ٹک ٹاک کے امریکی آپریشنز کے حصول میں کامیاب کمپنی اوریکل کے ملکیتی حصے سے ایک نئی ٹک ٹاک کارپوریشن کو تشکیل دیا جائے گا۔
فنانشنل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس نئے انتظام کے تحت ٹک ٹاک کو مکمل طور پر خطے سے الگ نہیں کیا جاسکے گا مگر اس سے ایپ کے لیے ایک نئی کمپنی ضرور تشکیل پائے گی، جس میں اوریکل کا کچھ حصہ ہوگا۔
اوریکل کی جانب سے یہ بھی یقینی بنایا جائے گا کہ امریکی صارفین کا ڈیٹا امریکا میں ہی محفوظ اور پراسیس ہو، جس کی سفارش کمیٹی فار فارن انویسٹمنٹ ان دی یونائیٹڈ اسٹیٹس (سی ایف آئی یو ایس) نے کی تھی۔
ٹک ٹاک کا ہیڈکوارٹر پہلے ہی کیلیفورنیا میں ہے جو اس کی ملکیت رکھنے والے کمپنی بائیٹ ڈانس سے الگ ہوکر خودمختار طور پر کام کرتا ہے۔
اس معاہدے میں بنیادی تبدیلی اوریکل کی ملکیت میں جانے والا کچھ حصہ ہوگا مگر اس کا حجم کتنا ہوگا، یہ ابھی تک واضح نہیں۔
مگر اوریکل کے حصے کی بدولت ٹک ٹاک کو زیادہ بہتر قانونی پوزیشن حاصل ہوجائے گی اور ممکنہ طور پر یہ کمپنی چین میں تیار ہونے والے الگورتھمز اور اپلیکشنز پر انحصار کرسکے گی۔
منگل کو سی این بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں امریکا کے ٹریژری سیکرٹری اسٹیو میونچن نے اس معاہدے کو ٹک ٹاک کو بطور امریکی ہیڈکوارٹر کمپنی کی تشکیل کا حصہ قرار دیا۔
ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ نئے معاہدے کے نتیجے میں ٹک ٹاک کے آپریشنز میں کس حد تک تبدیلیاں آئیں گی۔
اتوار کو طے پانے والا معاہدہ امریکا میں ٹک ٹاک کو پابندی سے بچانے کی آخری کوشش کا نتیجہ ہے جس کی دھمکی امریکی صدر نے دے رکھی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تاحال اوریکل اور ٹک ٹاک کے درمیان ہونے والے معاہدے کی منظوری نہیں دی اور فنانشنل ٹائمز کے مطابق اہم تفصیلات کا تعین کرنا ابھی بھی باقی ہے۔
خیال رہے کہ ٹک ٹاک نے اوریکل سے معاہدہ کرنے سے قبل ایک اور امریکی کمپنی مائیکرو سافٹ کی جانب سے خریداری کی پیش کش کو مسترد کردیا تھا۔
مذکورہ معاہدے کے تحت ’ٹک ٹاک‘ اور ’اوریکل‘ پارٹنرشپ بنیاد پر امریکی صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ پر کام کریں گے۔
یعنی ’اوریکل‘ صرف امریکا میں ’ٹک ٹاک‘ کے صارفین کے ڈیٹا کے معاملات کو پارٹنرشپ بنیادوں پر دیکھے گا، تاہم فی الحال اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
’ٹک ٹاک‘ اور ’اوریکل‘ کے درمیان ہونے والے معاہدے کو امریکا کی غیر ملکی سرمایہ کاری سے متعلق محکمہ خزانہ کی خصوصی کمیٹی (سی ایف آئی یو ایس) کی لازمی منظوری درکار ہوگی۔
اسی طرح دونوں کمپنیوں کو چینی حکومت کی جانب سے بھی منظوری لینی ہوگی۔
امریکی کمپنیوں نے ’ٹک ٹاک‘ کے امریکی انتظامات خریدنے یا دیکھنے کی دلچسپی اس وقت ظاہر کی تھی جب کہ گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی ایپ پر قومی سلامتی کے الزامات لگاتے ہوئے اسے امریکی اثاثے فروخت کرنے کے لیے 45 دن کی مہلت دی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ 6 اگست کو ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے ٹک ٹاک کو آئندہ 45 دن میں اپنے امریکی اثاثے کسی دوسری امریکی کمپنی کو فروخت کرنے کی مہلت دی تھی۔
صدارتی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اگر چینی ایپلی کیشنز کو آئندہ 45 دن میں کسی امریکی کمپنی کو فروخت نہیں کیا گیا تو ان پر امریکا میں پابندی لگادی جائے گی۔
ٹک ٹاک کو 15 ستمبر 2020 کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی تاہم بعد ازاں 16 اگست کو ٹرمپ انتظامیہ نے مذکورہ مدت میں مزید 45 دن کا اضافہ کردیا تھا۔
ٹک ٹاک نے امریکی صدر کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکی صارفین کا ڈیٹا چین کو فراہم نہیں کرتی اور بعد ازاں ایپلی کیشن انتظامیہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم کے خلاف امریکی عدالت سے بھی رجوع کیا تھا۔
ٹک ٹاک نے عدالت میں دائر درخواست میں کہا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 6 اگست کے ایگزیکٹو آرڈر کو چیلنج کرتے ہوئے کہا گیا کہ ‘بغیر کسی شواہد کے اتنا سخت فیصلہ کیا گیا اور وہ بھی مناسب طریقہ کار کے بغیر’۔
دوسری جانب اگست کے اختتام پر چین نے ملکی برآمدات کے قوانین کو اپ ڈیٹ کیا تھا جس میں حساس ٹیکنالوجیز کو شامل کیا گیا تھا۔
چین کے سرکاری خبررساں ادارے ژن ہوا نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ نئے قوانین کا مطلب یہ بھی ہے کہ ٹک ٹاک کی ملکیت رکھنے والی کمپنی بایئٹ ڈانس کو امریکا میں کاروبار فروخت کرنے کے لیے پہلے لائسنس لینا ہوگا۔