مہنگائی: پاکستان میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟
پاکستان کے شہر کراچی میں رہائش پذیر راحیل بٹ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرتے ہیں جبکہ اُن کی اہلیہ بھی ایک سکول میں ملازمت کرتی ہیں۔
دونوں کی آمدنی سے گھریلو اخراجات پورے ہو رہے تھے اور ماہانہ بنیادوں پر کچھ نہ کچھ بچت بھی ہو جاتی تھی۔ راحیل اور ان کی اہلیہ کی آمدنی کو ملایا جائے تو وہ پاکستان کی نیم متوسط آمدنی والے گھرانوں میں شمار ہوتے ہیں۔
حالیہ عرصے میں راحیل کی اہلیہ کی تنخواہ میں اگر اضافہ نہیں ہوا تو کمی بھی نہیں ہوئی، تاہم راحیل کے کاروبار کے حالات گذشتہ کئی ماہ سے اچھے نہیں چل رہے ہیں۔ کورونا وائرس کے معیشت پر منفی اثرات نے راحیل کے کاروبار کو بھی متاثر کیا تو دوسری طرف ملک کے مجموعی معاشی حالات بھی اُن کے کاروبار پر منفی انداز میں اثر انداز ہوئے جن کی وجہ سے ان کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی۔
آمدن میں کمی اس وقت واقع ہوئی جب گھر کے اخراجات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان اخراجات میں زیادہ اضافہ اشیائے خردونوش کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ کرائے کے گھر میں رہائش پذیر اس چھوٹے سے خاندان کے گھی، چینی، آٹا، چاول، دالیں اور کچھ دوسری اشیا پر اٹھنے والے ماہانہ اخراجات حالیہ دنوں میں لگ بھگ آٹھ ہزار سے بڑھ کر تقریباً 13 ہزار تک جا پہنچے ہیں۔
ان کے مطابق ان میں دودھ، دہی، انڈوں کے اخراجات شامل نہیں جن کی قیمتیں بھی بہت بڑھ چکی ہیں۔ آمدن میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ اس وقت صرف راحیل بٹ اور ان کے خاندان کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان میں درمیانے اور نچلے طبقات کا بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
حالیہ عرصے میں اشیائے خورد و نوش اور ضروریات زندگی کی دوسری چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر وزیر اعظم عمران خان نے نوٹس لیتے ہوئے اس کے تدارک کے احکامات جاری کیے ہیں۔
پاکستان میں مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کرنے والے سرکاری ادارے وفاقی ادارہ شماریات نے ستمبر کے مہینے میں مہنگائی کی شرح میں 9.04 فیصد اضافے کا اعلان کیا تھا جو اگست کے مہینے میں 8.02 فیصد تھی۔
پاکستان کے مرکزی بینک نے بھی ستمبر کے آخر میں اپنی زرعی پالیسی میں غذائی اجناس کی رسد میں رکاوٹوں کی وجہ سے مہنگائی کے بڑھنے کے بارے میں اشارہ کیا تھا۔
پاکستان میں مہنگائی جانچنے کا پیمانہ
پاکستان میں مہنگائی جانچنے کا پیمانہ کنزیومر پرائس انڈیکس ہے جسے عام طور پر سی پی آئی کہا جاتا ہے۔ اس انڈیکس کے ذریعے پاکستان میں مہنگائی کی شرح کو معلوم کیا جاتا ہے۔
کنزیومر پرائس انڈیکس میں آبادی کی عمومی استعمال میں آنے والی اشیا اور خدمات کا ایک سیٹ بنایا جاتا ہے جسے سی پی آئی باسکٹ کہا جاتا ہے۔ اس باسکٹ میں موجود مختلف چیزوں کی قیمتوں کو پر نظر رکھی جاتی ہے۔
سی پی آئی باسکٹ کے مطابق ایک پاکستانی اوسطاً 34.58 فیصد کھانے پینے کی اشیا پر خرچ کرتا ہے، 26.68 فیصد مکان کے کرائے، بجلی، گیس، پانی کے بلوں اور ایندھن پر، 8.6 فیصد کپڑوں اور جوتوں کی خریداری پر، تقریباً سات فیصد ہوٹلنگ، تقریباً چھ فیصد نقل و حمل، چار فیصد سے زائد گھر کی تزئین و آرائش اور مرمت پر، 3.8 فیصد تعلیم اور 2.7 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔
پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کی بڑی وجہ ’فوڈ انفلیشن‘ یعنی غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں مالی سال 2018-19 میں مہنگائی کی شرح مجموعی طور پر 6.8 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جو مالی سال 2019-20 کے اختتام پر 10.7 فیصد کی شرح پر بند ہوئی۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی سابقہ وفاقی حکومت میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے دور اقتدار میں مہنگائی کی شرح چار فیصد تک رکھنے کا دعویٰ کیا تھا۔
غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ
پاکستان میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان دیکھا جائے تو مقامی طور پر پیدا ہونے والی اور باہر سے درآمد ہونے والی اشیا دونوں کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
آٹے کی قیمت میں گذشتہ سال ستمبر کے مقابلے میں اس سال ستمبر تک 50 سے 60 فیصد اضافہ ہوا، چینی کی قیمت میں 20 سے 30 فیصد، دال مسور کی قیمت میں 25 فیصد، مونگ کی دال میں 40 فیصد سے زائد، دال ماش کی قیمت میں 30 فیصد سے زائد، کوکنگ آئل کی قیمت میں 10 فیصد، خشک دودھ کی قیمت میں پانچ فیصد، گوشت کی قیمتوں میں تقریباً 10 فیصد، دودھ کی قیمت میں 10 فیصد سے زائد اضافہ دیکھا گیا اور چاول کی قیمت بھی 10 فیصد سے زائد بڑھی۔
یاد رہے کہ برائلر چکن، انڈوں، ٹماٹر، پیاز اور پھلوں کی قیمتیں سیزن کے آف اور آن ہونے کے بعد بڑھتی گھٹتی ہیں تاہم سپلائی چین میں تعطل ان کی قیمتوں کو خراب کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔
پاکستان میں مہنگائی کیوں بڑھی رہی ہے؟
ماہرین معیشت غذائی اشیا کی قیمتوں میں اس اضافے کی وجہ سپلائی چین میں تعطل، ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ اور حکومت کی بدانتظامی کو قرار دیتے ہیں۔
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ سپلائی چین میں اتنا زیادہ تعطل آیا کہ سبزیوں تک کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔
اُن کے مطابق اس کی ایک مثال ٹماٹر ہے جس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے کو ملا جس کی ایک ہی وجہ تھی کہ اس کی رسد میں بہت زیادہ تعطل آیا۔ انھوں نے چینی اور آٹے کی قیمتوں کو ان کی ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ سے جوڑا اور کہا کہ ذخیرہ اندوز ان کی قیمتیں بڑھتی دیکھ رہے ہیں تو انھوں نے ان اشیا کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی۔
انھو ں نے کہا چار پانچ سال کے بعد انڈوں اور دودھ کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں جس کی بڑی وجہ حکومت عدم توجہ ہے۔
ڈاکٹر پاشا نے کہا اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ زرعی شعبے کا مسلسل نظر انداز ہونا بھی ہے اور جس کی وجہ سے گندم کی فصل کی پیداوار میں کمی آئی اور مزید کمی آنے کا امکان ہے جو ذخیرہ اندوزی کو ہوا دے رہا رہی ہے۔
انھوں نے حکومت کی گندم اور چینی کی درآمد میں تاخیر کو بھی اس ساری صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا یہ اقدام اگر پہلے اٹھا لیا جاتا تو صورتحال اس قدر خراب نہ ہوتی۔
ماہر معیشت محمد سہیل نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ قیمتوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ تو انتظامی طور پر کمزوری ہے کہ جس کی وجہ سے حکومت اجناس کی رسد و طلب کا صحیح اندازہ نہ کر سکی اور جب ان کی درآمد کا فیصلہ کیا تو بہت دیر کر دی جس نے اس کی قیمتوں کو کم کرنے میں مدد فراہم نہیں کی۔
انھوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی نے بھی قیمتوں میں اضافے میں کردار ادا کیا۔ ملک میں شرح سود میں کمی کے بعد لوگوں کی پیسے خرچ کرنے کی عادات میں بھی فرق آیا ہے۔ جب کم شرحِ سود پر بینک سے قرضہ مل رہا ہے تو لوگ لاگت پر میسر فنانسنگ کو خرچ کرتے ہیں جو اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔
تاہم محمد سہیل کے مطابق سب سے بڑا اثر کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے نے ڈالا ہے جس کا پاکستان کی سی پی آئی میں سب سے بڑا حصہ ہے۔
مہنگائی پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟
مہنگائی پر قابو پانے کے سلسلے میں ماہر معیشت محمد سہیل نے کہا کہ اسے تین طرح سے ہینڈل کیا جا سکتا ہے۔ جن میں ایک حکومت کے انتظامی فیصلوں میں بہتری کی صورت میں نکل سکتا ہے کہ جس کے ذریعے ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کو روکا جائے۔
دوسرا حکومت کو بروقت فیصلہ سازی کرنا ہو گی کہ کس چیز کی ملک میں کمی پر اس کی درآمد فوری کی جائے۔ حکومت نے گندم درآمد کی تاہم اس میں اتنی تاخیر کی اس نے قیمتوں میں کمی میں مدد نہیں دی۔
تیسرا سٹیٹ بینک کو بھی اپنی مانیٹری پالیسی زمینی حقائق کے مطابق ڈھالنی چاہیے کہ جس سے ایک طرف کاروباری سرگرمیاں بڑھ سکیں تو دوسری طرف مہنگائی کو بھی قابو میں رکھا جا سکے۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا نے مہنگائی پر قابو پانے کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس پر قابو پانا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کام ہے جس میں زیادہ کردار وفاقی حکومت کا ہے، جو قیمتوں کا تعین کرتی ہے۔
انھوں نے حکومت کے ٹائیگرز فورس کے ذریعے مہنگائی پر قابو پانے کے اقدام کو نامناسب قرار دیا اور کہا کہ ضلع کی سطح پر پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو بحال کر کے قیمتوں کو قابو میں رکھنے کا کام کرنا ہو گا۔
ڈاکٹر پاشا نے زرعی شعبے پر خصوصی توجہ کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ جب تک اس شعبے کو ترقی نہیں دی جاتی اجناس کی قیمتوں میں کمی لانا مشکل ثابت ہو گا۔
حکومت کا کیا کہنا ہے؟
وزیر اعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک حالیہ پیغام میں کہا ہے کہ حکومت اشیائے خورونوش سستی کرنے کے لیے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لائے گی۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم پہلے ہی مہنگائی کے عوامل کا جائزہ لیتے ہوئے تعین کر رہے ہیں کہ آیا رسد میں واقعی کمی ہے یا مافیا کی جانب سے ذخیرہ اندوزی و سمگلنگ وغیرہ اس کا سبب ہیں۔‘
انھوں نے ٹائیگر فورس کو اپنے اپنے علاقوں میں قیمتوں کا جائزہ لے کر جائزہ رپورٹیں ٹائیگر فورس پورٹل پر پوسٹ کرنے کو کہا ہے۔ ان رپورٹس کا جائزہ جلد ہی اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں لیا جائے گا۔
دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے مہنگائی کو حکومت کی سب سے بڑی دشمن قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا مہنگائی کو اس سال نہ روکا تو ہمارے خلاف عوام کا غصہ بڑھے گا۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کم آمدنی اور زیادہ اخراجات کو مہنگائی کی وجہ قرار دیا ہے۔