس کے بارے میں غیر مطمئن ہی پایا۔ امن وامان سے متعلق کہیں کوئی گھنائونا واقعہ رونما ہوجاتا تو اس کے حوالے سے پارلیمان میں ہوئی دھواں دھار تقاریر اس شہر کی پولیس کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتیں۔اس کے افسروں کے خلاف انتظامی کارروائی کا مطالبہ ہوتا۔
اپنے تجربے کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ لاہور پولیس کے حال ہی میں تعینات ہوئے کماندار جناب عمر شیخ صاحب نے ’’تاریخ‘‘ بنادی ہے۔ہماری پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ حکومتی پارٹی کے بہت ہی تگڑے اور سنجیدہ نمائندگان یکسوہوکر قومی اسمبلی اور سینٹ میں ان کا دفاع کرتے رہے۔ اصرار ہورہا ہے کہ وہ ایک فرض شناس اور انتہائی ایماندار افسر ہیں۔مسلم لیگ (نون) میں موجود ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو مگر ان کی ’’تخت لہور‘‘ میں تعیناتی ہرگزنہیں بھائی ہے۔انہیں خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ عمر شیخ صاحب کے ہوتے ہوئے نیب نے اب محترمہ مریم نواز شریف کو چند قیمتی زمینوں کی خریداری کے تناظر میں ’’رسیدیںدکھانے‘‘ کو طلب کیا تو وہ اپنے حامیوں کے لائولشکر سمیت اس ادارے پر ’’حملہ آور‘‘ ہونے کی جرأت نہیں دِکھاپائیں گی۔ ’’شریف خاندان کے ذہنی غلام‘‘ لہذا عمر شیخ صاحب کو ’’بدنام‘‘ کرنے کے بہانے ڈھونڈرہے ہیں۔صحافیوں میں شامل ’’لفافے‘‘ بھی اس تناظر میں سرکاری ریکارڈ سے ایک ’’خفیہ رپورٹ‘‘ دریافت کرچکے ہیں۔ اسے میڈیا پر اچھالا جارہا ہے۔عمر شیخ صاحب کے خلاف برپا یہ سازشیں مگر ناکام رہیں گی۔وہ لاہور پولیس کو ہر صورت ’’سیدھا‘‘ کردیں گے۔یہ سیدھی ہوگئی تو لاہور سے جرائم کا خاتمہ ہوجائے گا۔یہ مختلف النوع ’’مافیاز‘‘ کے سامنے بے بس نظر نہیں آئے گی۔قومی اسمبلی اور سینٹ میں جس شدومدسے عمر شیخ صاحب کا دفاع ہوا وہ پولیس کے دیگر افسروں کو دل وجان سے ان کی پیروی کو مجبور کردے گا۔انہیں سمجھ آگئی ہوگی کہ ’’نیا پاکستان‘‘ کے حکمرانوں کے دل کیسے جیتے جاسکتے ہیں۔’’پیاکو بھانے‘‘ کے لئے عمر شیخ صاحب کی صورت انہیں ایک تگڑاماڈل مل گیا ہے۔عمر شیخ صاحب سے غالباََ میری گزشتہ برس ایک سرسری ملاقات ہوئی تھی۔سرکاری افسروں کا ایک بے تکلف کھانا تھا۔ وہاں ایک مہربان دوست اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔ان سے تعارف ہوا۔ باتوں باتوں میں علم یہ بھی ہوا کہ ان کا تعلق رحیم یار خان سے ہے۔اس شہر کا ذکر ہو تو مجھے کئی سیاسی دوست یاد آجاتے ہیں۔ان کا تذکرہ کرتے ہوئے عبدالستار لالیکا مرحوم پر توجہ مبذول ہوگئی۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ شیخ صاحب نے پنجاب کے مختلف اضلاع میں بحیثیت پولیس افسر کیا کارنامے سرنجام دئیے ہیں۔ان کی شہرت پر اگر کوئی داغ ہیں تو ان کے بارے میں بھی قطعاََ لاعلم ہوں۔حقائق تک رسائی کے بعد نیک نیتی سے مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ ایک بہت ہی ایمان دار اور فرض شناس افسر ہوں گے۔محض صحافی کی حیثیت میں البتہ اس امر پر غور کرنے کو مجبور ہوں کہ اگر وہ واقعتا ایک معجزہ ساز افسر ہیں تو پنجاب کے آئی جی شعیب دستگیر کو ان کی تعیناتی پر اعتراض کیوں ہوا۔عمران حکومت کے دعویٰ پر یقین کریں تو شعیب دستگیر بھی ایک ’’فرض شناس‘‘ افسر تھے۔ سوشل میڈیا پر ان دنوں ایک ویڈیو کلپ بھی چل رہی ہے جس میں عمران خان صاحب ایک تقریب میں موصوف کو جرائم پیشہ افراد کی بھرپور سرکوبی کی وجہ سے خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔ایسا افسر عمر شیخ صاحب جیسے معاون کی ہمہ وقت تلاش میں رہتا ہے۔شعیب دستگیر کو لہذا عمر شیخ صاحب کی لاہور تعیناتی کی بابت اس حد تک چیں بہ جبیں نہیں ہونا چاہیے تھا کہ آئی جی کے منصب ہی سے فارغ ہوجاتے۔مبینہ طورپر شریف خاندان سے ’’لفافے‘‘ لینے کے عادی صحافی عمرشیخ صاحب کو ’’بدنام‘‘ کرنے والی جس ’’خفیہ رپورٹ‘‘ کو منظرعام پر لائے ہیں وہ کسی ’’چورلٹیرے‘‘ سیاست دان نے تیار نہیں کی تھی۔ ابھی تک اس دعوے کی تردید نہیں ہوئی کہ مذکورہ رپورٹ انٹیلی جنس بیورو نے تیار کی تھی۔ اس رپورٹ کی بدولت ہی شیخ صاحب کو اگلے گریڈ میں ترقی نہ مل پائی۔ آئینی اعتبار سے وزیر اعظم ہمارے ملک کا ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ ہوتا ہے۔اس حوالے سے انہیں یہ حق ہے کہ ’’خفیہ اداروں‘‘ کی جانب سے کسی شخص یا افسر کی بابت تیار ہوئی رپورٹ کو ’’سنی سنائی‘‘ تصور کرتے ہوئے نظرانداز کردیں۔ عمران خان صاحب مگر اپنے طاقت ور ترین وزرائ،مصاحبین اور مشیروں کی بابت آئی بی (IB)کی تیار کردہ رپورٹوں کو نظرانداز کرنے کے عادی نہیں۔ٹی وی سکرینوں پر پھنے خان نظرآتے کئی وزیر صحافیوں کی بے تکلف محفلوں میں خوف کی نشان دہی کرتی خاموشی سے بیٹھے رہتے ہیں۔انہیں کوئی بات کرنے کو اُکسائو تو سرگوشی میں اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی ہرگفتگو وزیر اعظم کو رپورٹ ہوجاتی ہے۔آئی بی(IB) کی اس ’’دہشت‘‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس ادارے کی جانب سے عمر شیخ کے بار ے میں تیار ہوئی رپورٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے لاہور تعیناتی کا فیصلہ مجھ جیسے صحافی کو اسی باعث بہت کچھ سوچنے کو مجبور کردیتا ہے۔لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ایک خاتون کے ساتھ ہوئی درندگی کے فوری بعد عمر شیخ صاحب نے ٹی وی کیمروں کے سامنے جوکلمات ادا کئے تھے انہوں نے ذاتی طورپر مجھے بھی بہت پریشان کیا۔یہ واقعہ شیخ صاحب کے چارج لینے کے چند ہی گھنٹے بعد ہوا تھا۔ان کے لئے مناسب تو یہی تھا کہ فقط یہ بیان کرتے کہ میرا چارج سنبھالیتے ہی یہ واقعہ رونما ہوا ہے۔میں اسے چیلنج کے طورپر لیتے ہوئے اس کے ذمہ دار افراد کو جلد از جلد گرفتار کرتے ہوئے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کروں گا۔مذکورہ بالا رویہ اختیار کرنے کے بجائے عمر شیخ صاحب نے بے حس ’’تفتیشی‘‘ کی طرح ایسے سوالات اٹھادئیے جو ہر حوالے سے درندگی کا نشانہ بنی خاتون کو اپنے ساتھ ہوئی وحشت کا ذمہ دار ٹھہرارہے تھے۔تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت نے جس میں مرد ہی نہیں بے پناہ خواتین بھی شامل ہیں مذکورہ واقعہ کی بدولت ایسے ہی سوالات اٹھائے ہوں گے۔کسی اور کی بات کیوں کروں۔ میری بیوی کو اکثر اپنے کام کے سلسلے میں اسلام آباد سے باہرجانا ہوتا ہے۔وہ اپنے کام سے فارغ ہوتے ہی گھر لوٹنے کو ترجیح دیتی ہے۔بارہاایسا ہواکہ شام ڈھلنے کے بعد اس نے لاہور سے موٹروے کے ذریعے اسلام آباد آنے کی ٹھانی تو میں اسے قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ صبح تک انتظار کرلے۔میری بات اس نے کبھی نہیں مانی۔موٹروے سے سفر کو ہمیشہ محفوظ سمجھا۔عمر شیخ صاحب کے کلمات سننے کے بعد مگراُس نے ازخودشرمندگی سے اعتراف کیا کہ شاید میں درست مشورہ دیتا رہا ہوں۔منگل کا دن اتفاق سے اس نے اپنے کام کے سلسلے میں لاہور میں گزارا۔وہ شام 5:30بجے فارغ ہوگئی تھی۔اسلام آباد لوٹنے کے بجائے مگر رات گزارنے وہیں رک گئی۔اس ذاتی واقعہ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عمر شیخ صاحب کے اداکردہ کلمات نے ہماری پڑھی لکھی ان خواتین کو کیا ’’پیغام‘‘ دیا ہے جو سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو خوداعتمادی کے ساتھ بروئے کار لانے کو ڈٹی رہتی ہیں۔تحریک انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری ایسی خواتین کی سوچ سے بخوبی آگاہ ہیں۔میرے کسی زمانے میں بہت عزیز رہے فواد چودھری صاحب بھی اس تناظر میں بے خبر نہیں۔ان دونوں نے اپنے بیانات اورٹویٹر پیغامات کے ذریعے عمر شیخ صاحب کے اداکردہ کلمات سے Distanceاختیار کرتے ہوئے Damage Control کی کوشش کی۔یہ سوال مگر اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ کیا ان دونوں کا رویہ تحریک انصاف کے Operativeبیانیے کا حقیقی ترجمان ہے یا نہیں۔میں یہ کہنے کو مجبور ہوں کہ ہرگز نہیں۔پیر کی شام قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکروزیر اعظم کے تگڑے مشیر جناب شہزاد اکبر صاحب نے جس جارحانہ انداز میں عمر شیخ صاحب کا دفاع کیا وہ ہی اس حکومت کا ترجیحی بیانیہ ہے۔اسی بیانیے کو موراوور انداز میں منگل کے دن تحریک انصا ف کے ایک مؤثرسینیٹر جناب محسن عزیز صاحب نے گج وج کر دہرایا۔بنیادی پیغام یہ دیا جارہا ہے کہ فقط ’’منی لانڈرنگ‘‘ کے مبینہ طورپر عادی شریف خاندان کے ’’ذہنی غلام‘‘ اور صحافت میں موجود ان کے ’’پالتو لفافے‘‘ ہی عمر شیخ صاحب کے انداز بیان پر چراغ پا ہیں۔اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم کو عیاں کرتی ایک اور ٹھوس مثال رونما ہوگئی ہے۔محض حقائق پر نگاہ رکھنے کے بجائے آپ انہیں اب اپنے دلوں میں موجود تعصب یا سیاسی وابستگی کی عینک سے دیکھتے ہیں۔اسی باعث پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں Alternative Factsکا تذکرہ ہورہا ہے اور علم سماجیات کے ماہرین اس دکھ میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ ہم Post Truthیا مابعدازحقائق دور میں زندہ رہ رہے ہیں۔