نادیہ سیفائر: جنسی ہراس کا سامنا کرنے والی برطانوی خاتون ریسلر جو اس صنعت کو محفوظ بنانا چاہتی ہیں
‘میں جیسے ہی 16 سال کی ہوئی تو لوگوں نے کوششیں شروع کر دیں کہ دیکھیں کون میرے ساتھ پہلے سوتا ہے۔‘
کارڈف سے تعلق رکھنے والی نادیہ سیفائر نے 14 سال کی عمر میں ریسلنگ (کشتی) کے میدان میں قدم رکھا تھا۔ 15 سال کی عمر میں ان کا اپنے سے ایک بڑی عمر کے ریسلر کے ساتھ قریبی تعلق قائم ہو گیا۔
جب وہ 16 سال کی ہوئیں تو وہ ویلز میں اپنی تربیت جاری رکھنے کے حوالے سے بہت پریشان تھیں۔
نادیہ ان خواتین ریسلرز میں سے ایک ہیں جو اس صنعت میں خواتین کے استحصال کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔
ریسلنگ کے مداح اور برطانیہ کے علاقے پونٹیپریڈ سے رکنِ پارلیمان ایلکس ڈیویز جونز نے اس حوالے سے ایک پارلیمانی انکوائری شروع کی ہے جس میں اس شعبے میں قوانین کی عدم موجودگی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
‘میں محسوس کرتی تھی کہ میں خاص ہوں‘
نادیہ کہتی ہیں ’جب میں اس وقت کے بارے میں سوچتی ہوں تو ظاہر ہے مجھے ہراساں کیا گیا۔۔۔ اور اس کے لیے مجھے تیار کیا گیا تھا۔‘
وہ بتاتی ہیں ‘اس وقت ویلز میں مجھے بہت سارے لڑکے پیغامات بھیجتے تھے۔ مجھے بہت سپیشل محسوس ہوتا تھا، مجھے لگتا تھا کہ لوگ مجھے پیار کر رہے ہیں۔‘
کارڈف سے تعلق رکھنے والی نادیہ اب 29 سال کی ہیں۔ انھیں بچپن سے ہی ریسلنگ کا شوق تھا اور وہ برطانیہ کی بہترین ریسلر بننا چاہتی تھیں۔
جب انھوں نے ایک تربیتی سکول جانا شروع کیا تو انھیں ساتھی ریسلرز کی طرف سے بہت سے پیغامات آنے لگے۔ ان میں سے کچھ تو ان کے ہم عمر تھے مگر کچھ پیغامات بھیجنے والے ان سے دس سے پندرہ سال زیادہ عمر کے بھی تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ خود اعتمادی میں کمی کی وجہ سے شروع میں تو انھیں اتنے لڑکوں کی توجہ بہت اچھی لگی مگر برس سے زیادہ عمر کے ایک ریسلر کے ساتھ ’جنسی تعلق‘ قائم کرنے کے بعد انھیں شرم آنے لگی کہ ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔
وہ کہتی ہیں ‘اگرچہ میری عمر کم تھی مگر مجھے ’رِنگ ریٹ‘ ( ring rat) کہا جانے لگا، ریسلنگ میں یہ اصطلاح اکثر استعمال ہوتی ہے۔۔۔‘
رِنگ ریٹ ایک ہتک آمیز اصطلاح ہے جو اُن لوگوں خاص طور پر نوجوان خواتین کے لیے استعمال ہکی جاتی ہے جو ریسلنگ کے ایونٹس میں اس لیے شرکت کرتی ہیں تاکہ دوسرے ریسلرز کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر سکیں۔
نادیہ کہتی ہیں کہ انھیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ کسی سے بھی اس سلسلے میں بات نہیں کر سکتیں۔
‘میں اپنی ماں سے بات نہیں کر سکتی تھی کیونکہ انھوں نے میری ریسلنگ رکوا دینی تھی۔ اور میں ریسلنگ کی دنیا کے لوگوں کو یہ نہیں کہنا چاہتی تھی کہ مجھے رِنگ ریٹ کہا جا رہا ہے، کہ کہیں وہ اس کا یقین ہی نہ کر لیں۔‘
نادیہ ان خواتین ریسلرز میں سے ایک ہیں جنھوں نے اس موسم سرما میں آواز بلند کرنے کے لیے شروع کی گئی مہم ’سپیکنگ آؤٹ‘ میں شرکت کی ہے۔
’خوفاناک کہانیاں‘
اس مہم کو ریسلنگ کی دنیا کی می ٹو موومنٹ کہا جا رہا ہے اور بہت سے لوگ اپنے خیالات کا آن لائن اظہار کر رہے ہیں۔
ایلکس ڈیویز جونز کہتی ہیں کہ انھوں نے یہ خوفناک کہانیاں سوشل میڈیا پر پڑھیں اور سوچا کہ انھیں اپنے عہدے کو استعمال کرتے ہوئے مدد کرنی چاہیے۔
اب اس حوالے سے انھوں نے پارلیمانی انکوائری شروع کروائی ہے جس کا مقصد یہ جاننا ہے کہ اس شعبے کو بہتر اور محفوظ تر کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں ‘یہ انتہائی تشویشناک ہے۔ کچھ کہانیوں میں تو ریسلنگ کرنے کی خواہش رکھنے والی 13 سے 14 سال کی لڑکیوں کو ریپ اور جنسی تشدد کی دھمکیاں ملی ہیں۔‘
’ہم نے ایسی کہانیاں بھی سنی ہیں کہ مرد ریسلرز اس بات پر مقابلہ کر رہے ہیں کہ اُن میں سے کون کسی خاتون ریسلر کا کنواراپن پہلے ختم کر پائے گا۔ یہ خوفناک کہانیاں ہیں۔‘
ڈیویز جونز کہتی ہیں کہ وہ انکوائری کے تنائج سے متعلق پہلے سے قیاس آرائی نہیں کرنا چاہتیں مگر ثبوتوں کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اس شعبے کے لیے ایک ریگولیٹری بورڈ کی ضرورت ہے۔
‘میرے خیال میں مسئلہ یہ ہے کہ ریسلنگ کو کھیل نہیں مانا جاتا، اسے پرفارمنس بھی نہیں مانا جاتا۔ اسے خود پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس انڈسٹری کے ہر شعبے کے لوگوں نے تحقیقاتی کمیٹی سے رابطہ کیا ہے۔
’سپیکنگ آؤٹ‘ مہم کے جواب میں ویلز کے متعدد ریسلنگ پروموٹرز اور تربیتی مراکز نے خواتین ریسلرز کی حمایت میں بیان دیے ہیں اور اس شعبے میں تحفظ فراہم کرنے کے نظام کے ازسرِ نو جائزے کی بات کی ہے۔
برطانیہ میں کچھ پروموشن کمپنیوں نے اپنے لائیو شوز بھی روک دیے ہیں۔
پروگریس ریسلنگ نامی تنظیم نے کہا ہے کہ ’اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ انڈسٹری چلتی رہے اور ایک اور سپیکنگ آؤٹ مہم نہ جنم لے تو ہم سب کو خود کو بہتر بنانا ہوگا کیوکہ اگر ہم ایک سطح پر ہوں تو ایک پیج پر ہوں گے، تو یہ سب کے لیے محفوظ ترین ہوگا۔‘
ریولوشن پرو ریسلنگ نامی تنظیم کے چیف ایگزیکٹیو اینڈی کوئلڈن نے کہا کہ وہ ‘ایک آزاد بورڈ چاہتے ہیں اور ہمیں قابلِ احتساب ٹھہرایا جانا چاہیے۔’
انھوں نے کہا ‘برطانوی ریسلنگ کو پروفیشنل ریسلنگ میں لفظ ‘پروفیشنل’ پر توجہ دینی چاہیے۔ لوگوں کی ذہنیت کو بنیادی طور پر تبدیل کرنے کی بات کریں تو یہ ایسی تبدیلی ہے جسے بالکل نچلی سطح سے شروع ہونا چاہیے۔’
نادیہ کے لیے محفوظ جگہ سوئنڈن میں ایک تربیتی سکول تھا جہاں انھوں نے 16 سال کی عمر میں داخلہ لے لیا۔ اب وہ ویلز لوٹ چکی ہیں مگر اب بھی وہاں ٹریننگ کرتے ہوئے انھیں ’گھبراہٹ‘ ہوتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘میرا ریسلنگ کیریئر اب تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ میں جہاں پہنچنا چاہتی تھی وہاں نہیں پہنچ سکوں گی۔ لیکن اگر میرے بات کرنے کی وجہ سے مستقبل میں ریسلنگ کرنے کی خواہشمند لڑکیوں کی مدد ہو سکتی ہے اور اس سے کوئی تبدیلی آ سکتی ہے، تو میں اس پر ضرور بات کروں گی۔‘