ادّھا پہلوان اور مزاحمتی ادب!
ادّھا پہلوان ٹھنڈی کھوئی والا بہت عرصے کے بعد مجھے اِن دنوں بہت خوش نظر آ رہا ہے، میں کل اُس کی دکان پر لسی پینے گیا تو وہاں حسبِ معمول بہت رش تھا اور اُس نے حسبِ معمول میری عزت افزائی کرتے ہوئے ’’چھوٹے‘‘ کو آواز لگائی اور کہا ’’تو دیکھتا نہیں ’قاشمی شاب‘ کھڑے ہیں، اُن کے لئے اشٹول لے کر آ‘‘ اور اِس کے ساتھ اُس نے میری مزید ’’عزت افزائی‘‘ کے لئے اسٹول نہ لانے کی صورت میں میرے بیٹھنے کی جو جگہ’’چھوٹے‘‘ کو بآواز بلند بتائی، وہ آپ یہی سمجھیں کہ مجھے سنائی ہی نہیں دی۔ بہرحال میں نے اُس کی اِس بےہودہ ’’عزت افزائی‘‘ کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا ’’ادّھے پہلوان کیا بات ہے، اِن دنوں بڑے خوش نظر آ رہے ہو؟‘‘۔ یہ سن کر اُس نے سامنے کھڑے گاہکوں کو مخاطب کرکے کہا ’’چلو پُھٹاں کھائو، سودا ختم ہو گیا ہے، اب کل آنا‘‘ حالانکہ ابھی دس بیس دہی کے کُونڈے اندر پڑے تھے اور دودھ کی کڑاہی بھی موجود تھی۔ ایک دو گاہکوں نے بحث کی کوشش کی تو ادّھا پہلوان بازو چڑھا کر اپنی چوکی سے اٹھا اور اُس کے ’’ایکشن‘‘ سے پہلے ہی گاہک تتر بتر ہو گئے۔
جب میدان خالی ہو گیا تو ادّھا پہلوان دکان کا شٹر نیچا کرکے اپنے اسٹول پر میرے ساتھ بیٹھ گیا، میں نے کہا ’’ہاں بئی ادّھے پہلوان، اب بتا تو اتنا خوش کیوں نظر آ رہا ہے؟‘‘ بولا ’’قاشمی شاب‘‘ اتنے عرصے کے بعد تو سیاست میں کھڑکا دڑکا شروع ہوا ہے، چاروں طرف سناٹا طاری تھا، میرا تو جسم ٹوٹنا شروع ہو گیا تھا، میں ٹی وی پر توُ توُ، میں میں سنتا تھا یا کبھی کوئی کسی کے ’’ہتھے‘‘ چڑ جاتا تھا، جلسے جلوسوں کا اعلان ہوا ہے تو لگا کہ پہلوان جسم پر مٹی مل کر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں‘‘۔ میں نے پوچھا ’’ادّھے اب تیرا کیا پروگرام ہے؟‘‘ بولا ’’میری تو اب موجیں ہی موجیں ہیں، میں نے چار پانچ اور چھوٹے کام کے لئے رکھ لئے ہیں، اپوزیشن اور حکومت کے سپورٹروں کا اب ایک ہجوم ہوا کرے گا جو اپنے ساتھیوں کو پیڑوں والی لسی پلایا کریں گے، مجھ سے تو اب دولت سنبھالی نہیں جانی‘‘۔ میں ادّھے کی بات پر حیران ہوا اور کہا ’’یار تو اِس جنگِ پلاسی کا صرف تماشا دیکھے گا‘‘۔ یہ سن کر ادّھے نے مجھے غصے سے دیکھا اور کہا ’’قاشمی شاب، آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں، میں نے اپنے بھائی وڈّے پہلوان کو کل سے دکان سنبھالنے کا کہا ہے، اب آپ سے میری ملاقات جلسے جلوسوں میں ہوا کرے گی‘‘۔ میں نے اپنی شرمندگی چھپاتے ہوئے کہا ’’یار ادّھے، تجھے پتا ہے کہ میرے گھٹنوں کا مسئلہ ہے، میں تو دس بارہ قدموں سے زیادہ چل نہیں سکتا‘‘۔ اِس پر ادّھے پہلوان نے کہا ’’گوجرانوالہ دس بارہ قدم ہی پر تو ہے‘‘۔ میں بولا ’’اللہ سے ڈر ادّھے پہلوان، یہ توُ کیا کہہ رہا ہے؟‘‘بولا ’’اچھا، زیادہ دور ہے؟ تو کوئی بات نہیں، میں آپ کو اپنے کاندھوں پہ بٹھا کر لے جائوں گا‘‘۔ یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی، میں نے کہا ’’یار میں تو تجھے اپنا دوست سمجھتا تھا مگر تو تو میرا دشمن نکلا۔ توُ نے مجھے اپنے کاندھوں پر اُٹھایا ہوگا، حکومت مجھے اپوزیشن کا لیڈر سمجھے گی اور مجھے راوی کے پل پر سے ہی گرفتار کر لیا جائے گا‘‘۔ یہ سن کر ادّھا پہلوان سوچ میں پڑ گیا اور مجھ سے پوچھا ’’تو پھر کیا کیا جائے‘‘ میں نے کہا ’’کرنا کیا ہے، تو اکیلا جا، تجھے پتا ہے، میں ادیب ہوں اور ادیب کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ آج کل سارے ادیب گھنگھنیاں منہ میں ڈالے بیٹھے ہیں۔ تم نے وجاہت مسعود کا کالم نہیں پڑھا‘‘ بولا ’’پڑھا تو تھا، بس کچھ کچھ سمجھ آیا تھا‘‘۔ میں بولا جتنا تو سمجھ نہیں سکا تھا، اتنا میں تمہیں بتا دیتا ہوں‘‘۔ ادّھے نے کہا ’’چلو آپ سمجھا دیں، اگر آپ کو سمجھ آیا تھا‘‘۔ میں نے اُسے بتایا کہ وجاہت مسعود بہت بڑا دانشور ہے، صرف کالم نگار نہیں، اُس نے اپنے کالم میں ماضی کے ادیبوں کی مثالیں دی تھیں جو مختلف نظریاتی کیمپوں سے تعلق رکھنے کے باوجود کبھی مختلف قومی تحریکوں میں ایک ہو جاتے تھے اور مزاحمتی ادب تخلیق کرتے تھے، ادّھے پہلوان نے پوچھا ’’یہ مزاحمتی ادب کیا ہوتا ہے قاشمی شاب؟‘‘ میں نے کہا ’’یار کبھی ہوتا تھا، اب نہیں ہوتا، اب یار لوگ غزلیں کہتے ہیں اور محبوب کی جفا پروری کے بارے میں اگر مزاحمتی ادب وہاں اُن سے پوچھے کہ محبوب کون ہے اور جفا کون کر رہا ہے، تو وہ کہتے ہیں، محبوب سے مراد ظالم طبقہ ہے جو عوام پر جفا یعنی ظلم کر رہا ہے‘‘۔ مجھے علم تھا کہ ادّھے پہلوان کے پلے کچھ نہیں پڑا۔ چنانچہ میں نے اُسے کہا ’’تو دفعہ کر اِس مسئلے کو، تو نے جو کرنا ہے وہ کر، میں گھر جا رہا ہوں، میں نے محبوب کی جفا پروری پر ایک غزل کہنا ہے، بس دعا کرنا واہ واہ ہو جائے!‘‘۔
ادّھا پہلوان میری بات سن کر حیرانی سے مجھے دیکھتا رہا اور میں نے خدا حافظ کہہ کہ وہاں سے نکلنے ہی میں عافیت سمجھی!‘‘۔