چین کے لیے کون جاسوسی کر رہا ہے؟ یہ سوال دنیا بھر کی سکیورٹی اور خفیہ ایجنسیوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
انڈیا کے لیے یہ معاملہ اور بھی مسائل سے بھرپور ہے۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت میں یہ مزید اہم ہو جاتا ہے جب چین میں قائم انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی ’شنہوا‘ پر تقریبا دس ہزار انڈین شہریوں کی ’ڈیجیٹل نگرانی‘ کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کمپنی کے تانے بانے چینی حکومت اور خاص طور پر چین کی کمیونسٹ پارٹی سے جا ملتے ہیں۔
اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کمپنی کے نشانے پر انڈیا کے صدر اور وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہ بہت سے مرکزی وزرا، مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، حزب اختلاف کے رہنما، جیسا کہ سونیا گاندھی وغیرہ ہیں۔
ان کے علاوہ دیگر اعلی عہدیدار جیسے انڈیا کی تینوں افواج کے سربراہان، چیف آف ڈیفنس سٹاف، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر ججز کے علاوہ بہت سارے مشہور صنعتکار بھی ان اس کمپنی کے نشانے پر ہیں۔
چین کی اس کمپنی کی جانب سے تیار کردہ ڈیٹا بیس میں نہ صرف اعلی عہدوں پر فائز افراد ہیں بلکہ اس میں ممبران پارلیمان، میئرز اور سرپنچ بھی شامل ہیں۔
انڈین ایکسپریس کا دعویٰ ہے کہ جب اس نے کمپنی کا موقف جاننے کے لیے چینی کمپنی سے رابطہ کرنا چاہا تو کمپنی نے اپنی ویب سائٹ ہی بند کر دی۔
صرف انڈیا ہی نہیں ’شنہوا ڈیٹا انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی‘ نے برطانیہ اور آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات اور سرکاری عہدیداروں کا ڈیٹا بیس بھی تیار کیا ہے۔
لندن سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار ’ڈیلی میل‘ کے مطابق کمپنی نے ملکہ برطانیہ اور وزیر اعظم سمیت 40 ہزار ممتاز افراد کا ڈیٹا بیس تیار کیا ہے۔
اسی کے ساتھ آسٹریلیا کی ’اے بی سی نیوز‘ کے مطابق اس کمپنی نے ممتاز افراد اور سرکاری عہدیداروں سمیت 35 ہزار شہریوں کا ڈیٹا بیس مرتب کیا ہے۔ امریکی میڈیا نے بھی ایسے ہی دعوے کیے ہیں۔
ڈیجیٹل جاسوسی
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیمنٹ راجیو چندر شیکھر کا کہنا ہے کہ ڈیٹا پروٹیکشن اور رازداری اب صرف مطالعے کے مضامین تک محدود نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ڈیجیٹل جاسوسی کا دور ہے، جو چین کر رہا ہے۔
جبکہ کانگریس نے اس پورے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
کانگریس پارٹی کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے ٹویٹ کیا کہ ’کیا مودی سرکار کو اس سنگین معاملے کا پہلے سے علم تھا؟ یا انڈین حکومت کو پتا ہی نہیں چلا کہ ہماری جاسوسی کی جا رہی ہے؟ انڈین حکومت ملک کے سٹریٹجک مفادات کا تحفظ کرنے میں بار بار کیوں ناکام ہو رہی ہے؟ چین کو اپنی حرکتوں سے باز آنے کا واضح پیغام دینا چاہیے۔‘
انھوں نے یہ سوال بھی کیا کہ کیا چینی کمپنی نے گذشتہ دو سالوں میں کسی بھی طرح سے ملکی پالیسیوں کو متاثر کرنے کے لیے کوئی کام کیا ہے؟
اس کے بعد بہت سے ممالک نے اپنے ملک میں چینی طلبا کی آمد پر بھی سوال اٹھانا شروع کر دیے ہیںکیونکہ اطلاعات میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ چین کے لیے انٹیلیجنس اکٹھا کرنے میں بہت سے پیشہ ور لوگوں کی خدمات لی جاتی ہیں۔
چین پر سوال
حال ہی میں دہلی میں قائم آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن (او آر ایف) نامی ایک تنظیم نے بھی اس معاملے پر تحقیق کی ہے جس سے پتا چلا ہے کہ چین نے سنہ 2017 میں ہی ’قومی انٹیلیجنس‘ کا قانون نافذ کیا تھا جس میں آرٹیکل 7 اور 14 میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر چین کے اداروں اور شہریوں کو سرکاری خفیہ ایجنسیوں کے لیے کام کرنا پڑ سکتا ہے۔
او آر ایف میں سٹریٹجک امور کے شعبہ تحقیق کے سربراہ ہرش پنت نے بی بی سی کو بتایا کہ ان معلومات کے بعد پوری دنیا کے چینی شہریوں کو شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ پہلے ہی چینی محققین اور طلبا پر بہت سی پابندیاں عائد کر چکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چین نے پہلے خود کو محفوظ کر لیا، یعنی چین میں کوئی بھی ویب سائٹ اس وقت تک نہیں کھل سکتی جب تک چینی حکومت اس کی اجازت نہیں دیتی ہے۔
چین نے جس طرح انٹیلیجنس اور نگرانی کے لیے سائبر سپیس کا استعمال شروع کیا ہے اس کا توڑ کسی ملک کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا ملک چین کے خلاف اس قسم کی نگرانی کرنے کا اہل ہے۔
تاہم یہ سچ ہے کہ ’مصنوعی ذہانت‘ پوری دنیا میں معلومات اکٹھا کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن گیا ہے۔ اس کے ذریعے دنیا بھر میں ڈیٹا بینک تیار کیے جا رہے ہیں۔
پنت کا کہنا ہے کہ انٹیلیجنس کا یہ طریقہ پیشہ ورانہ نہیں ہے کیونکہ چین کی ہر چینی شہری سے توقع ہے کہ وہ اپنی حکومت کے لیے معلومات اکٹھا کرے گا اور اسے انٹیلیجنس ایجنسیوں تک پہنچائے گا۔ اس کی وجہ سے مختلف ممالک کے مابین ہونے والے سائنسی یا تعلیمی تبادلے پر گہرا اثر پڑا ہے۔
تحقیقی مقالے میں کہا گیا ہے کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے تحت تشکیل دی جانے والی سٹریٹجک سپورٹ فورس کو ہر طرح کی خفیہ معلومات اکٹھا کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔
بہرحال پنت کا کہنا ہے کہ انڈیا کے لیے یہ کوئی بڑی تشویش کی بات نہیں ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ انڈیا اسے ہلکے انداز مین نہیں لے رہا ہے کیونکہ حالیہ دنوں میں انڈین حکومت نے اس وجہ سے بہت سارے چینی ایپس پر پابندی عائد کر دی ہے۔
ڈیٹا مائننگ
سائبر سکیورٹی کے ماہر رکشت ٹنڈن کا کہنا ہے کہ ڈیٹا مائننگ اور مصنوعی ذہانت ایک بڑا کاروبار ہے جو ایپس اور ویب سائٹوں سے چلتا ہے۔ یہ کاروبار لوگوں سے متعلق ذاتی معلومات بیچنے والا کاروبار ہے۔
ٹنڈن کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ انڈین حکومت بھی ڈیٹا مائننگ کے حوالے سے سخت قوانین لائے، بصورت دیگر کسی بھی شہری کی رازداری کا تحفظ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اب تک یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے انڈین شہریوں کا ڈیٹا کہاں محفوظ کیا جا رہا ہے اور کون کر رہا ہے؟‘
بی بی سی کے نمائندے زبیر احمد کی ایک حالیہ رپورٹ میں امریکی تھنک ٹینک کارنیگی کی گذشتہ سال جاری ہونے والی رپورٹ کا حوالہ دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ دنیا بھر کی حکومتیں مصنوعی ذہانت کو کس طرح استعمال کر رہی ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق جو حکومتیں خود کو لبرل جمہوریت کہتی ہیں وہ مصنوعی ذہانت پر مبنی نگرانی کا زیادہ استعمال کر رہی ہیں۔ چینی اور امریکی کمپنیوں نے اب تک تقریبا 100 ممالک کی حکومتوں کو مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی فروخت کی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق لبرل جمہوری حکومتوں کے مقابلے میں مطلق العنان حکومتیں اس ٹیکنالوجی کا زیادہ غلط استعمال کر سکتی ہیں۔
تھنک ٹینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’چین، روس اور سعودی عرب جیسے ممالک اپنے شہریوں کی نگرانی کے لیے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن کوئی بھی اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے اس تکنیک کا غلط استعمال کر سکتا ہے۔‘