پانچ سالہ بچی شادی کے بعد بازیاب: ’سسر کی ضد کے آگے ہار ماننا پڑی‘
پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے بلوچستان کے ضلع خضدار میں پانچ سالہ بچی کی جبری شادی کے واقعے کا ازخود نوٹس لیا ہے۔
عدالت نے بلوچستان کی حکومت سے اس معاملے پر تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس سید محمد انور نے منگل کو اس معاملے کی سماعت کی تو ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
اس موقع پر چیف جسٹس شرعی عدالت کا کہنا تھا کہ ’ایسا واقعہ ہماری شریعت کے سخت خلاف ہے۔‘
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس واقعے میں ملوث دو ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں جبکہ بچی کو بھی بازیاب کروا لیا گیا ہے جبکہ نکاح خواں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بچی کا نکاح جس لڑکے کے ساتھ پڑھوایا گیا تھا اس کی عمر 12 سے 13 سال کے درمیان ہے۔
بچی کے بھائی فدا حسین نے بتایا کہ ’ہم نے بچی کے سسر کو کہا کہ جب بچی بالغ ہو گی تو ہی ہم اس کی شادی کروائیں گے لیکن سسر نے نہ صرف زبردستی نکاح پڑھوایا بلکہ بچی کواپنے گھر میں روک لیا۔‘
خضدار پولیس کے ایس ایس پی جاوید غرشین نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سلسلے میں پولیس نے کارروائی کر کے دو ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے جن میں بچی کا سسر بھی شامل ہے جبکہ نکاح خواں کی تاحال گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
مقامی سطح پر ادلی بدلی یا وٹہ سٹہ کے اس واقعے میں ملوث دونوں فریقین کا تعلق ضلع خضدار سے ہے۔
ان میں سے ایک فریق کا تعلق خضدار شہر کے علاقے کٹھان سے جبکہ دوسرے فریق کا تعلق خضدار کی تحصیل زہری سے ہے۔
کمسن بچی کی نکاح سے متعلق درج ایف آئی آر کے مطابق تحصیل زہری سے تعلق رکھنے والے محمد میراجی مینگل نے اپنے بیٹے فدا حسین کا رشتہ خضدار شہر کی رہائشی مہر علی میراجی کی بیٹی سے طے کروایا تھا جبکہ بدلے میں محمد میراجی کی بیٹی کا رشتہ مہر علی کے بیٹے سمیع اللہ سے طے کیا گیا۔
ان میں سے محمد میراجی کے بیٹے فدا حسین اور ان کی منگیتر بالغ تھیں جبکہ ان کے مقابلے میں مہر علی کے بیٹے کی عمر نہ صرف کم تھی بلکہ ان کی منگیتر کی عمر تو بہت زیادہ کم تھی جو کہ ایف آئی آر کے مطابق صرف پانچ سال ہے۔
بالغ ہونے کے باعث فدا حسین کی شادی کے لیے 24 اکتوبر کا دن مقرر کیا گیا تھا اور اسی روز ان کی بارات کٹھان میں دلہن کے گھر پہنچ بھی گئی لیکن نکاح سے پہلے مہر علی نے ایک شرط رکھ دی۔
کمسن بچی کے والد محمد میراجی کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق چونکہ ان کا بیٹا اور ان کی منگیتر بالغ تھے تو مہر علی سے خواہش ظاہر کی کہ دونوں کی شادی کروائی جائے جس پر مہر علی نے آمادگی ظاہر کی۔
’سسر کی ضد کے آگے ہار ماننا پڑی‘
محمد میراجی کے مطابق ’ہم 24 اکتوبر کو بارات لے کر کٹھان میں مہر علی کے گھر پہنچے اور جب رات آٹھ بجے نکاح کی رسم شروع ہوئی تو مہر علی نے میرے بیٹے فدا حسین کا نکاح پڑھوانے سے پہلے اپنے بیٹے سمیع اللہ کا نکاح میری بیٹی سے پڑھوانے کی ضد کی۔
’مہر علی نے کہا کہ سب سے پہلے میں اپنے بیٹے سمیع اللہ کا نکاح پڑھواﺅں گا۔ اس کے بعد آپ کے بیٹے فدا حسین کا نکاح ہو گا، ایسا نہ ہونے کی صورت میں مہراللہ نے کہا کہ یہ شادی نہیں ہوگی۔‘
محمد میراجی کے مطابق اُنھوں نے ان کی کافی منت سماجت کی کہ بچی بہت چھوٹی ہے لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہے۔ ’حافظ محمد خدرانی کے ذریعے پہلے میری کمسن بیٹی کا نکاح اپنے بیٹے کے ساتھ پڑھوایا اور اس کے بعد میرے بیٹے کا نکاح اپنی بیٹی کے ساتھ کروایا۔‘
فدا حسین نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ ’سب نے میرے سسر کو بتایا کہ جب ہم نے اس رشتے کا وعدہ کیا ہے تو بالغ ہونے پر ہم ان کا نکاح کروائیں گے اور اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
’لوگوں نے اُنھیں ہر طرح سے سمجھانے کی کوشش کی بچی بہت زیادہ چھوٹی ہے لیکن اُنھوں نے کسی کی بھی بات نہیں مانی اور اپنی ضد پر قائم رہا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ’مجبوراً ہمیں ان کی بات ماننا پڑی اور میرے نکاح سے پہلے میری بہن کا نکاح ان کے بیٹے کے ساتھ پڑھوایا گیا۔‘
بلوچستان کے قبائلی سماج میں کم سن بچیوں کے رشتے بھی طے کیے جاتے ہیں لیکن ان کی رخصتی اس وقت کروائی جاتی ہے جب وہ بالغ ہوتی ہیں یا لڑکپن کی عمر میں داخل ہوتی ہیں۔
لیکن محمد میراجی کی بیٹی کی عمر بہت کم تھی اس لیے نکاح کے بعد وہ اپنی بیٹی کو اپنے گھر زہری لے جانا چاہتے تھے مگر ایف آئی آر کے مندرجات کے مطابق مہر علی نے کم سن بچی کو جانے نہیں دیا۔
محمد میراجی کے مطابق ’جب ہم اپنے گھر کے لیے روانہ ہوئے تو مہر علی نے اپنے دوسرے ساتھی شکر علی جتک کے ساتھ مل کر میری بیٹی کو زبردستی روکا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اہل محلہ اور دیگر لوگوں نے مہر علی کی منت سماجت کی لیکن اُنھوں نے کسی کی بات نہیں مانی اور ’میری بیٹی کو نہیں جانے دیا جس پر ہم مجبوراً اپنے گھر چلے گئے۔‘
’بیٹی خوبصورت تھی، معلوم نہیں کہ وہ کب سے آنکھ لگا کر بیٹھا تھا‘
پولیس نے اب تک کیا کارروائی کی؟
ایس ایس پی خضدار جاوید غرشین نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ جونہی کم سن بچی کی شادی کا معاملہ پولیس کے علم میں آیا تو اس نے کارروائی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے مہر علی سمیت دو افراد کو گرفتار کر لیا اور بچی کو بازیاب کروا کے ان کے والدین کے حوالے کیا۔
اس واقعے کی ایف آئی آر خضدار شہر میں صدر پولیس سٹیشن میں چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 کی شقوں کے علاوہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 420، 342 اور 34 کے تحت درج کروائی گئی ہے۔
تھانے کے ایس ایچ او عطااللہ جاموٹ نے فون پر بتایا کہ جب اُنھیں اس واقعے کے بارے میں علم ہوا تو اُنھوں نے بچی کے والد اور رشتے داروں کو بلایا۔
ان کا کہنا تھا کہ مقدمے کے اندراج کے بعد بچی کو بازیاب کروا کے مہر علی اور ان کے ساتھی شکر علی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ جس شخص نے کم سن بچی کا نکاح پڑھایا، وہ تاحال گرفتار نہیں ہوا ہے تاہم ان کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔