پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک ترمیمی بل پیش کیا گیا ہے جو کہ ملکی اداروں بالخصوص فوج کے خلاف ہرزہ سرائی سے متعلق ہے۔
اس بل کو پاکستان پینل کوڈ 1860 اور کوڈ آف کرمنل پروسیجر 1898 میں ترمیم کرنے کے لیے کرمنل لا (ترمیمی) ایکٹ بل 2020 کا نام دیا گیا ہے۔
یہ بل پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی امجد علی خان نے پرائیویٹ ممبر بل کے طور پر پیش کیا ہے۔
اس بل میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ جو کوئی بھی پاکستان کی مسلح افواج کا تمسخر اڑاتا ہے، وقار کو گزند پہنچاتا ہے یا بدنام کرتا ہے وہ ایسے جرم کا قصوروار ہو گا جس کے لیے دو سال تک قید کی سزا یا پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
یہ مجموعہ تعزیرات پاکستان 1860 اور مجموعہ فوجداری 1898 میں مزید ترمیم کا بل ہے۔ بل کے مطابق اس ترمیم کا مقصد مسلح افواج کے خلاف ’نفرت انگیز اور گستاخ رویے کا سدباب کرنا ہے۔‘
بل میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ’مسلح افواج کے ادارے کی ساکھ کو گزند پہنچانے والوں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔‘
موجودہ قانون اور سزائیں کیا ہیں؟
اس وقت پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 500 میں ہتک عزت کے خلاف سزا تو درج ہے مگر اس شق میں ملک کی مسلح افواج کا نام نہیں لکھا گیا ہے۔ سیکشن 500 کے متن کے مطابق ’جب بھی کوئی، کسی دوسرے کی رسوائی، بدنامی کا باعث بنے گا تو اس کو دو سال کی قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔‘
خیال رہے کہ حال ہی میں ایسے الزامات کے تحت بعض صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
ان میں سینیئر صحافی اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے سابق چیئرمین ابصار عالم بھی شامل ہیں جن کے خلاف پنجاب پولیس نے پاکستان فوج کے خلاف اکسانے کا مقدمہ درج کیا جبکہ ان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست بھی دی گئی۔
اس سے پہلے کراچی میں صحافی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر متحرک بلال فاروقی کے خلاف پاکستان آرمی کے خلاف بغاوت پر اکسانے اور مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جبکہ حال ہی میں راولپنڈی کی پولیس نے سوشل میڈیا پر پاکستانی اداروں بالخصوص فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے، پوسٹس اور تبصرہ کرنے کے الزام میں صحافی اسد علی طور کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا۔
کیا موجود قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے؟
ماہرین کہتے ہیں کہ اس مجوزہ قانون سے عین ممکن ہے کہ حکومت خاص طور پر سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے باقاعدہ طور پر ’ریڈ لائنز‘ واضح کرنا چاہتی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر محمد ضیا الدین کا کہنا ہے کہ آئین پہلے ہی عدلیہ اور فوج کے خلاف بیان یا تضحیک سے منع کرتا ہے تو ایسے میں اس طرح کا قانون متعارف کروانا بے معنی لگتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے میں سوشل میڈیا پر نظر آنے والے بعض مواد نے صورتحال خراب کی ہے۔
وہ کہتے ہیں ’حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا کی وجہ سے کچھ ’گڑبڑ‘ ہوئی ہے لیکن سوشل میڈیا کو کنٹرول یا ڈکٹیٹ نہیں کیا جا سکتا اور پاکستان جیسے ملک میں اس وقت یہ ناممکن ہے۔ سوشل میڈیا کو ریگولرائز تو کیا جانا چاہیے مگر اس کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔‘
وہ کہتے ہیں ’ہر صحافی کو اپنی فیصلہ سازی کی صلاحیت استعمال کرنی پڑتی ہے کہ آیا اس نے معلومات پہنچانی ہیں یا نہیں اور کیا الفاظ استعمال کرنے ہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا پر ایک کلک کی دوری پر علم و آگہی اور معلومات کی ایک دنیا ہے تو دوسری جانب ایک نہایت تاریک دنیا بھی اسی ایک کلک کے فاصلے پر ہے، اسے عوامی مفاد میں ریگولرائز تو کیا جا سکتا ہے مگر کنٹرول نہیں کر سکتے۔‘
بی بی سی نے اسی بارے میں صحافی عامر ضیا سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ہونے والے ’پروپیگنڈا کو روکنا اظہارِ رائے پر قدغن نہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا کوئی قانون آیا بھی تو اس سے ’اصل تنقید‘ کا راستہ نہیں رکے گا۔ پروپیگنڈا کرنے اور کسی کے کردار کو بامعانی انداز میں زیرِ بحث لانے میں بہت فرق ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جملے بازی کی جاتی ہے۔ فوج کے کردار کے بارے میں جب بھی ایکیڈمک بات چیت ہو گی نہیں رکے گی، چاہے وہ کتاب ہو یا تجزیہ۔‘
وہ کہتے ہیں ’بہتان یا الزام تراشی جملہ بازی کی شکل میں کر دی جاتی ہے اور پھر ان جملوں کے بازگشت چلتی رہتی ہے اور یہ ایسی بحث نہیں ہوتی جس میں تعلیم یا بہتری کا عنصر ہو۔‘
اس سوال پر کہ پاکستان میں ایک تاریخ رہی ہے کہ یہاں ایسی کتابیں اور مضامین پابندی کی زد میں آ جاتے ہیں جن میں ریاست حتیٰ کہ حکومتِ وقت کو نشانہ بنایا گیا ہو، تو سوشل میڈیا پر ایسی ہی پابندی کیا خود ساختہ سینسرشپ کی جانب لے جائے گی؟
عامر ضیا کہتے ہیں کہ کتابوں اور اخبارات میں باقاعدہ تحقیق کے بعد بات کی جاتی ہے، سوال اٹھائے جاتے ہیں، مقالوں میں وجوہات اور تجزیے حقیقت اور حقائق کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں، یہ سب ہمارے سوشل میڈیا پر نہیں ہو رہا اور ایسی کتابوں یا اخباروں پر پابندی ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اصلی صحافی‘ جانتے ہیں کہ وہ اپنی بات کیسے کہہ سکتے ہیں۔
’پاکستان میں کسی بھی بین الاقوامی ادارے کے ساتھ کام کرنے والے بڑے صحافی نے کبھی سوشل میڈیا پر اظہار رائے پر پابندی کی شکایت نہیں کی۔ بدقسمتی سے اس وقت تو بعض صحافی بھی سمجھتے ہیں کہ گالی دیں گے تو ان کی بات میں وزن آئے گا۔ یہ ضروری ہے کہ صحافی یہ سمجھیں کہ جو بات وہ نشر نہیں کر سکتے، وہ سوشل میڈیا پر بھی نہ کہیں۔‘
بشکریہ بی بی سی اُردو