سردار بلدیو سنگھ اور لوٹے عرف الیکٹ ایبلز
میاں نواز شریف نے اپنی زندگی کی سب سے دھواں دھار تقریر میں عمران خان کے ساتھ وہی سلوک کیاہے جو سردار بلدیو سنگھ آف تلونڈی صابو نے اپنی بوتل کے ساتھ کیا تھا۔ ایک رات سردار بلدیو سنگھ بہت اداس‘ افسردہ اور ڈپریشن کی حالت میں ٹن ہو کر گھر پہنچا اور سیدھا باورچی خانے میں چلا گیا۔ باورچی خانے میں جا کر سردار بلدیو سنگھ نے نیچے والی کیبنٹ کھولی‘ ایک بوتل نکال کر فرش پر ماری اور زور سے کہا کہ تیری وجہ سے میری پڑوسیوں سے لڑائی ہوئی۔ پھر دوسری بوتل نکال کر فرش پر ماری اور با آواز بلند کہا کہ تیری وجہ سے میری نوکری چلی گئی۔ پھر تیسری کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا اور کہا کہ تیری وجہ سے میری معشوقہ مان پریت کور سے یاری ختم ہوئی۔ پھر چوتھی نکال کر بڑے زور سے فرش پر ماری اور کہا: تیری وجہ سے میری بیوی ناراض ہو کر میکے چلی گئی۔ پھر پانچویں نکالی۔ یہ بھری ہوئی تھی۔ سردار بلدیو سنگھ نے اس بوتل کو نہایت ہی احتیاط اور قرینے سے ایک طرف رکھا اور کہنے لگا:” توں پاسے ہو جا تیرا اس سارے فساد اور جھگڑے میں کوئی لینا دینا نہیں۔ تُوابھی بالکل بے قصور ہے‘‘۔
میاں نواز شریف نے حکومت کے خلاف دل کے پھپھولے جلاتے ہوئے سارا ملبہ عمران خان کو لانے و الوں پر ڈالتے ہوئے عمران خان کو تقریباً تقریباً معصوم اور بے خطا قرار دے دیا۔ تاہم یہ بات قابلِ غور ہے کہ عمران خان کو لانے والے کون ہیں؟ ایمانداری کی بات ہے کہ میں خود بھی یہ بات سن سن کر تنگ آ چکا ہوں کہ عمران خان کو مقتدرہ لائی ہے۔ میں یہ بات نہ توکسی کی محبت میں کہہ رہا ہوں اور نہ ہی کسی کی صفائی دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تاہم میں یہ بات اپنے ذاتی مشاہدے اور تجزیے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ بعد از اقتدار عمران خان اور مقتدرہ کے باہمی عشق کو ایک طرف رکھ کر صرف الیکشن کی بات کر لیں تو مجھے ان لوگوں سے قطعاً اتفاق نہیں جو اس حکومت کو دھاندلی کی پیداوار‘ مقتدرہ کی مہربانی اور کرامت قرار دیتے ہیں۔ دو‘ چار‘ چھ جگہوں پر دھاندلی کے الزامات میں یقینا کچھ نہ کچھ حقیقت ہوگی لیکن یہ وہ دھاندلی ہے جو ذاتی سطح پر ہوتی ہے اور اس کا حکومت یا اپوزیشن سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ یہ زور آوروں کا وتیرہ ہے اور اب اس سسٹم کا حصہ ہے۔
قبل از الیکشن والی دھاندلی ایک حقیقت ہے اور یہ الیکشن پر اثر انداز ہوتی ہے‘ لیکن یہ بھی اب ہمارے انتخابی نظام کا حصہ ہے۔ گو کہ یہ برطانوی آئین کی طرح غیر تحریر شدہ ہے‘ لیکن ایک حقیقت ہے اور اس سے انکار ممکن نہیں۔ یہ ستر‘ اسی لوگوں کو ہانک کر کسی بھی مرضی کے کیمپ میں دھکیل دینے سے شروع ہوتا ہے اورحکومت سازی پر ختم ہو جاتا ہے۔ یہ ستر‘ اسی لوگ ہر الیکشن میں اشارہ پاتے ہی اپنا وزن ہدایت کردہ کیمپ کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ مفاد پرست الیکٹ ایبلز کا وہ گروہ ہے جو خود بھی مرغِ بادنما کی طرح ہوا کا رخ پہچان لیتا ہے اور اپنے گاڈ فادرز کی جانب سے اشارے پر بھی اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیتا ہے۔ اور ہر پارٹی ان لوٹوں کو ہمہ وقت قبول کرنے پر تیار رہتی ہے۔ کیا پیپلز پارٹی‘ کیا (ن) لیگ اور کیا اب تحریک انصاف۔
انہی ستر ‘اسی لوگوں کے زور پر ق لیگ چلی‘ یہی افراد پیپلز پارٹی کی حکومت کی وجۂ اقتدار بنے‘ پھر یہی لوگ مسلم لیگ (ن) کے جھنڈے تلے ووٹ کو عزت دینے میں مصروف عمل رہے اور اب یہی نمائندے کرپشن کے خلاف جنگ میں عمران خان کے دست و بازو ہیں۔ پیّا جس پر مہربان ہوتا ہے ان ستر ‘اسی لوگوں کو ادھر بھجوا دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح لکھنؤ اور اودھ میں نوابزادیوں کو گھر سے رخصت کرتے وقت ان کے ہمراہ ایک دو خادمائیں بھی جہیز میں بھجوا دی جاتی تھیں۔ یہ لوٹے المعروف الیکٹ ایبلز بھی اسی طرح حجلۂ اقتدار میں پہنچنے والی متوقع دلہن کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔
مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ عمران خان کی حکومت بھی انہی ستر اسی الیکٹ ایبلز میں سے کامیاب ہو کر اسمبلی پہنچنے والوں کی مرہون منت ہے۔ اب اس دھاندلی پر شور مچانے والوں کو ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں کہ وہ اسی گروہ کے طفیل اپنی باری پر مزے لوٹ چکے ہیں۔ اب یہ انتہائی غیر اخلاقی حرکت ہے کہ خود تو ان لوٹوں کے طفیل لیلائے اقتدار سے لطف اندوز ہوں اور دوسروں کی باری رونا پیٹنا شروع کر دیں۔ ٹرکوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے ”پاس کر یا برداشت کر‘‘۔ سو اب انہیں برداشت کرنا چاہیے اور اپنی اگلی باری کا انتظار کرنا چاہیے‘ تا کہ وہ دوبارہ اس قطار میں لگ سکیں جہاں لگ کر وہ ان ستر‘ اسی الیکٹ ایبلز کے جملہ حقوق حاصل کر سکیں۔
بات کہیں کی کہیں چلی گئی۔ اور الیکشن سے ہٹ کر قبل از الیکشن والی ”الیکشن مینجمنٹ‘‘ پر چلی گئی۔ الیکشن میں دھاندلی ہوئی یا نہیں ہوئی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو گزشتہ دو سال سے بڑے زور و شور اور تواتر سے دہرایا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی اور سب سے بڑھ کر مولانا فضل الرحمان اس حکومت کو دھاندلی کی حکومت قرار دینے میں پورا ”ٹِل‘‘ لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن میں ذاتی طور پر اپنے قبل از الیکشن مشاہدے کی بنا پر یہ بات الیکشن ڈے پر ہونے والی ٹرانسمیشن پر نتائج آنے سے پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف بڑے واضح مارجن سے اکثریت لے جائے گی۔ ملتان شہر کے حوالے سے میرا تجربہ سو فیصد درست نکلا اور یہ باتیں زبانی کلامی نہیں کہہ رہا‘ بلکہ یہ سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے۔ اسی طرح حبیب اکرم نے پورا پاکستان گھوم کر جو سروے کیا وہ روزنامہ دنیا الیکشن سے پہلے چھاپ چکا ہے۔ اس سروے کی بنیاد پر حبیب اکرم نے ایک ایک حلقے کے حساب سے نتائج کا ایک اجمالی خاکہ پیش کر دیا تھا۔ چند روز بعد آنے والے الیکشن کے نتائج نے جنوبی پنجاب کے بارے میں میرے مشاہداتی اندازوں کو نوے فیصد سے زائد درست ثابت کیا۔ حبیب اکرم کے سروے پر مشتمل متوقع اندازے بھی تقریباً درست ثابت ہوئے۔ میں ذاتی طور پر یہ بات ماننے پر قطعاً تیار نہیں کہ موجودہ حکومت دھاندلی کی پیدوار ہے۔ اس کی تخلیق میں ”پری الیکشن‘‘ مقتدرہ کی مینجمنٹ کا اتنا ہی عمل دخل ہے جو اس سے قبل بننے والی سب حکومتیں بشمول (ق )لیگ‘ پیپلز پارٹی اور( ن) لیگ انجوائے کر چکی ہیں۔ لٹو کی طرح گھومنے والے ان لوٹوں نے جن کا معزز نام ”الیکٹ ایبلز‘‘ ہے ہر گزشتہ حکومت میں بھی وہی کردار سر انجام دیا جو اس حکومت کے قیام میں سر انجام دیا ہے۔ اس ”کامن فیکٹر‘‘ کو نکال دیں تو یہ حکومت اتنی ہی قانونی اور Legitimate ہے جتنی اس سے پہلے والی حکومتیں۔ ہاں ! نااہلی کے معاملے میں موجودہ حکومت کا جو مقام ہے وہ اس سے پہلے کسی اور کو حاصل نہیں رہا۔
موجودہ حالات کے تناظر میں اگر میاں نوازشریف کے خطاب سے میاں نواز شریف کو نکال دیا جائے تو میں ان باتوں سے خود بھی سو فیصد متفق ہوں ‘لیکن ان باتوں کی ثقاہت اور اعتبار کو اس لیے ٹھیس پہنچتی ہے کہ میاں نواز شریف کو یہ تمام باتیں تب یاد آتی ہیں جب وہ اقتدار سے فارغ اور ملک سے ہزاروں کلو میٹر دور ہوتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد ان میں اور دیگر معاہدہ ساز اور سودے بازحکمرانوں میں رتی برابر فرق نہیں ہوتا۔