دنیا جی پی ایس کے بغیر کیا کرے گی؟
گذشتہ برس جب اسرائیل کے بن گورین ائیر پورٹ پر مصنوعی سیارے کی مدد سے سیٹلائیٹ نیویگیشن نظام نے کام کرنا بند کر دیا تو اس وقت ائیر ٹریفک کنٹرول کی مہارت طیاروں کو حادثوں سے محفوظ رکھ پائی تھی۔
سیٹلائیٹس کا بند ہوجانا شاید کوئی حادثہ تھا، جس کی وجہ غالباً روس کی شام میں جنگ کے دوران ریڈیو یا ریڈارسگنل کو کسی دوسرے سگنل کی مداخلت سے روکنے کی ایک مربوط کوشش تھی۔
تاہم اس واقعے نے ایک اہم مسئلے کو اُجاگر کیا اور وہ یہ کہ عالمی گلوبل پوزیشننگ سسٹم یا جی پی ایس مداخلت کا شکار ہو سکتا ہے۔
امریکی شہر آسٹِن میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے کمیونیکیشز انجینیئر، ٹوڈ ہمفریز کہتے ہیں کہ ‘اس وقت جی پی ایس کو محفوظ، زیادہ مضبوط اور بہتر بنانے کی شدید ضرورت کا احساس بڑھ رہا ہے۔’
آج کی زندگی میں جی پی ایس ہماری روزمرّہ کی سرگرمیوں کا محور بن چکا ہے۔ اس کی سادہ سی شکل یہ ہے کہ اس کے ذریعے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جی پی ایس کی لہریں وصول کرنے والا آلہ ایک وقت میں کرہ ارض کے کس حصے میں ہے۔ یہ ہمارے موبائیل فونز میں موجود ہے، ہماری کاروں میں لگا ہوا ہے۔
یہ کشتیوں کو جہاز رانی میں سمتوں سے آگاہ کر کے ان کو سمندری کے مشکل رستوں سے محفوظ طریقے سے گزرنے میں مدد دیتا ہے، یعنی جدید دور کے لائٹ ہاؤس کا کردار ادا کرتا ہے۔ ایمر جنسی سروسز پہنچانے والے ادارے اس کی مدد سے کال کرنے والے کی جگہ تلاش کر کے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔
چند ایک اور باتیں جو زیادہ معروف نہیں ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ بندرگاہیں اب ان کے بغیر شاید کام ہی نہ کر سکیں کیونکہ ان کے ہاں نصب شدہ کرینیں اب جی پی ایس کی مدد سے کام کرتی ہیں اور وہ سامان کی ترسیل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں جن کی وجہ سے کاریں بنانے والوں اور سپر سٹوروں کا سامان بہت تیزی سے اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتا ہے۔
جی پی ایس کے بغیر ہماری سپر مارکیٹوں کے خانے خالی پڑے رہ جائیں اور قیمتیوں زیادہ ہوجائیں۔
تعمیراتی صنعت میں جب کسی جگہ کام شروع ہوتا ہے تو زمین کا جائزہ لینے کے لیے جی پی ایس کا استعمال کرتے ہیں۔ مچھیرے اپنے علاقوں میں قانونی حد میں رہنے کے لیے اس سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
لیکن جی پی سی صرف اپنی مکان یابی کا ہی ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ وقت کے بارے میں بھی معلومات دیتا ہے۔
اس وقت کرّہِ ارض کے ارد گرد تیس کے قریب مصنوعی سیاروں کا یہ جھرمٹ عین ایک طرح کا درست وقت بتانے کے لیے ایٹمی گھڑیوں کا استعمال کرتا ہے تاکہ ایک ہی وقت میں سگنلز جاری ہو سکیں۔ ان کو استعمال کرنے والے اس کی مدد سے ایک سیکنڈ کے اربویں حصے کے وقت کا بھی تعین کرسکتے ہیں۔
موبائل فونز کے نیٹ ورک اپنے اصل زمینی مرکزی سٹیشن کے مطابق وقت کا درست ترین تعین جی پی ایس ہی کے ذریعے کرتے ہیں، جبکہ مالیاتی اور بینکنگ کے نظام کا بھی بروقت درست تجارتی ادائیگیوں اور وصولیوں کے لیے اسی پر انحصار ہوتا ہے۔
ہم اِس سیٹلائیٹ نظام کے بغیر بالکل غیر فعال ہو کر رہ جائیں گے۔ لیکن کیا اس وقت کہیں کوئی ایسا نظام موجود ہے جو اس کی جگہ لے سکتا ہے؟ اور ہم اس موجود نظام کے بغیر کام کر سکیں گے؟
لندن سکول آف اکنامِکس کی برطانوی حکومت کے لیے تیار کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ایک سیٹلائیٹ نیویگیشن سسٹم کے پانچ دن تک بند رہنے سے ساڑھے چھ ارب ڈالر کا نقصان ہوگا۔
صرف ایک دن کے لیے نیویگیشن سسٹم کے بند ہونے سے امریکی معیشت کو روزانہ کا ایک ارب کا نقصان ہوگا، اور اگر یہ نقصان اپریل اور مئی کے مہینوں کے فصل بونے کے دنوں میں ہوا تو ایک دن میں اس سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا نقصان ہوگا۔
جی پی ایس کے بند ہونے کے واقعات کافی تواتر سے وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔۔۔ فوجی حکام مختلف علاقوں میں اکثر و بیشتر کسی نئے آلے کی ٹیسٹنگ یا فوجی مشقوں کے دوران جی پی ایس کے سگنلز کو مداخلت کرکے بند کرتے رہتے ہیں جِسے ‘جام’ کرنا کہتے ہیں۔
امریکی حکومت خود اکثر و بیشتر ایسے ٹیسٹ یا مشقیں کرتی رہتی ہے جن کے دوران ان سیٹلائیٹس کو ‘جام’ کر دیا جاتا ہے۔ تاہم بعض اوقات فنی خرابی کی بنا پر بھی سیٹلائیٹ کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا میں اس وقت دوسرے سیٹلائیٹ سسٹم بھی موجود ہیں۔ روس کا گلوناس، یورپ کا گیلیلیو اور چین کا بائی ڈاؤ، یہ سب جی پی ایس کے ساتھ ایک ہی طریقے کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ لیکن بڑھتی ہوئی فنی خرابی یا ‘جامنگ’ مصنوعی سیارے (سیٹلائیٹ) سے مکان یابی کا تعین کرنے والے آلات تک جاری ہونے والے سگنلز میں مداخلت کر کے انھیں غیر موثر کرسکتے ہیں۔
رائل انسٹیٹیوٹ آف نیویگیشن کے فیلو اور فیلڈ میں کام کرنے والے ادارے کورونوس ٹیکنالوجی کے بانی، چارلی کری کہتے ہیں کہ ‘اب اکثر و بیشتر فوجی ادارے جامنگ کے خلاف ہیں۔’
فوجی اداروں کی تشویش کی وجہ ان کی اپنی ہے۔ سیٹلائیٹ نیویگیشن کا نظام اصل میں امریکی محکمہِ دفاع کے لیے تیار کیا تھا، لیکن اب یہ ہر شے کی رہنمائی کرتا ہے، ڈرونز کی پرواز سے لے کر بحریہ کے جہازوں تک، ایک سمارٹ بم سے لے کر بری فوج کے سپاہی تک۔ اور اب یہ سب کچھ خطرے میں ہے۔
مجرم بھی جی پی ایس کو جام کرنے کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں جو کہ آن لائن ذرائع سے با آسانی دستیاب ہے۔ وہ اس جامنگ کو چوری شدہ کاروں کو پولیس کی پکڑ سے بچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس کی پرواہ بھی نہیں کرتے ہیں کہ ان کی اس حرکت سے کتنے لوگ متاثر ہوں گے۔ اور پھر اس میں اور بھی بڑے خطرات ہیں۔
ہیمفریز کہتے ہیں کہ ‘جی پی ایس کے لیے ایک ایسا امکانی خطرہ بھی ہے کہ اس کے پورے آپریشنل سسٹم کے انفراسٹرکچر پر حملے سے اسے غیر فعال کرکے امریکہ کے مالیاتی نظام کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔’
قدرتی آفات بھی اسی طرح کے حالات پیدا کر سکتی ہیں۔ سنہ 1859 کے کیرینگٹن ایونٹ جیسا بڑا شمسی طوفان بھی ایک فوجی حملے کی طرح، پورے کے پورے مصنوعی سیاروں کے نظام کو نیچے لےجا سکتا ہے۔
فرض کریں اگر جی پی سی اور اس سے منسلک دوسری ٹیکنالوجیز اچانک غائب ہو جاتی ہیں – تو دنیا کو معمول کے مطابق چلانے کے لیے ہمارے پاس ان ٹیکنالوجیز کے متبادل کیا ہیں؟
جی پی ایس کا ایک ممکنہ متبادل لانگ رینج نیویگیشن (لورن) کا جدید ورژن ہو سکتا ہے جسے دوسری عالمی جنگ کے دوران بحری جہازوں کو بحرِ اوقیانوس کو عبور کرانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ مصنوعی سیاروں (سیٹلائیٹس) کی جگہ زمین پر 200 میٹرز اونچے نصب شدہ ٹرنسمیٹرز جہت یابی (نیویگیشن) کے لیے ریڈیو سگنلز بھیجتے ہیں۔
ابتدا میں لورن ٹیکنالوجی صرف چند میلوں کے فاصلے کے لیے کام کرتی تھی، لیکن 1970 کی دہائی میں یہ چند سو میٹرز کے دائرے میں کسی مقام کی نشان دہی کے قابل ہو گی۔ برطانیہ اور دیگر ممالک نے سنہ 2000 میں جی پی ایس آنے کے بعد، لورن ٹرنسمیٹرز کا استعمال ترک کر دیا تھا۔
تاہم اب جدید اور بہتر کار کردگی والی لورن ٹیکنالوجی جسے ای-لورن کہا جاتا ہے، وہ بھی اتنی ہی درست ہو سکتی ہے جتنی کے جی پی ایس۔ یہ نئی ای-لورن ‘ڈیفرینشل کرویکشن’ ٹیکنیک کے ساتھ سگنلز جاری کرنے اور وصول کرنے کے جدید قسم کے آلات استعمال کرتی ہے، جس میں سگنلز کا اس کے حوالے سے سٹیشن کے مطابق جائزہ لے کر بہتر کیا جاتا ہے تاکہ اس کا استعمال بالکل درست ہو۔
لورن کے جدید اور بہتر ورژن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ 10 میٹر کے فرق سے عین مقام کا تعین کر سکتی ہے۔ جی پی ایس کے برعکس یہ عمارتوں اور تہہ خانوں کے اندر بھی سگنلز پہنچا سکتی ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ سگنلز بھیجنے کے لیے اس میں کم درجہ کی فریکیوینسی اور زیادہ بجلی استعمال کی جاتی ہے۔ ای-لورن کے طاقتور سگنلز کو جام کرنا کافی مشکل ہے ۔
ہیمفریز کا کہنا ہے کہ ‘ای-لورن ایک زبردست ٹیکنالوجی ہے جو قومی رابطے میں تمام رکاوٹیں دور کر سکتی ہے بشرطیکہ اس کو نصب کرنے اور اس کی دیکھ بھال کا عزم ہو۔’
دیگر طریقوں کے لیے کسی نیا انفراسٹرکچر کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ریڈیو کی ایجاد سے کافی پہلے سے بحری جہاز سورج اور ستاروں کی مدد سے اپنی سمتوں کا تعین زاویہِ پیما آلہ کے استعمال سے کرتے تھے۔ آسمان میں ستاروں اور سیاروں کی مدد سے سمتوں کے تعین کا طریقہ جدید دور میں جاری رہا۔
اور حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ بیلاسٹک میزائل جیسے ٹرائیڈنٹ ابھی بھی خلا میں موجود اجسامِ فلکی سے پرواز کے دوران اپنی سمت کا تعین کرتے ہیں۔ ستاروں کی مدد سے زمین پر کسی جگہ کا تعین چند ہزار میٹرز کے دائرے کے آس پاس کرسکتے ہیں۔
لیکن حال ہی میں ایک امریکی کمپنی ڈریپر لیبارٹری نے خلا میں گلوبل پوزیشننگ کی نئی اور جدید قسم تیار کی ہے جِسے ‘سکائی مارک’ کہا جاتا ہے، جو ایک بہت ہی چھوٹی سے دوربین سے، خودکار طریقے، انٹرنیشنل سپیس سٹیشن اور زمین اور ستاروں کے ارد گرد دیگر مدار میں چکر لگانے والے اجسام سے سیاروں کے مداروں کی سمتوں کو جانچ لیتی ہے۔
آسمان میں لاتعداد تیزی سے متحرک اشیا سے سکائی مارک بنا کر پرانے زمانے کے آہستہ آہستہ حرکت کرنے والے ستاروں سے کہیں زیادہ درست سمت کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔
سکائی مارک نظر آنے والے مردہ اور زندہ سیاروں کا ڈیٹا استعمال کرتے ہیں اور کسی جگہ کو 15 میٹر دائرے کے اندر کی درستگی کے مطابق تعین کرتے ہیں، جو کہ جی پی ایس کی طرح درست ہے۔
ڈریپر کمپنی کے انجینیئر اور گروپ لیڈر بینجمن لین کہتے ہیں کہ بعض اوقات یہ اس سے بھی زیادہ درست ثابت ہو سکتی ہے، لیکن اس بات کا انحصار اس چیز پر ہوتا ہے کہ یہ بیک وقت کتنے سیارے دیکھ پاتی ہے۔
بینجمن کہتے ہیں کہ ‘اجسام فلکی کی مدد سے نیویگیشن ایک یا دو میٹرز کی درستگی سے کی جا سکتی ہے۔ اس میں صرف ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ کون سا سیارہ ریفرنس کی بنیاد ہے۔’
اس میں ایک اور قباحت یہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی صرف صاف آسمان کی صورت میں کام کرتی ہے۔ نظر آنے والی لائٹ کی بجائے انفرا ریڈ لائٹ کو استعمال کیا جاتا ہے جو کہ بادلوں کے درمیان سے باآسانی گزر جاتی ہے، تاہم شمالی اور جنوبی قطبوں میں جہاں گہرے سیاہ بدل بہت زیادہ ہوتے ہیں، اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا ہے۔
شاید روزمرہ کے کام کرنے کے لیے خود کارانہ رہنمائی (اِنرشیل نیویگیشن) جمودی جہت یابی کے لیے استعمال ہو سکے، جو گاڑی کی رفتار اور اس کی سمت جاننے کے بعد اس کے مقام کا تعین کے لیے ایکسیلورومیٹرز کے سیٹ استعمال کرتی ہے۔ اس کے اصل ماڈلز اس وقت کافی زیادہ زیرِ استعمال ہیں۔
کری کہتے ہیں کہ ’جب آپ کی گاڑی کسی سرنگ سے گزرتی ہے اور آپ کا جی پی ایس سگنلز کھو بیٹھتا ہے تو اس وقت یہ انرشیل نیویگیشن ہوتی ہے جو آپ کو پوزیشن سے آگاہ رکھتی ہے۔‘
انرشیل نیویگیشن کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک جگہ نہیں ٹھہرتی پاتی، اس کا اپنے حساب سے تعین شدہ مقام بدلتا رہتا ہے اور یہ درست نہیں رہتا اور غلطیاں ہونے لگتی ہیں، اس لیے انرشیل نیویگیشن جو آپ کی کار میں لگا ہوتا ہے یہ جی پی ایس کے تھوڑی دیر کے لیے بند ہونے کے بعد کچھ عرصے کے لیے ہی ٹھیک رہتا ہے۔
اس کے ایک جگہ نہ ٹھہر پانے کے نقص پر کوانٹم سینسرز نصب کرنے سے بہت حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ کوانٹم کی دنیا میں ایٹمز اور ذرات مادّے اور لہروں کا سا رویہ اپناتے ہیں اور ایکسلیریشن ان کی خصوصیات کے اس رویہ کو بدل دیتی ہے۔
فرانس کی ایک کمپنی ‘آئی ایکس بلیو’ اس ٹیکنیک کا استعمال کرتے ہوئے جی پی ایس کے مقابلے کی سطح کی ایک مشین تیار کر رہی ہے، جبکہ امپیریل کالج لندن کی ایک ٹیم لیزر سپیشلسٹ ‘ایم سکوئیرڈ’ کے ساتھ کام کر رہی ہے اور انھوں نے سنہ 2018 میں پورٹیبل کوانٹم ایکسیلیرسٹر کا ایک نمونہ تیار کیا تھا۔
اس قسم کے کوانٹم سینسرز ابھی تک لیباریٹیوں کی حد تک محدود ہیں اور کمرشل سطح پر ایک قابلِ استعمال پراڈکٹ بننے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔
آپٹیکل نیویگیشن شاید جلد ہی مارکیٹ میں آجائے، اس میں کیمرے کے ذریعے عمارتیں، چوراہے وغیرہ جیسے زمینی نشانات کو نیویگیشن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک نمونہ، ‘ڈیجیٹل سین میچنگ’ کروز میزائلوں کے لیے کچھ عرصہ پہلے تیار کیا گیا تھا۔
‘امیج نیو’ امریکی سائنسدانوں نے امریکی ائیر فورس کے لیے تیار کیے، یہ طیاروں کے لیے ایک جدید ترین آپٹیکل نیویگیشن سسٹم ہے۔ اس میں ایک خطے کی زمین کا پورا ڈیٹا بیس ہوتا جو کیمرے کی ویڈیوز سے موازنہ کرتا ہے اور اصل مقام کا تعین کرتا ہے۔ ‘امیج نیو’ کا کئی جہازوں پر کامیاب ٹیسٹ ہو چکا ہے لیکن ان کو کاروں پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
سویڈن کی ایک کمپنی ‘ایورڈرون’ نے پہلی مرتبہ ہسپتالوں کے درمیان سامان کی ترسیل ڈرونز کے ذریعے بغیر ڈاکٹروں کے کی۔ ان کا سسٹم آپٹیکل ڈیٹا ۔۔۔ جو کیمرہ دیکھتا ہے وہ اس کی رفتار کا تعین کرتا ہے ۔۔۔ اور زمین پر نظر آنے والی تصویروں کا اپنے ڈیٹا سے موازنہ کر کے منزل ایک جی پی ایس کی طرح تلاش کرتا ہے۔
بلاشبہ اس طریقے میں جس علاقے میں منزل کو ڈھونڈنا ہے اس علاقے کی درست تصویروں کا ڈیٹا پہلے سے موجود ہونا ضروری ہے ، جس کے لیے مسلسل ڈیٹا کو بہتر کرتے رہنا اور طاقتور میموری کی ضرورت ہے۔
برطانیہ وقت کی ہم آہنگی کے لیے ایک متبادل تیار کر رہا ہے جو کہ جی پی ایس نیشنل ٹائمنگ سینٹر پروگرام کی صورت میں ڈیٹا مہیا کرے گا، جو کہ دنیا کی سب سے پہلی سروس ہوگی۔ جب یہ سنہ 2025 میں قابلِ استعمال بن چکا ہو گا یہ برطانیہ میں مختلف مقامات پر لگائی گئی ایٹمی گھڑیوں کا ساتھ وابستہ ہو جائے گا اور کیبل کے ذریعے سگنلز جاری کرے گا۔
اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر سیٹلائٹ سگنلز غیر فعال ہوجاتے ہیں، اور ایسی صورت میں جب مرکز غیر محفوظ ہو جائے، پھر چاہے وہ کسی حملے کی وجہ سے ہو، فنی خرابی کی وجہ سے، سائبر حملے کی وجہ سے یا صرف ایک حادثے کے باعث، تو یہ متبادل کے طور پر استعمال ہو سکے گا۔
اس کا مطلب ہے کہ جی پی ایس جیسے سیٹلائیٹ نیویگیشن سسٹم کی جگہ کوئی ایک سسٹم نہیں لے گا اور شاید ہم مختلف قسم کے سسٹم ملا جلا کر استعمال کریں، بحری جہازوں کے لیے کوئی اور تناسب ہو، طیاروں کے لیے کچھ اور ہو اور کاروں کے لیے کچھ اور ہو۔
امریکہ کا محکمہ مواصلات اس وقت جی پی ایس کے موزوں متبادل کے انتخاب کے لیے تحقیق کر رہا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ آیا مستقل قریب میں کوئی متبادل جلد تیار ہو جائے گا یا نہیں۔
کری کا کہنا ہے کہ ’اب اس مسئلے کے بارے میں ایک احساس پیدا ہو رہا ہے لیکن پیش رفت اب بھی بہت ہی آہستہ رفتار سے ہو رہی ہے۔‘
ہم اب بہت زیادہ مکمل درست نیویگیشن کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ خودکار ڈرائیو کرنے والی کاریں، سامان کی ترسیل کرنے والے ڈرونز، پرواز کرنے والی ٹیکسیاں یہ سب کچھ ایک دہائی تک آپ کو نظر آئیں گی۔ اور یہ سب کے سب جی پی ایس پر انحصار کریں گے۔
کری کا خیال ہے کہ کوئی شخص، کسی مناسب جگہ پہ بیٹھ کر، کسی طاقتور جامر کے ذریعے لندن جیسے بڑے شہر کے جی پی ایس کو غیر فعال کرسکتا ہے۔ جب تک ایک موثر قسم کا متبادل نظام تیار نہیں ہو جاتا، شاید پورا شہر کسی بھی وقت صرف ایک کِلِک کے ذریعے مکمل طور پر بند ہوسکتا ہے۔