’مینوں معاف کر دیو‘: سی سی پی او لاہور کی قائمہ کمیٹی میں پیشی
پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط اور استحقاق کے اجلاس میں کمیٹی ارکان کی جانب سے لاہور کے سی سی پی او ڈی آئی جی عمر شیخ سے پوچھے گئے سوالوں کا تسلی بخش جواب نہ ملنے پر ارکان نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے ارکان کا کہنا تھا کہ ’ سی سی پی او کو جس معاملے پر بلایا گیا ہے کم از کم وہ اس کو پڑھ کر ہی آ جاتے۔‘
لاہور کے سی سی پی او کو حزب مخالف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی رانا تنویر کے خلاف گذشتہ ماہ مریم نواز کی نیب لاہور کے دفتر میں پیشی کے موقع پر ہونے والے ہنگامے میں ملوث ہونے پر ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کی بنا پر طلب کیا گیا تھا۔
مذکورہ رکن قومی اسمبلی نے قائمہ کمیٹی میں تحریک استحقاق جمع کروائی تھی جس میں ان کا موقف تھا کہ جس روز لاہور میں نیب دفتر کے باہر ہنگامہ ہوا وہ اس وقت لاہور میں نہیں بلکہ اسلام آباد میں موجود تھے۔
قائمہ کمیٹی کے سربراہ قاسم نون نے سی سی پی او لاہور سے پوچھا کہ اُنھوں نے مذکورہ رکن قومی اسمبلی کے خلاف مقدمہ درج کیوں کیا جس پر ڈی آئی جی عمر شیخ نے کہا کہ ’وہ رانا تنویر کے خلاف ایف آئی آر کو تفصیل سے نہیں پڑھ سکے جس پر کمیٹی کے سربراہ اور اراکین نے سی سی پی او کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’آپ اتنے غیر سنجیدہ ہیں کہ ایف آئی آر بھی نہیں پڑھی۔‘
کمیٹی کے متعدد ارکان کی طرف سے سی سی پی او کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو اُنھوں نے ہاتھ جوڑنے میں ہی عافیت سمجھی اور ہاتھ جوڑ کر کمیٹی کے ارکان کو پنجابی میں کہا ’مینوں معاف کر دیو۔‘
رکن قومی اسمبلی رانا تنویر نے اجلاس کو بتایا کہ گیارہ اگست کو ڈی جی نیب لاہور کی طرف سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی۔ اُنھوں نے کہا کہ وقوعہ کے روز مریم نواز کی لاہور نیب میں پیشی تھی جبکہ وہ (رانا تنویر) اس روز اسلام آباد میں موجود تھے۔
کمیٹی کے سربراہ نے سی سی پی او لاہور سے پوچھا کہ بتائیں مذکورہ رکن کی عدم موجودگی میں ان کے خلاف مقدمہ کیسے درج کیا گیا جس پر ڈی آئی جی لاہور کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی شکایت کنندہ درخواست دے تو پولیس اس پر کارروائی کرنے کی پابند ہیں۔‘
عمر شیخ کا کہنا تھا کہ پولیس اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے لیکن ڈی آئی جی کے بقول پولیس نے رانا تنویر کو ابھی بطور ملزم پیش نہیں کیا۔
اجلاس کے دوران پاکستان مسلم لیگ کے رکن قومی اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا نے سی سی پی او لاہور سے پوچھا کہ اس واقعہ کے خلاف پاکستان مسلم لیگ نواز کی طرف سے بھی مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی گئی تھی اس پر کیا کارروائی ہوئی جس پر عمر شیخ کا کہنا تھا کہ ’ایک واقعے پر ایک سے زائد ایف آئی آر نہیں ہو سکتی۔‘
محسن شاہنواز رانجھا نے سی سی پی او لاہور سے ایک اور سوال کیا کہ یہ بتائیں کہ اس واقعہ میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کیوں لگائی گئیں جس پر عمر شیخ نے مذکورہ رکن قومی اسمبلی سے ہی سوال کر دیا کہ پہلے وہ میرے سوال کا جواب دیں کہ کیا ایک واقعہ کی دو ایف آئی آر ہو سکتی ہیں۔
سی سی پی او لاہور کے اس جواب پر پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی غصے میں آ گئے اور انھوں نے ڈی آئی جی عمر شیخ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’پارلیمنٹ کے سامنے وہ پیش ہوئے ہیں، میں نہیں اور کمیٹی میں جو سوال پوچھے جائیں اس کا جواب دیں۔‘
اُنھوں نے سی سی پی او لاہور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے جیسے لاہور سیالکوٹ موٹروے پر گینگ ریپ کا شکار ہونے والی اس خاتون کے بارے میں بات کی اس سے آپ کی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے۔‘
محسن شاہنواز رانجھا نے کہا کہ شاید اُنھیں معلوم نہیں ہے کہ قائمہ کمیٹی کے پاس عدالت جیسے اختیارات ہوتے ہیں اور اُنھیں گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ ’سی سی پی او لاہور کا رویہ انتہائی نامناسب ہے۔ وہ حکومت کی طرف سے سی سی پی او کے رویے پر معذرت خواہ ہیں۔‘
وزیر مملکت کی طرف سے معذرت کرنے کے بعد سی سی پی او لاہور نے ایک مرتبہ پھر کمیٹی کے ارکان سے معافی مانگی جس پر کمیٹی کے ارکان نے ڈی آئی جی عمر شیخ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’لگتا ہے آپ معافیوں کی بوری بھر کر لائے ہیں۔‘
کمیٹی کے ارکان نے سیالکوٹ لاہور موٹروے پر گینگ ریپ کے بارے میں بات کرنا چاہی تو وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور نے کہا کہ یہ معاملہ کہیں اور نکل جائے گا۔
کمیٹی نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کروانے والے درخواست دہندہ کو جو کہ نیب آفیسر ہیں آئندہ اجلاس میں طلب کر لیا ہے۔
واضح رہے کہ سی سی پی او لاہور کو انسانی حقوق سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے موٹروے گینگ ریپ کے بارے میں طلب کیا تھا لیکن وہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے جس پر اس کمیٹی کے ارکان نے سی سی پی او لاہور کے خلاف تحریک استحقاق جمع کروانے کا اعلان کر رکھا ہے۔
توہین پارلیمنٹ کے بل کا مسودہ
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط اور استحقاق کے اجلاس میں توہین پارلیمنٹ کے بل کا مسودہ پیش کیا گیا۔ بل کا یہ مسودہ کمیٹی کی ہدایت پر تیار کیا گیا ہے۔
بیرسٹر راحیل احمد کی جانب سے بل پر کمیٹی کے ارکان کو بریفنگ دی گئی۔ اس مجوزہ مسودے میں کہا گیا ہے کہ جو افسر، وزیر یا متعلقہ شخص کمیٹی اجلاس میں شریک نہیں ہوتا وہ توہین پارلیمنٹ کا مرتکب ہو گا اور اس کے علاوہ قائمہ کمیٹی کو دستاویزات فراہم نہ کرنے، جعلی دستاویز فراہم کرنے والا توہین پارلیمنٹ کا مرتکب ہو گا۔
اس مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ توہین پارلیمنٹ کا مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج یا سیشن جج کی عدالت میں چلے گا۔
اس مسودے کے مطابق اگر کوئی سرکاری ملازم توہین پارلیمنٹ کا مرتکب ہوا اسے تین سے چھ ماہ تک قید اور 25 ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔ اس کے علاوہ اگر وزیر توہین پارلیمنٹ کا مرتکب ہوا تو ایک مدت تک اس کے پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت پر پابندی عائد ہو گی۔
قائمہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں اس مسودے پر غور کیا جائے گا۔
بشکریہ بی بی سی اُردو