وہ کیوں بولا؟
پالتو بلی کو تنگ کریں، اُسے گھیر کر کونے میں لے جائیں تو وہ بھی پنجے جھاڑ کر حملہ آور ہو جاتی ہے۔ فاختہ جیسا امن پسند تو کوئی چرند پرند نہیں مگر کوئی چیل اُس کی جان لینے کے لئے اُس پر جھپٹ پڑے تو فاختہ بھی پھڑپھڑا کر چیل کے پنجوں سے نکلنے کی کوشش کرتی ہے۔
ہر شریف شہری اور ہر امن پسند کی ایک حد ہوتی ہے، سرخ لکیر عبور کرکے اگر شیر بھی بھینسوں کے علاقے میں آ جائے تو وہ اکٹھی ہو کر اُسے بھگانے کی کوشش کرتی ہیں۔ کراچی واقعے میں سرخ لکیر عبور کی گئی، اِسی لئے آئی جی سندھ بولا، اِسی لئے بلاول بھٹو بولا اور اِسی لئے آرمی چیف کو بھی بولنا پڑا۔
نواز شریف اقتدار سے نکلا، چپ رہا۔ الیکشن سے نااہل ہوا، چپ رہا۔ عدالتوں میں بار بار پیش ہوا، چپ رہا۔ سزائیں قبول کیں، چپ رہا۔ جیل گیا، چپ رہا۔ بیمار ہوا، چپ رہا۔ سیاست تو کرتا رہا مگر طاقتور اداروں کے خلاف زبان نہ کھولی۔ نجی محفلوں میں وہ ان کی چیرہ دستیوں اور زیادتیوں کی کہانی سناتا رہا مگر آن دی ریکارڈ اپنی زبان کو تالا لگائے رکھا مگر یہ حد ایک دن تو ٹوٹنا تھی، یہ خاموشی ایک نہ ایک دن تو ختم ہونا تھی۔ وہ لندن میں لمبے وقفے کے بعد جا ختم ہوئی اور پھر اُس کی انتہا گوجرانوالہ کے جلسے میں ہو گئی۔
عوام کو دیکھ لیں، دو سال سے خاموش ہیں، مہنگائی، بیروزگاری، آٹے اور چینی کی قلت کے ساتھ گزارہ کر رہے ہیں، عوام کو ریلیف دینے یا مہنگائی کو روکنے کی کوئی اسکیم کارگر نہیں ہو پا رہی، 50لاکھ گھروں کا وعدہ ایفا کیا ہونا تھا ابھی شروع ہی نہیں ہو سکا۔ سوئٹزر لینڈ اور بیرونی دنیا میں پڑی پاکستان سے چرائی ہوئی دولت کو واپس لے کر آنا تھا، اس میں ذرہ برابر پیش رفت نہ ہو سکی۔ ملک میں لاکھوں روپے کی کرپشن روکنی تھی، اربوں کی منی لانڈرنگ روک کر عوام کو خوشحال کرنا تھا ابھی تک کچھ بھی نہیں ہو سکا، عوام خاموش ہیں مگر ایک نہ ایک دن تو بولیں گے اور جب وہ بولیں تو چھپر پھاڑ کر بولیں گے۔
واقعۂ کراچی کے پس منظر کو دیکھ لیں سندھ حکومت کے ساتھ کیا نہیں ہوا۔ کبھی جزائر وفاق کے قبضے میں، کبھی دھمکی کہ کراچی کو وفاق کا حصہ بنا لیا جائے گا، کبھی یہ دعویٰ کہ سندھ میں گورنر راج لگا دیا جائے گا، کبھی نیب کی طرف سے وزیراعلیٰ کی طلبی، کبھی رینجرز کے چھاپے، کبھی کرپشن کے الزامات اور کبھی نااہلی کے طعنے لیکن اس کے باوجود سندھ حکومت معاملات کو کبھی انتہا تک نہ لے کر گئی بلکہ بار بار معاملات کو ٹالتی رہی۔
کئی بار سندھ حکومت کے اختیارات پر تجاوز کیا گیا، اُسے مرضی کے چیف سیکرٹری اور آئی جی دینے میں نخرے کئے گئے، سندھ حکومت یہ سب کچھ سہتی رہی مگر کیپٹن(ر) صفدر کی گرفتاری بالآخر وہ آخری تنکا ثابت ہوئی جس پر لمبی خاموشی کو توڑ کر آئی جی سندھ، چیف منسٹر سندھ اور بالآخر بلاول بھٹو کو ببانگِ دہل اپنے ردِعمل کا اظہار کرنا پڑا۔
بلّی ہو یا فاختہ، سندھ ہو یا پنجاب، انسان ہو یا جانور، سیاستدان ہو یا سرکاری ملازم کسی کو بھی اتنا تنگ کیا جائے کہ اس کا حوصلہ اور برداشت دم توڑ جائے تو پھر وہ بول پڑتا ہے، چیختا ،چلاتا ہے، احتجاج کرتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شکاری کیوں اپنی حدود میں نہیں رہتے۔ دنیا میں ہر کوئی شکاریوں کے بیانیے سے واقف ہے۔
کسی دن شکار ہونے والے جانور شکاریوں کی بےرحمی پر بول پڑے تو دنیا کی تمام کہانیاں اور اُن کے کردار بدل جائیں گے۔ پاکستان کے طاقتوروں کو بھی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے گنجائش ضرور رکھنی چاہئے۔ پریشر ککر میں سے اگر ہوا نکل کر سیٹی نہ بجائے تو پریشر ککر پھٹ ہی جائے، اسی لئے تو پریشر ککر میں سوراخ رکھا جاتا ہے کہ جب ابال آئے تو ہوا سیٹی کی شکل میں سب کو خبردار کر دے۔ طاقتوروں کو پریشر ککر سے ہی سبق حاصل کر لینا چاہئے۔
بلاول بھٹو اور نواز شریف جو بولے ہیں، تنگ آمد بجنگ آمد بولے ہیں، پاکستان کی موجودہ حکومت نے وحشی ادوار کی طرح ملک فتح نہیں کیا جو مفتوح پارٹیوں یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو پھانسیوں پر ہی چڑھا دے، نہ ہی یہ حکومت انقلابِ فرانس یا انقلابِ ایران کی طرح برسراقتدار آئی ہے کہ اپنے ہر مخالف کو ٹکٹکی پر چڑھا دے۔ پاکستان ایک مہذب جمہوری ملک ہے جس میں انتخابات کے ذریعے موجودہ حکومت کو اقتدار ملا، موجودہ حکومت کو اقتدار میں آنے کے لئے ووٹ ملے، دوسری جانب اپوزیشن کو مجموعی طور پر حکومت سے بھی زیادہ ووٹ ملے، وہ الگ الگ جماعتوں میں تھے اس لئے حکومت نہ بنا سکے۔
گویا انتخابات نے کسی کو فاتح یا مفتوح قرار نہیں دیا، اگر وحشی ادوار کی طرح فاتح مفتوح والا رویہّ اختیار کیا جائے گا تو جمہوری نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا، جس کا سب سے زیادہ نقصان موجودہ حکومت ہی کو ہو گا۔
میری عاجزانہ رائے میں ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مصالحت کا راستہ نکالا جائے۔ ابھی تو صرف بلاول اور نواز شریف بولے ہیں، جب عوام بھی بول اُٹھے تو پھر احتجاجی تحریک کو روکنا اور کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اپوزیشن کا پوٹینشل یا صلاحیت جو کچھ اب تک ہوا ہے، اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر واقعی اپوزیشن نے اپنا پورا زور احتجاجی تحریک میں لگا دیا تو پانسہ فوراً پلٹ جائے گا مگر اس طرح سے حکومت کا جانا ملک اور جمہوری نظام کے لئے ہر گز مفید نہیں ہوگا۔
یاد رکھا جائے کہ تحریکوں اور جلسوں کے دوران بظاہر چھوٹے چھوٹے واقعات ہی بعد میں بڑے ہو جاتے ہیں، غیراہم چیزیں اہم ہو جاتی ہیں۔ کیپٹن (ر)صفدر نے مزارِ قائد پر نعرے لگائے، بظاہر یہ غیراہم اور چھوٹا سا واقعہ تھا۔
اِسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا مگر رات کے اندھیرے میں مریم نواز کے کمر ے کا دروازہ توڑ کر کیپٹن (ر)صفدر کو گرفتار کرنا اور پھر اُس سے ہی جڑا ہوا یہ واقعہ کہ کس طرح رینجرز نے آئی جی پولیس کے گھر کا محاصرہ کر کے اُن سے پولیس کو کیپٹن (ر)صفدر کو گرفتار کرنے کا حکم دلوایا۔ اب یہی چھوٹا واقعہ پچھلے کئی روز سے اخبارات کی شہ سرخی بنا ہوا ہے۔ آرمی چیف تک کو اِس کی انکوائری کا حکم دینا پڑا ہے، اگر اپوزیشن اپنا احتجاج جاری رکھتی ہے اور جواباً حکومت ردِعمل کا اظہار کرتی ہے تو پھر ہم لازماً تصادم کی طرف جائیں گے۔ یا تو حکومت حوصلہ اور برداشت دکھائے، اپوزیشن کو جلسے جلوس کرنے دے، کوئی ردِعمل نہ دکھائے تو یہ جلسے اور جلوس گزر جائیں گے، حکومت کو کوئی گزند نہ پہنچے گی۔
مگر جس طرح حکومت نے گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں کے ردِ عمل میں گرم اور سخت بیانات دیے ہیں، کیپٹن (ر)صفدرکی گرفتاری کے لئے دبائو ڈالا ہے، اُس سے حکومت کی پریشانی اور بےچینی صاف نظر آ رہی ہے، اِس طرح کی حالت میں غلطی پر غلطی سرزد ہوتی ہے اور بالآخر معاملہ کنٹرول سے باہر ہو جاتا ہے۔
ابھی معاملہ بولنے تک آیا ہے، اُسے کچھ کرنے تک نہ جانے دیں۔ بولنے والوں کو انصاف دے دیں تو حالات ٹھیک ہونے کی توقع ہے ورنہ حالات خراب سے خراب تر ہوتے جائیں گے۔