انسٹاگرام پر ’فیک فالوورز‘ کیسے خریدے جا سکتے ہیں؟
انسٹاگرام پر میری حالیہ پوسٹ کو اپ لوڈ ہوئے ایک گھنٹے سے بھی کم وقت ہوا ہے اور اسے 1000 سے بھی زیادہ لوگ لائیک کر چکے ہیں۔
میں یہ تصویر لے کر کافی خوش ہوں۔ یہ میرے دن کے کھانے، ٹماٹو ساس اور دال کے ساتھ پینے پاستا کی تصویر ہے جسے میں نے اوپر کے زاویے سے کھینچا ہے اور اس پر فِلٹر لگا دیا ہے۔ یہ باآسانی میرے انساگرام اکاؤنٹ کی آج تک کی سب سے مشہور تصویر ہے۔
لیکن سچ یہ ہے کہ 1003 لائیکس میں سے صرف تین لائیکس اصلی لوگوں کی ہیں۔ باقی 1000 لائیکس فیک اکاؤنٹس کی طرف سے ہیں۔
میں نے فیک لائیکس بیلجیئم میں ٹیکنالوجی سے فن پارے بنانے والے ڈرائز ڈیپورٹر نامی شخص سے خریدی ہیں۔
‘کوئک فِکس’ ڈرائز ڈیپورٹر کی حالیہ پیشکش ہے۔ یہ ایک وینڈنگ مشین ہے جس میں آپ کچھ یورو ڈال کر اپنے اکاؤنٹ کے لیے انسٹاگرام لائیکس اور فالوورز خرید سکتے ہیں۔ یہ لائیکس اور فالوورز آپ کے اکاؤنٹ میں اسی وقت منتقل ہو جائیں گے۔
وہ کہتے ہیں ‘بنیادی طور ہر میرے پاس ہزاروں جعلی اکاؤنٹس ہیں اور وہ آپ کو فالو کر سکتے ہیں یا آپ کی حالیہ تصویر کو لائیک کر سکتے ہیں۔’
‘آپ کو اس سے یہ سبق ملنا چاہیے کہ آپ کی سکرین پر نظر آنے والے اعداد ہمیشہ حقیقی نہیں ہوتے۔’
انسٹاگرام کے ’جعلی لوگ‘
ڈرائز اپنے ماڈرن فن پاروں کے طور پر فیک اکاؤنٹس اور لائیکس بنا رہے ہیں اور وہ یہ سب پیسوں کے لیے نہیں کر رہے۔ لیکن بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یہ سب پیسوں کے لیے کر رہے ہیں۔
انسٹاگرام پر فیک اکاؤنٹس اور لائیکس کے ذریعے کسی کو مشہور کرنا ایک پھلتا پھولتا کاروبار ہے۔
گوگل پر ایک سرچ کی جائے تو آپ کو درجنوں ایسی سائیٹس ملیں گی جہاں آپ جتنے زیادہ پیسے دیں گے، آپ کو اتنے لائیکس اور فالوورز ملیں گے۔
مجھے سیل پر 10، 15 ڈالرز کے عوض 1000 نئے فالوورز ملے۔
حالیہ سالوں میں انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز پر پنپتی افلوئنسر مارکیٹنگ کی اربوں ڈالرز کی صنعت کے لیے یہ ایک مسئلہ ہے۔
ہر سال بڑے برانڈز بااثر انفلوئنسرز کو اپنے پراڈکٹس کی پروموشن کے عوض بھاری رقوم ادا کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ برانڈز اپنا پیسہ ضائع کر رہے ہیں اگر ان فالوورز میں سے کچھ اصلی ہی نہیں ہیں؟
اینڈریو ہاگ آئی جی آڈٹ میں بطور ریسرچر اور ڈویلپر کام کرتے ہیں۔ آئی جی آڈٹ ایک آن لائن ٹول ہے جو انسٹاگرام اکاؤنٹس میں جعلی فالوورز کا تعین کرتا ہے۔
اینڈریو کہتے ہیں ‘ہمیں پتا چلا ہے کہ 20 سے 30 فیصد انفلوئنسر کسی نہ کسی طرح اپنے اکاؤنٹ سے جڑے اعداد و شمار کو بڑھا دیتے ہیں چاہے وہ ایسا جعلی فالوورز، لائیکس یا سٹوری ویوز لے کر کریں۔’
مجھے انفلوئنسر بنائیں
جب میں نے بی بی سی ورلڈ سروس کے پروگرام بزنس ڈیلی کے لیے انسٹاگرام انفلوئنسر بننے کے کوشش کی تو میرا واسطہ انسٹاگرام کے فیک اکاؤنٹس کی دنیا سے پڑا۔
مشورے کے لیے میں لندن کی مارکیٹنگ ایجنسی گوٹ کے شریک بانی ہیری یوگو کے پاس گیا۔ یہ ایجنسی برانڈز کو نفلوئنسرز سے ملاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں ‘آپ کو کم از کم 5000 فالوورز چاہییں۔’
لاکھوں فالوورز والے انفلوئنسرز کو ایک پوسٹ کے لیے ہزاروں ڈالرز دیے جاتے ہیں لیکن مخصوص مارکیٹس میں کم فالوورز والے انفلوئنسرز دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا گزر بسر انسٹاگرام سے پیسے کما کر ہوتا ہے۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ سب کتنا آسان ہے۔
‘جب آپ کے 5000 فالوورز ہوتے ہیں تو آپ کو مفت میں مختلف جگہوں پر مدعو کیا جاتا ہے۔ اور پھر اکثر اوقات آپ کو ایک پوسٹ کے 50 سے 100 پاؤنڈ دیے جاتے ہیں۔’
ہیری نے مجھے مشورہ دیا کہ میں کوئی مخصوص مارکیٹ ڈھونڈوں اور اپنی تمام پوسٹس کا موضوع اس کے گرد ہی رکھوں۔
اپنے پہلے سے موجود انسٹاگرام اکاؤنٹ کو دیکھتے ہوئے ہم نے یہ طے کیا کہ اکاؤنٹ کا موضوع پاستا ہونا چاہیے۔ میں اسے کھانا پسند کرتا ہوں، میں اسے گھر پر بنانا پسند کرتا ہوں اور ہیری نے مجھے بتایا کہ کھانے کے برانڈز کے لیے یہ ایک پرکشش مخصوص مارکیٹ ہو گی۔
تو میں نے @londonpastaguy کے نام سے ایک نیا انسٹاگرام اکاؤنٹ بنایا اور تصاویر ڈالنا شروع کر دیں۔
پہلے تو میں نے تھوڑی بہت ترقی دیکھی، انسٹاگرام کی پاستا کمیونٹی میں سے چند ایک لوگوں نے مجھے فالو کیا اور کچھ دوستوں نے بھی ہمدردی دکھاتے ہوئے میرے فالوورز میں اضافہ کیا۔
لیکن یہ دررناک حد تک آہستہ سلسلہ تھا۔
ہیری یوگو نے مجھے کہا ‘تمہیں تیزی دکھانی پڑے گی۔ تمہیں ایک برانڈ بنانے کی ضرورت ہے۔ تمہیں بزنس بنانے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ تم ہاتھ سے چٹکی بجاؤ گی اور سب کام ہو جائے گا۔ تمہیں محنت کرنا پڑے گی۔’
دکھاوا کریں
لیکن وہ لوگ جو اتنی محنت نہیں کر سکتے ان کے لیے کافی شارٹ کٹس موجود ہیں۔
مجھے 15 ڈالر میں 1000 فالوورز کی پیشکش تلاش کرنے میں کچھ ہی منٹ لگے۔
میں نے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے سے پیسے بھرے اور چند منٹ بعد ہی میرا فون لاتعداد نوٹیفیکیشنز سے بجنے لگا۔ تقریباً 500 لوگوں نے مجھے فوراً فالو کیا اور اگلے چند دنوں میں 300 مزید لوگوں نے میرے فالوورز کی تعداد بڑھائی۔
جعلی پروفائل کی شناخت کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ ایسے اکاؤنٹس کے نام کمپیوٹر کی طرف سے بنائے جاتے ہیں اور تصاویر عام سی ہوتی ہیں۔
اینڈریو ہوگ کا ٹول آئی جی آّڈٹ اپنا ایلگوریدم استعمال کرتے ہوئے ایسے اکاؤنٹس کو نکل باہر کرتا ہے۔
لیکن اینڈریو کہتے ہیں کہ جعلی پن کافی پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔
اب مشہور بننے کے لیے ‘انگیجمنٹ پوڈز’ کی سروس بھی فراہم کی جانے لگی ہے یعنی انفلوئنسرز کا ایسا گروپ جو دوسرے کو مشہور دکھانے کے لیے ایک دوسرے کی پوسٹس پر لائیک اور کمینٹ کرے۔
کم از کم ایک ویب سائٹ ایسی ہے جو ماہانہ فیس کے عوض اس عمل کو آٹومیٹک بنا دیتی ہے۔ تو بے شک پرفائل اصلی ہو، کمینٹ کمپیوٹر کی طرف سے ہو سکتے ہیں۔
جعلی پروفائل کی خرید و فروخت انسٹاگرام کے قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔
میں نے انسٹاگرام سے سوال کیا کہ اندازاً کتنے اکاؤنٹ جعلی ہیں لیکن انھوں نے جواب نہیں دیا۔ وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے انھوں نے لاکھوں اکاؤنٹ بلاک کیے ہیں اور جعلی لائیکس، کمینٹس اور فالوورز کی شناخت کر کے انھیں ہٹاتے رہیں گے۔
لیکن جعلی اکاؤنٹس انفلوئنسر مارکیٹنگ ماڈل کے لیے ایک چیلنج ہے۔
انفلوئنسر مارکیٹنگ اب معمولی بزنس نہیں رہا۔ اس سال کاسمیٹک برانڈ ایسٹے لاؤڈر نے کہا کہ وہ اپنی مارکیٹنگ کا تین چوتھائی حصہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز پر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اینڈریو کہتے ہیں کہ اس صنعت کو پروان چڑھانے کے لیے جعلی پن کے مسئلے کو حل کرنا پڑے گا۔
‘فی الحال برانڈز کے ساتھ دھوکہ ہو رہا ہے۔ 20 سے 30 فیصد انفلوئنسر اپنے اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ مطلب کہ 30 فیصد امکان ہے کہ جس انفلوئنسر پر آپ پیسہ لگا رہے ہیں وہ بالکل ناقص ہے۔`
‘یہ برانڈز اور ان انفلوئنسرز کے ساتھ ناانصافی ہے جو اصل میں اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں، انھیں ان کے حصے کے پیسے ملنے چاہییں۔’