غزل
چراغ سہما ہوا تھا مگر وہ جلتا رہا
ہوا کا دیکھ کے تیور جگہ بدلتا رہا
اسے نہ دشت کی دہشت نہ ڈر یزیدوں کا
جو پیاس دل میں بسائے ہمیشہ چلتا رہا
مری حیات کا بس اتنا ہی فسانہ ہے
میں حادثوں سے گزرتا رہا سنبھلتا رہا
رہا نہ خوف نہ اندیشہ ء سفر باقی
ہیں خضر ساتھ مرے، اس یقیں سے چلتا رہا
لگائی آگ مرے دل میں جب سے اس نے فہیم
دھواں دھواں ہوا منظر وجود جلتا رہا