وہ ’سانتا کلاز‘ جو ہم جنس پرست سیریل کلر نکلا
بروس میک آرتھر ایک باغبان تھا جو کینیڈا میں ایک شاپنگ سینٹر میں سانتا کلاز کے طور پر بھی کام کرتا تھا۔
برسوں پہلے ایک پرتشدد حملے کے جرم میں معمولی نوعیت کی سزا کاٹنے اور پولیس سے متعدد بار سامنا ہونے کے باوجود وہ کافی عرصہ تک گرفتاری سے بچتا رہا۔ جب انھیں گرفتار کیا گیا تھا اس وقت تک وہ سنہ 2010 سے 2017 کے درمیان آٹھ افراد کو قتل کر چکا تھا۔
67 سالہ آرتھر پر آٹھ افراد کے قتل کا مقدمہ چلا اور انھوں نے سماعت کے دوران اپنا جرم قبول کیا تھا۔
اس کے شکار افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق ٹورونٹو کے قریب ہی ہم جنس پرستوں کے علاقے سے تھا۔ تقریباً تمام افراد کا تعلق جنوب ایشیائی ممالک سے تھا۔
لیکن کیونکہ میک آرتھر نے سماعت کے دوران اقبال جرم کر لیا تھا اس لیے اس کیس سے متعلق زیادہ ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیے گئے۔
بی بی سی کے نامہ نگار مبین اظہر نے ٹورنٹو کا دورہ کیا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ بروس میک آرتھر نے سات برس کے دوران بنا پکڑے گئے، آٹھ افراد کا قتل کیسے کیا تھا۔
انھیں یہ پتا چلا کہ پولیس کی گرفت میں آنے سے بہت سال پہلے ہی پولیس اس کی تلاش میں مصروف تھی۔
ایک خوش قسمت فرار
میک آرتھر کے چنگل سے فرار ہونے والا ایک خوش قسمت شخص شان کریبن تھا جو اسے جولائی 2017 میں ملا تھا۔
ان دونوں کے درمیان ایک آن لائن ڈیٹنگ ایپ پر پیغامات کا تبادلہ ہوا تھا جہاں میک آرتھر نے ’سلور فوکس‘ کا نام استعمال کیا تھا۔ میک آرتھر نے اپنے آن لائن پروفائل میں خود کو ’لیدر ڈیڈی‘ (وہ شخص جو جنسی رشتے میں تمام اختیار رکھتا ہو) کے طور پر بیان کیا اور لکھا کہ ’وہ اپنے ساتھی کو کسی بھی حد تک لے جانا پسند کرتے ہیں۔‘
کریبن، سیکس کرنے کے لیے میک آرتھر کے اپارٹمنٹ میں آئے تھا لیکن وہ جی ایچ بی نامی نشہ آور دوا استعمال کر کے بے ہوش ہو گئے تھے۔
کریبن یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جب میں ہوش میں آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ وہاں کھڑا میری طرف دیکھ رہا ہے۔اس نے کبھی بھی اس حقیقت کا کوئی حوالہ نہیں دیا کہ ’میں 20 منٹ کے لیے بے ہوش ہو گیا تھا۔ میں اسے ایک بری ملاقات کے طور پر لیتا ہوں۔‘
لیکن درحقیقت، کریبن خوش قسمت ہیں کہ وہ زندہ ہیں۔ ان سے میک آرتھر کی یہ ملاقات آرتھر کے اپنے آٹھویں شکار کو مارنے کے صرف ایک ماہ بعد ہوئی تھی۔
واقعے کے کچھ عرصے بعد ایک جاسوس نے کریبن سے رابطہ کیا اور بتایا کہ میک آرتھر کی ہارڈ ڈرائیو پر اس کی ایک تصویر ملی ہے۔
کریبن نے بتایا کہ ’اس نے میرے سر پر ایک ہڈ ڈالا اور میری آنکھوں پر ٹیپ لگا دی، اس کا ہاتھ میرے گلے پر تھا اور اس نے میری تصویر کھینچی تھی اور وہ 20 منٹ کی ملاقات تھی۔‘
کریبن کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ تصویر موجود ہے جب تک کہ پولیس نے اسے اطلاع نہیں دی، لیکن اپنے شکار کے ساتھ تصویر کھنچوانے کی عجیب عادت آرتھر کے رویے کا حصہ تھی۔
پولیس کو میک آرتھر کی ہارڈ ڈرائیو پر سے نمبر والے فولڈر ملے جو ان آٹھ مردوں میں سے ہر ایک کے تھے جنھیں اس نے قتل کیا تھا۔ میک آرتھر نے اپنے شکار افراد کو فر کوٹ بھی پہنایا تھا اور اس فولڈرز میں ان مردوں کی موت سے پہلے اور بعد کی تصاویر موجود تھیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اس نے یہ تمام تصاویر یاد کے طور پر محفوظ رکھی ہوئی تھیں۔ دنیا کے بہت سے شہروں کی طرح غیر ممنوعہ منشیات جی اچ بی ٹورنٹو میں با آسانی مل جاتی ہے۔
کچھ لوگ جنسی تعلقات کے دوران اس نشہ آور دوا کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کا کوئی ذائقہ یا بو نہیں اور یہ آسانی سے بے ہوشی کا سبب بن سکتی ہے۔
جی ایچ بی دوا مہیا کرنے والے ایک ڈیلر جو اپنا نام ’جوئی‘ بتاتے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ منشیات کا استعمال کرنے اور میک آرتھر کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کے لیے اس کے گھر جاتے تھے۔
جوئی بتاتے ہیں کہ ’ہم دونوں نے جی ایچ بی نشے کا استعمال کیا ہوا تھا، مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہونے لگا تھا کیونکہ وہ مجھ سے عجیب سے سوال پوچھ رہا تھا جیسا کہ کیا تم اپنے گھر والوں کے قریب ہو؟ کیا تمھارے کوئی اور بہن بھائی ہیں۔‘
’اس دوران مجھے یہ خیال آیا کہ اگر میں غائب ہو گیا تو کیا کوئی مجھے یاد کرے گا۔ میں نے اسے بتایا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں، اس لیے مجھے جانا ہے۔ اس کی آنکھوں میں زندگی نہیں تھی وہ مجھے شیطان لگ رہا تھا۔ جب بھی میں اس کا نام سنتا ہوں مجھے گھن آتی ہے۔‘
شان کریبن کی طرح جوئی بھی اس کے حملے سے بچ نکلے تھے لیکن دیگر آٹھ نہیں بچ سکے۔
پوشیدہ زندگیاں
میک آرتھر کے ہاتھوں مارے جانے والے بہت سے مرد اپنے مذہبی پس منظر جیسی چیزوں کی وجہ سے ان کے ساتھ جنسی تعلقات کے بارے میں ہمیشہ ایماندار نہیں تھے۔
مثال کے طور پر ان کا شکار بننے والے کرشنا کمار کناگرتنم کینیڈا میں روپوش تھے کیونکہ سری لنکا سے فرار ہونے کے ان کی سیاسی پناہ حاصل کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
اور ان کے لاپتہ ہونے کی کبھی اطلاع نہیں دی گئی کیونکہ ان کے دوستوں اور خاندان والوں کو خطرہ تھا کہ اس سے انھیں کسی مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اسی طرح ایک اور مقتول عبدالبصیر فیضی افغان نژاد تھے اور ایک تارکین وطن کے طور پر کینیڈا آئے تھے۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہتے تھے اور ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے۔
جس رات وہ غائب ہوئے، وہ ٹورنٹو کے ہم جنسوں کے علاقے میں ہیم برگر جوائنٹ نامی جگہ پر گئے تھے۔
عبدالبصیر کی اہلیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب انھیں یہ بتایا گیا تو انھیں ’شدید صدمہ‘ لگا تھا۔
میکر آرتھر کے ہاتھ لگنے والے بہت سے مردوں کی طرح عبدالصیر کی بھی ایک پوشیدہ زندگی تھی۔
آج، ٹورنٹو کی افغان کمیونٹی میں بہت سے لوگوں کو اب بھی عوامی سطح پر اس بارے میں بات کرنے میں مشکل پیش آتی ہے کہ عبدالبصیر اور دوسرے افغان کینیڈین کے ساتھ کیا ہوا تھا جن کا میک آرتھر استحصال کر رہا تھا۔
کچھ متاثرین کے اہلخانہ اور دوستوں سے بات کرتے ہوئے یہ واضح ہو گیا کہ جنسیت کے بارے میں بات کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔
میک آرتھر کے ہاتھوں شکار ہونے والے افراد میں سے ایک مجید کیہان چرچ سٹریٹ کے قریب رہتے تھے۔ اپنی بیوی سے رشتہ ٹوٹنے کے بعد وہ وہاں منتقل ہو گئے تھے۔
ان کے ہم جنس پرست دوستوں کے مطابق وہ کسی مرد کے ساتھ تعلق میں تھے جس کے بارے میں ان کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ وہ ان کے روم میٹ تھے۔
مجید کے بھتیجے صابر کا کہنا ہے کہ ان کے چچا کی شادی نہیں چل سکی تھی لیکن ان کے اپنے بچوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔
صابر کہتے ہیں کہ ’وہ اپنے بچوں سے پیار کرتے تھے اور ان کا اپنی بیوی کے ساتھ اچھا تعلق تھا اور ان کے درمیان نارمل رابطہ تھا۔‘
مجید کے ایک مرد کے ساتھ تعلقات کے بارے میں جو کچھ بھی کہا گیا اس کے باوجود ان کے خاندان کا مؤقف ہے کہ وہ ہم جنس پرست نہیں تھے۔
ان کے بھتیجے صابر کا کہنا ہے کہ ’میں انھیں اچھی طرح جانتا ہوں وہ ایسی کسی سرگرمی میں نہیں تھے شاید انھیں کسی چیز کے بارے میں غلط بتایا گیا تھا۔‘
مواقع ضائع کرنا
جب میک آرتھر کو آخر کار پکڑا گیا تو ٹورنٹو میں ہم جنس پرستوں کی جانب سے اس بات پر احتجاج کیا گیا کہ وہ کس طرح سات سال تک بغیر کسی کے علم میں آئے قتل کرنے میں کامیاب رہا، خاص طور پر جب اس کا پولیس کے ساتھ متعدد بار آمنا سامنا بھی ہوا اور اس کے کچھ متاثرین کے ساتھ تعلقات بھی تھے۔
دسمبر 2010 میں لاپتہ ہونے والے ابوالبصیر فیضی کے کیس کی تفتیش کرنے والی ایک جاسوس کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ شاید وہ کسی سیریل کلر سے نمٹ رہے ہیں۔
میری کیتھرین مارسوٹ اس وقت اونٹاریو میں پیل ریجنل پولیس کے لیے کام کر رہی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب آپ دفتر واپس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پاس ایک سیریل کلر ہے تو سب ہنستے ہیں۔ یقیناً، کیونکہ پولیس آفیسر کے کیریئر میں سیریل کلر کو پکڑنے کا کیا موقع ہے؟ واقعی بہت کم موقع ہوتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے فوراً ٹورنٹو پولیس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ میں نے ایک وائس میل چھوڑا اور انھوں نے مجھے واپس کال نہیں کی۔ میں پریشان ہو رہی تھی، اس لیے میں نے ایک باقاعدہ ای میل بھیجی تھی۔‘
اس ای میل میں میری کیتھرین نے ٹورنٹو کے ہم جنس پرستوں کے علاقے میں دو آدمیوں کے درمیان مماثلتوں کو اجاگر کیا تھا جو دونوں سیاہ فام تھے اور جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ اس وقت کے دوران لاپتہ ہوئے تھے۔
میری کیتھرین کہتی ہیں کہ اس شہر کی پولیس نے کبھی جواب نہیں دیا۔ بدلے میں، ٹورنٹو پولیس کا کہنا ہے کہ اس تنبیہ کا کوئی ریکارڈ نہیں۔
میک آرتھر نے گرفتار ہونے سے پہلے چھ مزید مردوں کو قتل کیا تھا۔ عبدالبصیر فیضی درحقیقت اس کا دوسرا شکار بنے تھے۔
عبدالبصیر کے علاوہ سیلم ایسن، اینڈریو کنزمین، مجید کیہان، ڈین لیسووک، کرشنا کمار کناگرتنم، سکندراج نوارتنم اور سوروش محمودی وہ دیگر سات افراد تھے جنھیں میک آرتھر نے قتل کیا تھا۔
ٹورنٹو پولیس کے لاپتہ افراد کے معاملات سے نمٹنے کے آزادانہ جائزے میں سیریل کلر کی تفتیش میں ’سنگین خامیاں‘ پائی گئیں لیکن اس میں خاص افسران کے اچھے کام کو بھی تسلیم کیا گیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کوتاہیاں ’تعصب یا جان بوجھ کر امتیازی سلوک کی بنیاد کی وجہ سے نہیں تھیں۔‘
جو لوگ ان آٹھ آدمیوں کو جانتے اور ان سے محبت کرتے تھے ان کی زندگی میں ہمیشہ ایک خلا رہے گا۔