صلاح الدین ایوبی اور دریائے نیل: شمالی افریقہ کی شہ رگ جس میں پانی آنے کا جشن مصر کے پہلے سلطان کی نگرانی میں منایا جاتا تھا
سنہ 1181 ہے اور ماہ ستمبر کا ایک دن۔ قاہرہ کو پانی فراہم کرنے والی نہر ابو مناجہ کا بند توڑنے کا وقت قریب آ رہا تھا اور شہر کے باسی بیتابی سے اس لمحے کا انتظار کر رہے تھے جب دریاِئے نیل کا ٹھاٹھیں مارتا پانی اس نہر میں داخل ہونا تھا۔
نہر کے ایک کنارے پر قاری تکبیر پڑھ رہے تھے اور دوسرے کنارے پر نقارے بج رہے تھے۔
مصر اور قاہرہ کے سالانہ کیلنڈر کے اِس اہم ترین دن ملک کے حکمران سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ دریاِئے نیل اور اِس نہر کے سنگم پر موجود تھے۔
اس بار ان کا سامنا کسی فوج سے نہیں بلکہ قدرت سے تھا۔ مصر، قاہرہ اور ان تمام ممالک اور خطوں کے لوگ، جن کا انحصار کسی نہ کسی طرح دریائے نیل کے پانی پر تھا، صدیوں سے ہر سال اگست اور ستمبر کے ان دنوں کا انتظار کرتے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس سال دریائے نیل میں کتنا پانی آئے گا۔
مؤرخ جانتھن فلپس نے اپنی کتاب ’دی لائف اینڈ لیجنڈ آف دی سلطان صلاح الدین‘ میں دریاِئے نیل میں پانی آنے سے متعلق تقریبات کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جب سُنی مسلمان صلاح الدین ایوبی مصر کی اسماعیلی شیعہ فاطمی خلافت کے وزیر اور پھر اس کی دو سو سالہ خلافت کے اختتام کے بعد خود حکمران بنے تو انھوں نے بہت کچھ تبدیل کیا۔
لیکن ایک چیز جو قائم رہی وہ دریائے نیل پر ہونے والی سالانہ تقریبات تھیں۔
ستمبر سنہ 1181 میں بھی فاطمی دور کی زبردست رسومات کی تصاویر دیکھی گئیں جب بروکیڈ اور لینن زیب تن کیے اہلکار بڑی تعداد میں سلطان کے ساتھ حاضر تھے۔ شرکا میں قرآن کے قاری، اُمرا، سپاہی، اہلکار اور عام حاضرین بڑے ہجوم کی صورت میں موجود تھے۔ اس موقع پر خاص طور پر تیار کیے گئے خیمے میں تعظیمات کا انتہائی تفصیلی سلسلہ مکمل کیا گیا۔
فلپس لکھتے ہیں کہ اتنی اعلیٰ اور پُرتعیش تقریب اور پھر ضیافتوں کا سلسلہ صلاح الدین کے لیے غیر مانوس بات لگتی ہے لیکن ہمیں یہ بات دھیان میں رکھنی چاہیے کہ وہ بڑے پیمانے کی تقریبات کو ناپسند نہیں کرتے تھے جیسا کہ ان کے ایک کزن کے بیٹوں کے ختنے کی تقریب سے ثابت ہوتا ہے، جس میں 700 بھیڑیں ذبح اور 80 قنطار مٹھائی تیار کی گئی تھی۔
ابو مناجہ نہر کا بند کھولے جانے کے موقع پر کدالیں اٹھائے لوگوں نے ان کی طرف سے اشارہ ملتے ہی نہر اور دریا کو الگ کرنے والے بند کو گرانا شروع کیا۔
وہ لکھتے ہیں کہ جدید زمانے میں پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے والے نظام (سنہ 1820 کا آبی نظام اور پھر سنہ 1964 میں اسوان ڈیم) سے پہلے یہ سیلاب ہی مصر کے دل کی دھڑکن تھی۔
فاطمی دور میں اقتدار اپنی مختلف جہتوں میں انتہائی تفصیلی عوامی تقریبات کا روپ دھار چکا تھا۔ صلاح الدین نے مصر کا انتظام سنبھالنے کے بعد ان تقریبات کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور یہ پرواہ نہیں کی کہ ان رسومات پر گذشتہ حکومت کی چھاپ لگی ہوئی تھی۔ خاص طور پر دریائے نیل سے وابستہ تقریبات قاہرہ اور مصر کی زندگی کا لازمی حصہ تھیں۔
فلپس نے بتایا کہ قاہرہ جانے والے سیاح 18ویں صدی تک دریائے نیل کے سیلاب سے وابستہ تقریبات کا ذکر کرتے رہے۔ ان میں سے دو آنکھوں دیکھے احوال کا ذکر آگے چل کر جن میں ایک طرف ان تقاریب کی شان و شوکت دیکھیں گے اور دوسری طرف مصر کے وہ انتہائی تکلیف دہ مناظر جب دریائے نیل میں پانی نہیں آتا تھا اور ’بھوکے انسان، انسان کا شکار کرتے نظر آتے تھے۔‘
فرعون اور دریاِئے نیل کے جشن کا سلسلہ
دریائے نیل کے سیلاب کا آغاز جون کے وسط میں ایتھوپیا اور وسطی افریقہ کی جھیلوں کے علاقے میں بارشوں سے ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ پانی کی سطح بلند ہوتی رہتی ہے اور اگست کے آخر یا ستمبر کے شروع میں انتہائی سطح تک پہنچ جاتی ہے اور پھر اکتوبر اور نومبر میں نیچے جانا شروع ہوتی ہے۔
فلپس لکھتے ہیں کہ پانی کے بہاؤ کا باقاعدہ ریکارڈ بہت ضروری تھا اور اس کا حل ’نائلو میٹر‘ کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ فسطاط اور گیزا کے بیچ میں دریائے نیل کے جزیرہ الروضہ کی سب سے مشہور نشانی یہی تھی۔
خاص طور پر بنائی گئی عمارت میں تعمیر کیا گیا ڈھانچہ دراصل پانی کی سطح ناپنے والی ایک بہت بڑی چھڑی جیسا تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ اس کا اصل مقصد یہ بتانا تھا کہ دریا میں پانی ضروری سطح تک پہنچ گیا یا نہیں۔ پانی کی سطح ضمانت تھی کہ مصر کے لیے یہ سال کیسا رہے گا اور اس برس فصل کیسی ہو گی۔
حکمران انہی معلومات کی بنیاد پر ٹیکس کا تخمینہ لگاتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ 12ویں صدی کے مؤرخ المخزومی نے سنہ 1169-1170 کی اپنی تحریروں میں اس حساب کتاب کا تفصیلی ریکارڈ چھوڑا ہے۔
نائلومیٹر سے پانی کی سطح کی پیمائش دراصل نہروں کو کھولنے کا بھی اشارہ ہوتا تھا۔ ان نہروں میں پانی ایک ترتیب سے جاری کیا جاتا تھا۔
اس موقع کی اہمیت کے پیش نظر صدیوں سے بہت سی رسومات وجود پا چکی تھیں۔ ان رسومات کا سلسلہ فرعونوں کے زمانے تک ملتا ہے لیکن تقریباً دو سو سال قائم رہنے والی اسماعیلی شیعہ فاطمی خلافت ان رسومات کی شان اور شوکت کو ایک نئی سطح پر لے گئی۔
نائلومیٹر کی تاریخ
نائلومیٹر کا معائنہ کرنے والے اہلکار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مؤرخ عماد الدین نے سلطان صلاح الدین کی سوانح میں اس دور میں نائلومیٹر کے ذمہ دار اہلکار کی موت کا بھی ذکر کیا۔
فلپس اس دور کے مؤرخ عماد الدین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’نائلومیٹر کے مقام کا تعین سنہ 861 میں عباسی دور میں ہوا تھا تاکہ پانی کے اتار اور چڑھاؤ کے بارے میں معلوم کیا جا سکے۔ عبدالسلام ابن ابی الرداد اپنی سچائی اور علم کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ انھیں سیلاب کے موسم میں امرا کی خلعت بھی انعام میں مل چکی تھی اور جب (1179 کے آغاز میں) شعبان میں ان کا انتقال ہوا تو سلطان نے ان کے بھائی کو ان کی جگہ تعینات کر دیا۔‘
سنہ 1181 میں اگست کے مہینے میں سلطان صلاح الدین نائلومیٹر سے پانی کے بہاؤ کی پیمائش کے موقع پر خود موجود تھے۔ اندازہ تو سب ہی لگا لیتے تھے لیکن پانی کی سطح کے بارے میں حتمی فیصلہ ماہر اہلکار کا ہی ہوتا تھا۔
دریا کے پانی کی سطح ’سرکاری راز‘
فلپس بتاتے ہیں کہ اس زمانے کی ایک دستاویز کے مطابق پیمائش کا نتیجہ خفیہ رکھا جاتا تھا اور وزیر سے پہلے کسی کو معلوم نھیں ہو سکتا تھا۔ اس زمانے کے پیمانے کے مطابق 16 کیوبٹ کا بہاؤ بہترین سمجھا جاتا تھا، 20 کیوبٹ خطرناک سیلاب کی خبر دیتا تھا اور اگر پانی کی سطح کم ہوتی جیسا کہ سنہ 1179 میں ہوا تو اس کا نتیجہ زرعی پیداوار میں کمی کی صورت میں سامنے آتا تھا اور تجارتی بحری جہازوں کے لیے قاہرہ کا سفر بھی مشکل ہو جاتا تھا۔
فاطمی دور کے خلفا خود ان تقاریب کی قیادت کرتے تھے اور اس دور کی تحریروں میں ان تقاریب کا تفصیلی احوال محفوظ ہے۔ صلاح الدین نے بھی بحیثیت وزیر فاطمی خلیفہ کے ساتھ یہ تقریب دیکھی تھی۔ انھوں نے اس موقع پر نکلنے والے جلوس اور رسومات کے بارے میں تفصیلی ہدایت نامہ بھی طلب کروایا تھا۔
فاطمی دور کے جشن کی شان و شوکت اور قرآن خوانی
تقاریب کا اعلان ہوتے ہی قاہرہ میں جشن شروع ہو جاتا تھا جس میں ہر طرف مٹھائیاں بٹتی اور موم بتیاں جلائی جاتی تھیں۔
فلپس بتاتے ہیں کہ اس دور کا ایک آنکھوں دیکھا حال المقرضی کی تحریروں میں بھی ملتا ہے۔ سنہ 1181 میں انھوں نے لکھا کہ سلطان صلاح الدین گھوڑے پر نائلو میٹر تک گئے۔ پانی کی سطح کا اعلان ہونے پر انھوں نے اس اہلکار کو فاطمی روایت کے مطابق شاہی خلعت سے نوازا۔
اس اہلکار کا عہدہ بھی وہی تھا جو فاطمی خلفا کے دور میں ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ نویں صدی سے لے کر مصر میں عثمانی دور تک یہ عہدہ ایک ہی خاندان کے پاس تھا۔
فلپس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ روایت کے مطابق پانی کی سطح کی پیمائش سے ایک رات قبل مصر اور قاہرہ کی جامع مساجد میں قرآن خوانی کا اہتمام ہوتا تھا۔
مصر کی جامع مسجد میں سلطان کی دلچسپی اس مسجد کی بحالی کے کام سے لگائی جا سکتی ہے۔ اس مسجد کو دریا کے لیے اہم سمجھا جاتا تھا۔ دو برس قبل جب دریا میں پانی نہیں آیا تھا تو نائلومیٹر کی تہہ سے ایک قبر نمودار ہوئی تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت یوسف کی تھی جنھیں حضرت موسیٰ نے وہاں دفن کیا تھا۔
دریائے نیل کے پانی کو معطر کرنے کی رسم
فلپس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ دریائے نیل کے پانی کو معطر کرنے کی رسم کے دن شاہی محل سے ایک مرکزی جلوس نکلتا تھا۔ یہ جلوس شہر کے جنوبی دروازے سے ہوتا ہوا مسجد طولون کی طرف جاتا تھا۔
لوگوں کا یہ ہجوم شپ یارڈ کے پاس سے بل کھاتا ہوا سنیاروں کے بازار پہنچتا۔ اس سے آگے کسٹم ہاؤس تھا اور اس کے بعد جلوس ایک چھوٹے سے پویلین پر جا رکتا تھا۔ دریائے نیل کے کنارے یہ پویلین دراصل ’دار الملک‘ تھا۔
اس موقع پر بڑی تعداد میں غیر ملکی تاجروں کی موجودگی خلیفہ کے لیے باہر والوں کو اپنی شان و شوکت سے متاثر کرنے کا موقع فراہم کرتی تھی۔
دریا میں دور دور تک سینکڑوں کشتیاں
تقریب کے اگلے مرحلے میں خلیفہ اپنے چند مخصوص امرا کے ساتھ ہاتھی دانت سے سجے آبنوس کے پویلین والی اور سونے اور چاندی کی چادروں سے آراستہ ایک کشتی میں سوار ہو کر جزیرہ الروضہ کی طرف روانہ ہو جاتے تھے جہاں نائلومیٹر نصب تھا۔ یہ منظر دیکھنے کے لیے بیتاب سینکڑوں چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار لوگ دریا میں دور دور تک عجیب نظارہ پیش کرتے تھے۔
جزیرے پر خلیفہ اس کنویں کی طرف جاتے جس میں وہ ستون کھڑا تھا جسے نائلومیٹر کہا جاتا تھا۔
فلپس نے بتایا کہ خلیفہ کے کنویں پر پہنچنے پر خصوصی دعا ہوتی تھی۔ خلیفہ زعفران اور مشک سے بنا عطر ایک پیالے میں انڈیل کر ایک اہلکار کے حوالے کر دیتے تھے۔
اس کے بعد تقریب کا سب سے اہم مرحلہ ہوتا تھا ’جس کا تصور کرنا بہت مشکل ہے۔‘
قاریوں کی طرف سے قرآن کی قرات کے دوران، صرف پگڑی اور زیر جامے میں ملبوس اہلکار کنویں میں کود جاتا تھا۔ ٹانگوں اور بائیں ہاتھ کے سہارے وہ ستون سے لٹکتے ہوئے دائیں ہاتھ سے عطر کنویں میں انڈیل دیتا تھا۔ اس اہلکار کے کامیابی سے کنویں سے باہر آنے پر تقریب مکمل ہو جاتی تھی۔ اس اہلکار کو گھوڑوں، اعزازی خلعت اور دعوت سے نوازا جاتا تھا۔
امیر المومنین کی نہر
اس کے ساتھ نہروں کو پانی جاری کرنے کی سالانہ تقریب بھی منعقد کی جاتی تھی۔ سب سے پہلے قاہرہ کی مرکزی نہر یا ’امیر المومنین کی نہر‘ کے منھ کے آگے سے بند کاٹا جاتا تھا۔ اس کے بعد ابو مناجہ نامی اہم نہر کی باری آتی تھی۔ یہ سلسلہ ستمبر کے پورے مہینے جاری رہتا تھا جس میں سینکڑوں نہریں جاری کی جاتیں تھیں۔
اس عمل کے دوران نہروں کے منھ پر فروری کے مہینے میں جب پانی اپنی کم ترین سطح پر ہوتا تھا، کھڑے کیے گئے مٹی اور گھاس کے بند ختم کیے جاتے تھے۔ سب سے بڑا بند فسطاط میں تھا۔
فاطمی خلیفہ کے جلوس کی شان: ایران سے آئے ایک دانشور کا آنکھوں دیکھا بیان
ناصر خسرو (1004-1088) ایرانی دانشور تھے۔ انھیں عربی اور فارسی کے علاوہ ترکی، یونانی اور کچھ شمالی ہندوستانی زبانوں پر دسترس تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں عبرانی زبان بھی آتی تھی۔ وہ سنہ 1047 میں فاطمی خلیفہ الحکیم کے دور میں مصر آئے تھے۔
انھوں نے بیسویں صدی تک قاہرہ کی سب سے شاندار سمجھی جانے والی تقریب کا احوال اپنی تحریروں میں چھوڑا ہے۔
برطانوی مصنف ڈیسمنڈ سٹورٹ نے اپنی کتاب ’قاہرہ 5500 برس‘ میں ناصر خسرو کے حوالے سے لکھا کہ ہر سال گرمیوں کے موسم میں تمام نظریں دریائے نیل کے پانی کی سطح پر ہوتی تھیں۔
ناصر نے لکھا کہ ’پورے ملک میں مٹی کے بند دریا کے بلند ہوتے ہوئے پانی کو نہروں میں جانے سے روک کر رکھتے تھے۔ قاہرہ میں بھی ایک بند نے ایک خاص موقع کے انتظار میں شہر کی نہر میں پانی کو آنے سے روکا ہوا تھا۔ پھر قاہرہ سمیت ملک بھر میں سینکڑوں بند توڑ دیے گئے اور دریا کا پانی دور دور تک زمینوں کو سیراب کرنے لگا۔ قاہرہ کی خشک نہر پینے کے لیے صاف پانی سے بھر گئی۔‘
بند توڑنے کی رسم کے موقع پر خلیفہ کے لیے نہر پر سونے اور قیمتی موتیوں کے کام والے بازنطینی ساٹن کا شامیانہ لگایا گیا تھا جس کے اندر بھی اسی معیار کی تزئین و آرائش کی گئی تھی۔
جلوس میں سونے چاندی کی ریل پیل اور فاطمی خلیفہ کی سادگی
ناصر خسرو لکھتے ہیں کہ شامیانہ اتنا بڑا تھا کہ اس کے سائے میں ایک سو گھوڑے کھڑے ہو سکتے تھے۔
مصنف سٹورٹ کی کتاب میں ناصر خسرو کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس تقریب سے تین روز پہلے گھوڑوں کو شور شرابے کا عادی بنانے کے لیے اصطبل میں مسلسل بگل اور نقارے بجائے جاتے ہیں۔
خلیفہ کی سواری کی روانگی کے وقت اس کے جلوس میں سونے کی کاٹھیوں والے 10 ہزار گھوڑے تھے۔ گھوڑوں کی کاٹھیوں کے نیچے بازنطینی ساٹن بچھا تھا جو خاص طور پر اسی مقصد کے لیے تیار کیا گیا تھا اس لیے اسے نہ سینے کی ضرورت تھی نہ کاٹنے کی۔ ہر گھوڑے پر زرہ بکتر تھی۔
اس روز خلیفہ کے تمام سپاہی جن کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی وہاں حاضر ہوتے تھے۔ مصر میں مقیم غیر ملکی شہزادے بھی تقریب کا حصہ تھے۔ یہ شہزادے شمالی افریقہ، یمن، بازنطین، سلاو ممالک، نوبیا اور ایتھوپیا سے آتے تھے۔ ان میں سے کسی کا بھی وظیفہ 500 دینار سے کم نہیں تھا اور کچھ کو تو 2000 مغربی دینار ملتے تھے۔ ان شہزادوں کا اس کے سوا کوئی کام نھیں تھا کہ وہ وزیر کے سامنے حاضری دیں، سلامی پیش کریں اور اپنے ملکوں کو واپس لوٹ جائیں۔
تقریب میں شامل 10 ہزار گھوڑوں کی لگام پکڑنے کے لیے اتنے ہی لوگ تعینات تھے۔ ان سے آگے باجے، بگل اور نقارے بجانے والے چلتے تھے۔ ان سب کو اپنی خدمت کے عوض تین درہم دیے گئے۔
گھوڑوں اور سپاہیوں کے ہجوم کے پیچھے کافی فاصلے پر خلیفہ کی سواری تھی۔ ’بارعب اور خوش مزاج شخصیت کا مالک ایک نوجوان جیسا علی کے بیٹے حسین کے کسی وارث کو ہونا چاہیے۔‘
کتاب میں مزید لکھا ہے کہ منڈے ہوئے سر کے ساتھ وہ انتہائی سادگی سے اپنے گھوڑے پر سوار آگے بڑھ رہے تھے۔ ان کی رکاب اور کاٹھی پر سونے اور چاندی کا نام و نشان نہیں تھا اور انتہائی سادہ تھی۔
’انھوں نے عرب روایت کے مطابق سفید جُبہ پہنا ہوا تھا جس کی قیمت کم سے کم 10 ہزار دینار تھی۔ اس کے آگے چھوٹی چھوٹی کدالیں اٹھائے تین سو ایرانی چل رہے تھے۔ قافلے میں جلتی ہوئی امبر اور ایلو/ کوار گندل اٹھائے خواجہ سرا بھی شامل تھے۔‘
تاہم مؤرخ نذر السید نے اپنی کتاب ’قاہرہ: ایک شہر کی تواریخ‘ میں ناصر خسرو کے قاہرہ کی شان و شوکت کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ہے ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ انھوں نے اسماعیلی شیعہ مذہب اختیار کر لیا تھا اور وہ فاطمی خلافت کے مداح تھے اس لیے ان کی تحریروں میں مبالغہ آرائی کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
نہر بہنا شروع ہو گئی
’نہر کے منھ پر پہنچ کر خلیفہ نے ایک گھنٹہ شامیانے کے نیچے گزارا۔ پھر انھیں ایک کدال تھمائی گئی جو انھوں نے بند پر چلائی۔ یہ جیسے ایک اشارہ تھا اور وہاں جمع لوگ اپنے اپنے اوزاروں کے ساتھ بند پر ٹوٹ پڑے اور آہستہ آہستہ بند کمزور پڑ گیا اور دریا سے پانی نے ایک بار پھر نہر میں بہنا شروع کر دیا۔‘
سٹورٹ نے ناصر کے حوالے سے بتایا کہ نہر میں اترنے والی پہلی کشتی سننے اور بولنے کی قوت سے محروم افراد کی تھی کیونکہ کہا جاتا تھا کہ ایسا کرنا اچھا شگون ہوتا ہے۔ خلیفہ کی حکم پر ان لوگوں میں خیرات تقسیم کی گئی۔
ناصر لکھتے ہیں کہ قاہرہ اور مصر کی تمام آبادی یہ منظر دیکھنے کے لیے اور جشن کا لطف اٹھانے کے لیے دریا پر جمع تھی۔
جب دریا میں پانی نہیں آتا تھا: قاہرہ میں قحط کا آنکھوں دیکھا حال
لیکن دریا ہر سال اس طرح مہربان نہیں ہوتا تھا۔ اور انہی دنوں میں منظر اتنا مختلف بھی ہو سکتا تھا جس کا تصور بھی مشکل ہے۔
سنہ 1200 میں ایک اور غیرملکی سائنسدان ، فزیشن دانشور انھی دنوں میں قاہرہ میں موجود تھے اور انھوں نے بھی دریائے نیل میں پانی آنے کے دنوں کا احوال اپنی تحریروں میں چھوڑا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس سال پانی توقع کے مطابق نہیں آیا تھا۔ عبدالطیف کا تعلق بغداد سے تھا۔
سٹورٹ لکھتے ہیں کہ وہ لسانیات، مذہبی علوم اور ادب پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ ان کی سلطان صلاح الدین اور ان کے بیٹوں سے اچھی دوستی تھی۔
عبدالطیف نے اپنے قاہرہ کے دورے کا تفصیلی احوال چھوڑا ہے جس میں وہ اہرام مصر کے ساتھ دریائے نیل کا خصوصی ذکر کرتے ہیں۔
سٹورٹ نے اپنی کتاب میں عبدالطیف کے حوالے سے لکھا کہ سنہ 1200 میں ان کے قاہرہ میں قیام کے دوران جب دریا میں پانی کی سطح کی پیمائش کی گئی تو وہ صرف 12 کیبٹ اور 21 انگلیاں پائی گئی۔
وہ لکھتے ہیں کہ اس برس دریا کی سطح اپنے وقت پر بلند ہونا شروع ہو گئی تھی لیکن نو ستمبر تک 12 کیوبٹ ہی تھی اور یہ اچھی خبر نھیں تھی بلکہ آنے والے قحط کا اعلان تھا۔
دریائے نیل کے پانی پر سبز کائی کا راز
سٹورٹ نے بغدادی فزیشن کے حوالے سے لکھا کہ اس برس قاہرہ کے باسیوں نے دریا کے پانی کی سطح پر سبز تہہ دیکھی تھی جو آہستہ آہستہ رنگت میں گہری ہوتی جا رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ پانی سے شدید بدبو بھی اٹھ رہی تھی ’بالکل اس طرح جیسے کڑوی چقندر کے رس سے اٹھتی ہے۔‘
لوگوں نے دریا پر کنوؤں کے کڑوے پانی کو ترجیح دینا شروع کر دی۔
عبدالطیف کی سائنس میں دلچسپی نے اس معمے کو حل کرنے پر مجبور کیا۔ انھوں نے ایک برتن میں پانی ڈالا پھر اس کی سطح سے انھوں نے سبز مواد ہٹا کر خشک ہونے کے لیے الگ رکھا۔ یہ سمندری کائی تھی۔ پانی صاف تو ہو گیا لیکن اس کا ذائقہ اب بھی خراب تھا اور بدبو بھی اپنی جگہ موجود تھی۔
عبدالطیف نے پانی کو ابالا تو یہ دونوں خصوصیات مزید شدت اختیار کر گئیں۔ سٹورٹ لکھتے ہیں کہ سر پر منڈلاتے قحط کی پریشانی اپنی جگہ لیکن انھوں نے کائی پر مزید تحقیق کرنے کی ٹھان لی۔
دریاِئے نیل میں سیلاب کا اندازہ کیسے لگایا جاتا تھا
سٹورٹ ’قاہرہ کے 5500 برس‘ میں لکھتے ہیں کہ انھیں ان مختلف باتوں کا علم تھا جن کی بنیاد پر قبطی دریا میں پانی کے کم یا زیادہ ہونے کی پیشگوئی کرتے تھے۔
ان میں سے ایک طریقہ تو یہ تھا کہ ایک مخصوص رات کو مٹی کا ایک ڈھیلا کھلی جگہ میں رکھ دیا جاتا تھا۔ اگلی صبح اس میں رات بھر جذب ہونے والی نمی سے اندازہ لگایا جاتا تھا کہ اس برس دریا میں کتنا پانی آئے گا۔
اس کے علاوہ کھجور کے درخت پر پھل یا شہد کے چھتے میں شہد کی مقدار کی بنیاد پر بھی دریا میں آنے والے پانی کے بارے میں پیشگوئی کی جاتی تھی۔
اس کے علاوہ ستاروں کے علم کا بھی سہارا لیا جاتا تھا جس سے عبدالطیف کو اختلاف نہیں تھا لیکن سٹورٹ کے مطابق ان کے نزدیک پانی کی سطح پر کائی ہی سیلاب کے آنے یا نہ آنے کی حقیقت واضح کر سکتی تھی۔
انھیں یقین تھا کہ یہ کائی ان چھوٹے بڑے تالابوں میں پیدا ہوتی تھی جو اس جگہ پر موجود تھے جہاں سے دریا شروع ہوتا تھا۔
ان کا خیال تھا کہ جس سال وسطی افریقہ میں کم بارشیں ہوتی تھیں یہ کائی دریا کی سطح پر چھا جاتی تھی جیسا کہ اس برس ان کی قاہرہ موجودگی کے دوران ہوا تھا اور زیادہ بارشوں کی صورت میں دریا کا تیز پانی اسے بہا کر لے جاتا تھا۔
سٹورٹ لکھتے ہیں کہ عبدالطیف کے آبائی وطن بغداد کے قریب بھی دو دریا دجلہ اور فرات بہتے تھے جو اناطولیہ کے پہاڑوں سے نکل کر تیزی سے بہتے ہوئے خلیج فارس میں جا گرتے تھے لیکن اس کے بر عکس دریائے نیل کی پیدائش کھڑے پانی کے دلدلی علاقے سے ہوتی تھی۔
قحط جس نے ’انسانوں کو انسانوں کا شکار‘ بنا دیا
اس تجزیے کے بعد عبدالطیف قاہرہ پر قحط کے اثرات کا ذکر کرتے ہیں۔ دریا میں پانی کی کمی کی خبر کے ساتھ ہی سب سے پہلے کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہو گئی تھیں۔ جن کے پاس وسائل تھے وہ مصر سے چلے گئے۔ پورے پورے خاندان شام، یمن اور مراکش تک کا سفر کرتے تھے۔
مصر کے دیہاتی لوگ قاہرہ کا رخ کرتے تھے۔ سردیوں کے خاتمے کے بعد اور نئے سال کی شروعات پر قحط کے اثرات سامنے آنا شروع ہوتے تھے۔
غریب لوگ نہ صرف مرے ہوئے جانور جن میں کتے بلیاں شامل تھے بلکہ انسانی لاشیں کھانے پر بھی مجبور ہو جاتے تھے۔ ‘یہ کسی بھی معاشرے کے لیے بری بات تھی لیکن اچھے مسلمانوں کے لیے تو خاص طور پر قابل اعتراض۔’
لیکن اس سے بھی برا آگے آنا تھا۔ سٹورٹ نے عبدالعزیز کے حوالے سے لکھا ہے کہ بے گھر اور لاوارث بچے بھوک سے مارے لوگوں کا شکار بننے لگے۔
حکومت کو حکم جاری کرنا پڑا کہ بچوں کو کھانے والوں کو زندہ جلا دیا جائے گا۔ لیکن اس کا بھی زیادہ اثر نھیں ہوا۔
‘میں نے خود ایک ٹوکری میں جلا ہوا بچہ دیکھا۔ اسے امیر کو دکھایا گیا اور ساتھ ہی اس بچے کے والدین کو بھی پیش کیا گیا۔ امیر نے ان دونوں کو زندہ جلانے کا حکم دیا۔’
‘میں نے ایک روز آوارہ لوگوں کو سر سے زخمی ایک عورت کو بازار میں گھسیٹتے ہوئے دیکھا۔ انھوں نے اسے ایک بچے کا گوشت کھاتے ہوئے پکڑا تھا۔’
عبدالطیف کے لیے اس واقعے کی سب سے حیرت انگیز بات راہگیروں کی لاتعلقی تھی۔
وہ عبدالطیف کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ چند ہی روز میں 30 عورتوں کو ان الزامات کے تحت زندہ جلایا گیا۔ زیادہ عورتوں کے پکڑے جانے کی وہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ ہجوم کے لیے انھیں پکڑنا مردوں کے مقابلے میں آسان تھا۔
جلد ہی ہر طرف خوف کا سایہ تھا اور بچوں کے ساتھ بڑے بھی شکار ہونے لگے۔ طبیبوں کو بیماری کا کہہ کر گھر بلا کر مار دیا جاتا تھا۔ فربہ مرد بھی نشانہ بنتے تھے۔ انھوں نے عبدالطیف کے حوالے سے دو گروہوں کا ذکر کیا جو دو مساجد کے ارد گرد شکار ڈھونڈتے تھے۔
قاہرہ جس عمل سے تباہ ہو رہا تھا، سائنس نے اس سے فائدہ اٹھایا
سٹورٹ لکھتے ہیں کہ بحیثیت فزیشن عبدالطیف نے پرانے زمانے کے یونانی فزیشن گیلن کی روایت میں تربیت حاصل کی تھی۔ اب تک انُ کی تعلیم زیادہ تر دوسری صدی میں پیش کیے نظریات کو یاد کرنے پر مشتمل تھا
سٹورٹ نے لکھا ہے کہ گیلن خود بھی یونانیوں کے انسانی جسم کے بارے میں نظریات کی وجہ سے کبھی تجربات نھیں کر سکے تھے۔ انسانی جسم کو کاٹنے کے بارے میں یہی ممانعت اسلام میں بھی تھی۔
لیکن قاہرہ کی صورتحال نے عبدالطیف کو ہزاروں لاشیں دیکھنے کا موقع دیا۔ ‘خود مشاہدہ کرنا گیلن کو پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے جس نے کئی جگہوں پر کھل کر بات نھیں کی۔‘ اسی وجہ سے وہ اپنے استاد کی انیٹومی کے بارے میں ایک رائے کو چیلنج بھی کر سکے۔ ’سب فزیشن متفق ہیں کہ جبڑا دو ہڈیوں پر مشتمل ہے جو تھوڑی پر آ کر ملتی ہیں لیکن جو میں نے دیکھا ہے اس کے مطابق نچلا جبڑا ایک مکمل ہڈی ہے۔‘
سٹورٹ لکھتے ہیں کہ اتنی پرانی روایت کو چیلنج کرنا جرات کی بات تھی۔ یہ پیشرفت اس قحط کی وجہ سے ہوئی جس سے قاہرہ اجڑ گیا تھا۔ ایک محلہ جس میں پچاس خاندان رہتے تھے اب وہاں صرف چار چوکیدار نظر آتے تھے۔
‘تباہی قاہرہ کی تاریخ کے دو پہلو اجاگر کرتی ہے’
بار بار کے قحط اور شہر میں اپنے آپ کو بحال کرنے کی غیر معمولی صلاحیت۔ عبدالطیف نے جس قحط کا ذکر کیا وہ غیرمعمولی واقعہ نہیں۔ سٹورٹ نے مارسل کلیرگیٹ کی تحقیق کا ذکر کیا جس کے مطابق ایک نصف صدی کے دوران اس شہر میں کئی قحط آئے اور اس کو غیر معمولی نھیں سمجھا گیا۔
دریائے نیل جو ایک برس تباہ کرتا تھا اگلے سال آباد کر دیتا تھا۔ تباہی نئے لوگوں کو شہر کی طرف کھینچ لاتی تھی۔ قاہرہ گرد و نواح کے لیے مقناطیس بن جاتا تھا۔
سلطان صلاح الدین کے دور میں قاہرہ ایک بار پھر آرتھوڈوکس اسلام کے لیے کھل گیا۔ غیر ملکی طالب علم قاہرہ کی مساجد کا رخ کرنے لگے۔ مشرق میں ایران اور دریائے آکسس کے پار سے پروفیسر یہاں آتے اور مغرب میں قرطبہ جیسی جگہوں سے آئے علما سے تبادلہ خیال کرتے۔ یہ لوگ مقامی عورتوں سے شادی کرتے اور شہر کی زندگی میں مسلسل تنوع رہتا تھا۔