دراصل بازار عمران خان کا حقیقی دشمن ہے
اس وقت سب سے قابلِ رحم حالت ذرائع ابلاغ کی ہے۔ وہ یہ تو نہیں بتا یا دکھا پا رہے کہ نواز شریف نے دراصل آرمی چیف یا آئی ایس آئی کے سربراہ کے بارے میں کیا کہا مگر جو بھی کہا اس پر تنقید و تجزیات کو ضرور نمایاں کرنے پر مجبور ہیں۔
یہی کچھ چند ہفتے قبل کسی ویب سائٹ پر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کے اہلِ خانہ کے مبینہ سمندر پار اثاثوں سے متعلق رپورٹ کے ساتھ بھی ہوا۔ اصل رپورٹ کسی چینل یا اخبار نے نہیں دکھائی یا چھاپی، البتہ رپورٹ کی صداقت کو چیلنج کرنے کے لیے میڈیا کو ضرور آزادی میسر رہی۔
اگر ایک ریٹائرڈ جرنیل کے سلسلے میں احتیاط کا یہ عالم ہے تو اسی میڈیا سے یہ توقع رکھنا بہت زیادتی ہو گی کہ وہ حاضر سروس اعلیٰ فوجی عہدیداروں کے بارے میں تین بار وزیرِ اعظم رہنے والے سویلین کے بیان کو من و عن کور کر سکے۔
نواز شریف کی جانب سے ’نام لے کر تنقید‘ والی تقریر کے فوراً بعد صرف ایک انگریزی اخبار ڈان کی ویب سائٹ پر اسے نمایاں سرخی بنایا گیا مگر تھوڑی دیر بعد ہی وہ سرخی بھی نیلی پڑ گئی۔
وہ تمام ٹی وی اینکرز جو اب تک سیاستدانوں کو چھیڑتے تھے کہ آپ اسٹیبلشمنٹ، محکمۂ زراعت، خلائی مخلوق، فرشتے جیسی اصطلاحات کے پیچھے چھپنے کے بجائے کھل کر نام کیوں نہیں لیتے؟ اب جب کہ ایک سیاستدان نے کھل کے نام لے لیا ہے تو وہی اینکرز ’آں، ایں، اوں، دراصل، چونکہ‘ کے پیچھے چھپتے پھر رہے ہیں۔
یہ نوبت نہیں آنی چاہیے تھی کہ کسی قومی ادارے کی قیادت پر نام لے کر تنقید کی جائے مگر اس دن کے پیچھے 74 برس کی آنکھ مچولیانہ قومی تاریخ ہے۔
اس عرصے میں سے 35 برس براہِ راست فوجی حکومت رہی اور باقی وقت کاروبارِ مملکت کی باگیں ہاتھ میں رکھنے کی بلاواسطہ کوشش ہوتی رہی۔
ہر نیا مارشل لا فوجی حکمران اور اس کے ساتھیوں پر براہ راست تنقید کا راستہ کھولتا رہا۔ یوں ہر مارشل لا فوجی قیادت کی توقیر کو بٹہ لگاتا رہا۔
پاکستان کا ہر صوبہ ماسوائے پنجاب دبے یا کھلے لفظوں میں وفاق اور وفاق کے پردے کے پیچھے بیٹھنے والوں سے شاکی رہا۔
لیکن کسی صوبے کی صفِ اول کی قیادت نے سوائے فوجی صدور کے کسی حاضر سروس جرنیل کا نام لے کر تنقید نہیں کی۔
لہٰذا نوبت اگر یہ آجائے کہ وسطی پنجاب میں کوئی صفِ اول کا پنجابی لیڈر کھلے جلسے میں نام لے کر بات کرے اور مجمع آوازے کسنے کے بجائے تالیاں بجائے تو پھر کہیں نہ کہیں کچھ تو گڑبڑ ہے جسے سدھارنے کی فوری ضرورت ہے، قبل اس کے کہ یہ چلن عام ہوتا جائے۔
پہلا آزمودہ طریقہ تو یہ ہے کہ نام لینے والے پر مزید مقدمات بنا دیے جائیں۔ اسے ایک بار اور ’غدار‘ اور ’انڈین ایجنٹ‘ کہہ دیا جائے ۔اور کورس کے انداز میں تکرار جاری رکھی جائے کہ کسی ایک ریٹائرڈ یا حاضر عہدیدار پر تنقید دراصل ’پورے ادارے کو مطعون کرنے کے برابر ہے۔‘
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہر ادارہ دوسرے ادارے کے دائرے میں کارکردگی پر نظر رکھنے کے بہانے گھسنے سے پہلے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی کارکردگی میں بھی جھانکے۔ تاکہ وہ خامیاں خود کو بھی دکھائی دے سکیں جن کے ہوتے جو باتیں ڈرائنگ روم میں ہوتی تھیں اب کھلے عام ہو رہی ہیں۔
خلقِ خدا دن بدن بیباک و بدتمیز ہوتی جا رہی ہے اور اس بدتمیزی کی زد میں سیاست دان اور پارلیمان تو خیر پہلے سے ہی ہیں۔ اب نیب کے بعد عدلیہ اور فوج بھی آ چکے ہیں۔
ایک جمہوری فضا میں کسی بھی قابلِ اعتراض بیانیے کا جواب بیانیے سے دیا جانا چاہیے۔ مگر اس کے لیے تھوڑی علمی و تجزیاتی محنت و سیاسی شعور درکار ہے۔
چنانچہ آسان راستہ اپوزیشن یا حکومت کے لیے یہ ہے کہ ایک کہے کہ ’تو کمینہ‘ تو دوسرا کہے ’تو خبیث‘، ’تو چور‘، ’نہیں تو ڈاکو‘، ’تو انڈین ایجنٹ‘، ’نہیں تو یہودی ایجنٹ‘۔ اسے گالم گلوچ تو کہا جا سکتا ہے، بیانیہ ہرگز نہیں۔
تیسرا آسان طریقہ یہ ہے کہ جس سے اختلاف ہو اس کو ماضی کے طعنوں سے چھلنی کیا جاتا رہے۔ مثلاً یہ کہ جو نواز شریف آج فوجی قیادت پر تنقید کر رہا ہے وہ کل تک خود فوج کی گود میں بیٹھا تھا۔ اس طرح کے طعنوں سے دل کا غبار تو نکل سکتا ہے مگر یہ مدلل بیانیے کا متبادل نہیں ہو سکتا۔
بہت کم لوگ ہیں جن کے ماضی پر سوالیہ نشان نہیں۔ لیکن ماضی کے آئینے میں حال کو جانچنا خود کو دھوکہ دینا ہے۔ انسان کی سوچ اور نظریہ وقت اور حالات کے اعتبار سے سدھرتا سنورتا بدلتا رہتا ہے۔ کئی برس بعد مورخ فیصلہ کرتا ہے کہ کسی کو کیسے یاد رکھا جائے اور تاریخ کے کس خانے میں رکھا جائے۔
مثلاً 1857 کی جنگِ آزادی میں پہلی گولی چلانے والا منگل پانڈے انگریزی فوج کا سپاہی تھا۔ کیا تاریخ اسے آج بھی اسی شناخت سے یاد رکھتی ہے؟
انڈین نیشنل کانگریس کی ابتدائی قیادت انگریز یا انگریز نواز تھی۔ مگر برصغیر کی تقسیم سے پہلے یا بعد کی کانگریس کی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے بھی کیا یہی کہا جائے گا کہ وہ انگریزوں کی کاسہ لیس تھی۔
جناح صاحب مسلم لیگ سے پہلے کانگریس میں تھے اور مسلم قوم پرست بننے سے پہلے ہندوستانی قوم پرست تھے۔ کیا آج پاکستان یا انڈیا میں کوئی کہتا ہے کہ پاکستان ایک سابق کانگریسی ہندوستانی قوم پرست محمد علی جناح نے بنایا۔
ذوالفقار علی بھٹو پہلی مارشل لا کابینہ میں شامل تھے اور جنرل ایوب خان کے چہیتے تھے۔ تو کیا جس بھٹو کو پھانسی دی گئی اس کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ وہ فوج کے گملے میں پروان چڑھا؟
2011 سے پہلے پہلے تحریکِ انصاف کی قیادت کرنے والے عمران خان کے بارے میں بھی کیا یہی تاثر تھا کہ اس کے سر پر دراصل اوپر والوں کا سایہ ہے؟
حزبِ اختلاف کی موجودہ تحریک عمران حکومت کو کمزور تو کر سکتی ہے ختم نہیں کر سکتی۔ جیسے 2014 کے عمرانی دھرنے نے نواز شریف کو کمزور ضرور کیا مگر ختم نہیں کر سکا۔ اس وقت اگر حکومت کا کوئی حقیقی دشمن ہے تو وہ آٹا چینی دال سبزی اور بے روزگاری ہے۔
برصغیر سے انگریز کا بوریا بستر گول ہونے میں ایک بنیادی عنصر 1943/44 کا قحطِ بنگال تھا، خواجہ ناظم الدین کو گندم کی قلت نے چلتا کیا تھا، ایوب خان کو چینی لے ڈوبی تھی، بھٹو کے زوال میں پی این اے سے زیادہ بازار کے پہیہ جام نے بنیادی کردار ادا کیا۔ رضا شاہ پہلوی کو بازار نے اکھاڑا تھا، عرب سپرنگ کے شعلے تیونس میں ایک سبزی فروش کے ٹھیلے سے بھڑکے تھے۔
قلت و بے یقینی فصیل کھود رہی ہے اور سرکاری توپیں حزبِ اختلاف پر گولہ باری کر رہی ہیں۔ اگر دوربینی یہی ہے تو کور چشمی کیا ہے؟